شامی جیلوں میں13 ہزار افراد کو پھانسی دیئے جانے کا انکشاف

شامی جیلوں میں13 ہزار افراد کو پھانسی دیئے جانے کا انکشاف

واشنگٹن: حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق شام کی ایک جیل میں خفیہ طور پر 13 ہزار افراد کو پھانسی دی گئی۔ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ پھانسی پانے والوں میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ایمنسٹی کی رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ صدنایا نامی جیل میں ستمبر 2011 ءسے دسمبر 2015 ءتک ہر ہفتے اجتماعی پھانسی دی جاتی رہی۔

ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں 84 افراد کے انٹرویو کیے جن میں جیل کے سابق محافظ، حراست میں لیے گئے افراد اور جیل کے عملے کے ارکان شامل تھے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ دارالحکومت دمشق کے شمال میں واقع جیل میں ہفتے میں ایک بار اور کئی بار ہفتے میں دو بار 20 سے 50 لوگوں کو پھانسی دی جاتی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حراست میں لیے جانے والے افراد کو پھانسی دینے سے پہلے دمشق کے ضلع القابون میں واقع فوجی عدالت میں پیش کیا جاتا جہاں ایک سے تین منٹ کی مختصر سماعت ہوتی تھی۔

فوجی عدالت کے سابق جج نے تنظیم کو بتایا ہے کہ زیر حراست افراد سے پوچھا گیا کہ وہ مبینہ جرائم میں ملوث ہیں کہ نہیں اور اس پر اگر جواب ہاں کے علاوہ نہیں بھی ہوتا تو ان کو مجرم قرار دے دیا جاتا تھا۔صدیانا نامی جیل میں ستمبر 2011 ءسے دسمبر 2015 ءتک ہر ہفتے اجتماعی پھانسی دی جاتی رہی۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ زیر حراست افراد کو پھانسی والے دن ہی اس کے بارے میں آگاہ کیا جاتا تھا اور انھیں وہاں سے سویلین جیل میں منتقل کیا جاتا جہاں ایک سیل میں ان پر دو سے تین گھنٹے تشدد کیا جاتا تھا۔

اس کے بعد درمیانی شب میں ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر انھیں جیل کے ایک دوسرے حصے میں منتقل کیا جاتا تھا اور جہاں ایک کمرے میں ان کی گردن میں پھندا ڈالنے سے چند منٹ پہلے انھیں پھانسی دینے کے بارے میں بتایا جاتا۔

اس کے بعد لاشوں کو ٹرکوں کے ذریعے دمشق کے ایک فوجی ہسپتال میں بھیجا جاتا جہاں کاغذی کارروائی کے بعد فوج کی زمین پر واقع قبرستان میں اجتماجی قبر میں دفنا دیا جاتا تھا۔ایمنسٹی نے عینی شاہدین کی مدد سے حاصل کی جانے والی معلومات کی بنیاد پر اندازہ لگایا ہے کہ پانچ برس کے دوران 5 ہزار سے 13 ہزار افراد کو پھانسی دی گئی۔