جنید جمشید کی وفات پر بین الاقوامی میڈیا کاتبصرہ

جنید جمشید کی وفات پر بین الاقوامی میڈیا کاتبصرہ


لاہور : دل دل پاکستان ، جان جان پاکستان کہنے والا جنید جمشیدگلیمر کو تو چھوڑ گیا تھا مگر گلیمر اس کو نہ چھوڑ سکا۔ سال 2016 جاتے جاتے ،پاکستانیوں سے بین الااقوامی شہرت کے حامل اورنیا بھر کے دلوں پر راج کرنے والی تین اہم ترین شخصیت چھین کر لے گیا ،جن میں قوال امجد صابری ، سماجی رہنما ءعبدالستار ایدھی اور گلوکار سے اسلامی اسکلالر جنید جمشید بھی شامل ہوگئے ۔ جہاں دنیا بھر کے میڈیا نے عبداالستار ایدھی کی وفات پر ان کو شہ سرخیوں کا حصہ بنایا وہیں بین الااقوامی اخباروں نے جنید جمشید"کو کچھ یوں یاد کیا۔
ہندوستان ٹائمز :
ہندوستان ٹائمز نے تحریر کیا کہہ 52 سالہ جنید جمشید تبلیغی جماعت کے نمایاں اور معروف ترین رکن تھے جو کہ تبلیغی سرگرمیوں کے بعد چترال سے واپس آتے ہوئے اپنی اہلیہ کے ساتھ طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔
انڈین ایکسپریس:
انڈین ایکسپریس نے خبر کو کچھ تنقیدی رنگ دیتے ہوئے کہا کہہ ابتدائی طور پر انجن میں خرابی کو حادثے کی وجہ کہا گیا مگر اب بھی متعدد سوالات کے جوابات ملنا باقی ہیں، رپورٹ کے مطابق طیارے میں جنید جمشید کی موجودگی کی خبر کے ساتھ ہی ٹوئٹر پر بہت زیادہ ردعمل سامنے آیا جو ان کی مقبولیت کا ثبوت تھا اور وہ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا جبکہ پاکستانی سیلیبرٹیز نے بھی اس پر غم کا اظہار کیا۔
ٹائمز آف انڈیا:
حویلیاں کے قریب ہونے والے حادثے میں جنید جمشید کے پرملال انتقال پر بولی وڈ کے فنکاروں کا ردعمل رپورٹ کیا جن میں رشی کپور نمایاں تھے جنھوں نے اپنی ٹوئیٹ میں کہا کہ 'اس حادثے میں ہم نے جنید جمشید جیسا باکمال شخص کھو دیا، اللہ اس پر اپنی رحمت کرے، آمین'، اسی طرح صوفی چوہدری نے لکھا' نوجوانی میں، میں نے اس البم میں حصہ لیا تھا جو میرے استاد بیدو نے ان کے لیے تیار کیا، وہ پاپ آئیکون تھے'۔
ٹیلی گراف:
اس جریدے نے جنید جمشیدکی زندگی پر مکمل رپورٹ بیان کی، جس میں ان کے جوانی ، گلوکاری اور مذہبی رجحان کو مکمل طور پر بیان کیا گیا کہ وہ کیسے پاکستان کے معروف ترین گلوکار بنے اور پھر کس طرح ان کا رجحان مذہب کی جانب ہوگیا، جبکہ اس دوران انہیں مشکلات کا بھی سامنا ہوا اور ایک انٹرویو کے نتیجے میں ان پر توہین مذہب کا الزام عائد ہوا جس پر انہوں نے عوام سے معذرت بھی کی۔
ڈیلی مرر:
52 سالہ جنید جمشید ریکارڈنگ آرٹسٹ سے مذہب اور تاجر بنے، کو تمغہ امتیاز سے نوازا گیا، جبکہ حادثے کی اطلاع پر برطانیہ میں ان کے چاہنے والوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ' یہ بہت بڑا نقصان ہے'۔
ڈیلی میل :
اس برطانوی روزنامے نے بھی جنید جمشید کی ابتدائی زندگی کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا کہ جب انہوں نے گلوکاری چھوڑی تو ان کے متعدد پرستار ان کے ناقد بن گئے، تاہم جنید جمشید نے اس کی پروا نہیں کی اور موسیقی کے آلات کو حرام سمجھتے ہوئے حمد و نعت پر توجہ دینا شروع کردی، اسی طرح وہ ٹی وی پروگرامز میں بھی آتے تھے اور انہیں مغربی طرز زندگی چھوڑ کر اسلام کی جانب آنے کے حوالے سے رول ماڈل کہا جاتا تھا۔
سی این این :
اس امریکی ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جنید جمشید نے گلیمر کو تو چھوڑ دیا تھا مگر پھر بھی وہ شہرت کی چکاچوند کے قریب رہے، اور انہوں نے ٹی وی پروگرامز اور فیشن ڈیزائنر کی حیثیت سے بھی نام کمایا جبکہ کئی معاملات پر وہ تنازعات کی زد میں بھی رہے مگر پھر بھی ان کے چاہنے والے پاکستان سے لے کر پوری دنیا میں پائے جاتے تھے، جبکہ رواں سال انہیں 500 با اثر ترین مسلم شخصیات کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا تھا۔
گلف نیوز:
اس خلیجی اخبار نے لکھا کہ جنید جمشید اس وقت پاکستان کے گھر گھر میں پہچانے جانے لگے جب 1987 میں ان کا گانا دل دل پاکستان ریلیز ہوا اور اسے پاکستان کا غیر سرکاری قومی ترانہ بھی سمجھا جانے لگا، جنید جمشید نے 2010 میں دبئی میں اپنا پہلا برانڈ آوٹ لیٹ کھولا جبکہ 2011 میں شارجہ اور ابو ظبہی میں بھی دو آوٹ لیٹس اوپن کیے، ان کے برانڈ کے ملبوسات دنیا بھر میں رہائش پذیر پاکستانی برادری میں مقبول تھے۔
دی گارجین :
جنید جمشید کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حادثے کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر ان کو بھرپور انداز سے خراج تحسین سے پیش کیا گیا، جنید جمشید اسی اور نوے کی دہائی میں گروپ وائٹل سائنز سے مقبول ہےا جس کے گانے آج بھی مقبول ہے، جبکہ بعد میں وہ تبلیغی جماعت کا حصہ بن گئے اور وہ پندرہ روزہ تبلیغی دورے پر چترال میں موجود تھے۔