یہ جو چھوٹے ہوتے ہیں اصل میں یہ گھر کے بڑے ہوتے ہیں

یہ جو چھوٹے ہوتے ہیں اصل میں یہ گھر کے بڑے ہوتے ہیں

آج میرا لاہور جانے کا اتفاق ہوا ۔بس میں سوار ہوا جیسے ہی گوجرانوالہ کو الوداع کہا تو اچانک میرے کانوں میں ایک کم عمر بچے کی آواز پڑی۔ وہ سویاں بیچ رہا تھا ۔وہ آواز لگاتا اور اچانک کھیلنے میں مشغول ہو جاتا ،پھر اچانک آواز لگانے لگتا ۔میں نے جب اس کی طرف دیکھا تو اس کی طرف دیکھتا ہی رہا ۔ایسا محسوس ہوا کہ اس کی سوالیہ نظریں مجھ سے کچھ کہہ رہی ہوں۔ اس نے مجھ سے 2، 3 دفعہ مسکرا کر سویاں لینے کےلئے کہا ۔میں نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا کہ بھائی یہ کام کب سے کر رہے ہو؟ 3 سال ہو گئے ہیں اس کام کو کرتے ہوئے اس نے کہا اور ایک لمحے کے لئے خاموش ہو گیا ۔میں نے کہا پڑھتے نہیں کیا ؟اس نے مصنوعی مسکراہٹ دے کر کہا بہن بھائیوں میں بڑا ہوں کما کر باقی بہن بھائیوں کو پڑھاتا ہوں۔ یہ بات کہہ کر وہ فخر سے میری طرف دیکھنے لگا۔ اس کی یہ بات سن میرا دل اس کو داد دینے کا کیا اور میں دل ہی دل میں کہنے لگا کہ واقعی تم گھر میں سب سے بڑے ہو۔جس نےبہن بھائیوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنی خواہشات کو داؤ پر لگا دیا ہے ۔ مجھے اس کی باتیں سن کے لگا کہ شاید وہ صدیوں سے انتظار میں تھا کہ کوئی ہو جس سے میں اپنی دل کی باتیں کر سکوں ۔ وہ اپنی باتیں سنانے میں مصر وف تھا اور میں حیرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھے جارہا تھا ۔ اس کے منہ سے نکلنے والے معصومانہ الفاظ سیدھا میرے دل پر لگ رہے تھے۔ اس کی باتیں سن کر میرے ذہن میں ایک شعر گردش کرنے لگا کہ
میرے حصے میں نہ کتابیں نہ کھلونے آئے
خواہش رزق نے چھینا میرا بچپن مجھ سے
خیر وہ اپنی باتیں پوری کر کے چلا گیا ۔ لیکن جاتے جاتے ایک سوال چھوڑ گیا کہ کیا میں کوئی خواہش نہیں رکھتا ؟ میں اس کی باتوں سے باہر نکلا تو سوچا اس میں اس کا کیا قصور ہے ؟کیا یہ ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہو گیا ہے جہاں ہر ایک اپنا پیٹ بھرنے میں لگا ہے۔ قصور اس میں سب سے پہلے ہمارا ہے جو ایسے حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں.

رہی بات چائلڈ لیبر کی روک تھام کی تو یہ صرف باتوں تک ہی محدود ہے۔

معصوم بچوں سے چھوٹی عمر میں اس کی استطاعت سے زیادہ کام لینا کہاں کا انصاف ہے۔اور غریب آدمی مرے کیا نہ کرے گھر کا دیا جلانے کے لئے کچھ تو کرے گا۔ کتنے غریب گھرانے ہیں جو رات کا کھانا کھائے بغیر سوتے ہیں ۔اس بات کا کسی کو نہیں پتہ کیونکہ ہر کوئی اپنی اپنی دھن میں مگن ہے۔ کاش حضرت عمر رضی اللہ عنہ والا زمانہ لوٹ آئے کوئی حکمران ان جیسا آئے جو اپنی عوام کے ساتھ پورا تعاون کرے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے '' کہ اگر میرے دورے حکومت میں اگردریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر گیا تو قیامت کے روز اللہ کے حضور میں جوبداہ ہوں گا '' اور جانور تو دور کی بات یہاں توانسانوں کے انسان مر رہے ہیں لیکن حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

فقیر شہر کے تن پر لباس ابھی باقی ہے
امیر شہر کے ارمان ابھی کہاں نکلے
حکمرانوں کو کھلا پیغام ہے کہ دو چار بچوں کے ساتھ تصویریں بنا کر میڈیا پر دکھانے سے چائلڈ لیبر کو نہیں روکا جا سکتا ۔اس کام کو حتمی شکل دینے کے لئے سرے سے نظام کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ جتنا غربت پر قابو پایا جائے گا اتنا ہی بچوں سے کام کروانے کا رجحان کم ہوگا ۔اس وقت 13 کروڑ سے زائد عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔پاکستان میں غربت کی شرح 65 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔پاکستان کے 1973آئین کی شق 11کے مطابق 14 سال سے کم عمر بچے کہیں پر بھی ملازمت یا محنت مزدوری نہیں کر سکتے ۔ستمبر 2013 میں آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں تقریباََ 215 ملین بچے چائلڈ لیبر کی چکی میں پس رہے ہیں ۔جبکہ پاکستان کے ادارہ شماریات کی2014-2015 کی رپورٹ کےمطابق پاکستان میں 10 سے 15 سال کی عمر کے کام کرنے والےبچوں کی تعداد پاکستان کی کل آبادی کا تقریباََ3.8 فیصد ہے ۔

جیسے جیسے سال گزرتے جارہے ہیں ویسے ویسے کام کرنے والے بچوں کی تعداد بجائے کم ہونے کے زیادہ ہوتی جارہی ہے ۔حکومت اور دوسرے ادارے جو اس کی روک تھام میں سرگرم ہیں ،ناکام ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے لیکن اس کے باوجود غربت اور چائلڈ لیبر پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا۔حکومت اگر اپنے ذاتی بجٹ کا تھوڑا سا حصہ بھی اپنے ملک کی غریب عوام پر لگانا شروع کر دے تو ایک دن یہ ملک غربت کی دلدل سے نکل جائے گا ۔اور ملک مزید خوشحالی کی طرف گامزن ہوجائے گا ۔

ساحرعلی نیو ٹی وی میں ایسوسی ایٹ پروڈیوسر ہیں  

انکا فیس بک آئی ڈی https://www.facebook.com/sahirali08