پاکپتن کے نوجوان سے شادی کرنے والی چینی خاتون اب کس حال میں ہے؟

پاکپتن کے نوجوان سے شادی کرنے والی چینی خاتون اب کس حال میں ہے؟

لاہور: وہ کہتے ہیں نا کہ محبت تو اندھی ہوتی ہے۔لیکن اچانک بینائی لوٹ آئے تو حالات یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ہوا چینی خاتون کیساتھ۔ پنجاب  کے شہرپاکپتن آکر نوجوان محمد شفیق سے محبت کی شادی کرنے والی چینی خاتون لیوچنگ نے شائد ایسا نہ سوچا تھا کہ اس کے ساتھ یہاں ایسا بھی کچھ ہوسکتا ہے۔ 

لیوچنگ نے چین سے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے پاکپتن آکر اسلام قبول کیا اور ڈسٹرکٹ کورٹ میں محمد شفیق کے ساتھ نکاح پڑھ کے اپنا اسلامی نام عائشہ رکھا۔

یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ چینی باشندے مصالحے دار  اور چٹ پٹے کھانوں کے قریب بھی نہیں جاتے جبکہ لیوچنگ (عائشہ) کوپاکپتن آکر ابتدائی دنوں میں ہی تیز مصالحے والے کھانے اور موسمیاتی تبدیلی کاسامنا کرنا پڑا۔جس کے باعث لیوچنگ (عائشہ) کی طبیعت خراب ہو گئی نوبت یہاں تک آئی کہ یہ ہسپتال پہنچ گئیں۔

سرکاری ہسپتال کے علاج سے طبیعت نہ سنبھلی توشفیق نےانہیں پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کروایا جہاں ان کے علاج کے اخراجات انہوں نے دوستوں سے قرض لے کر اداکئے۔

طبیعت میں کچھ بہتری نہ نظر آنے پر ڈاکٹروں نے لاہور لیجانے کامشورہ دے ڈالا، جس پر  شفیق نے مزید پیسے ادھار پکڑے اور لیوچنگ (عائشہ) کو لاہور کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج رکھا۔

متواتر علاج اور نگہداشت کے باعث عائشہ کی طبیعت تو سنبھل گئی تاہم شفیق ان کے علاج پر تمام جمع پونچی لٹا چکا اور اب اس انتظار میں ہے کہ حکومت اس کی شنوائی کرے اور اسے کوئی روزگار فراہم کرے تاکہ وہ عائشہ کے ساتھ ایک اچھی زندگی گزار سکے۔

واضح رہے کہ 34 سالہ محمد شفیق اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہے جو پاکپتن کے نواحی گاؤں چک عالم ڈھڈی میں رہائش پذیر ہے اور تاحال بے روزگار ہے۔

محمد شفیق نے مقامی صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 2012ء کے دوران ملائشیا میں چار سال بطور کرین آپریٹر ملازمت کرتے رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا پر ان کی دوستی لیوچنگ سے ہوئی۔اسکا مزید کہنا تھا کہ میں لیوچنگ کی شخصیت سے بہت متاثر تھا لہذا میں نے اسے شادی کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کیا اور پاکستان آنے پر رضامندی ظاہر کی۔"

انہوں نے کہا کہ پاکستان آنے کے بعد انہیں امید تھی کہ لیوچنگ کو چینی زبان کی بناء پر سی پیک یا کسی پاک-چائنہ کواپریٹو ادارے میں ملازمت مل جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا جس کے باعث مسائل بڑھے۔

شفیق کے مطابق لیوچنگ اب ہمیشہ کے لیے پاکستان رہنے پر رضامند ہے تاہم وہ لیوچنگ کے ساتھ شہر میں رہنے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے جس کی بنیادی وجہ دونوں میاں بیوی کی بیروزگاری ہے۔

دوسری جانب لیوچنگ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا تعلق بھی چین کے ایک متوسط گھرانے سے ہے جہاں وہ پرتعیش نہ سہی لیکن ایک مکمل زندگی باآسانی گزار رہی تھیں تاہم پاکستان آکر انہیں اندازہ ہوا کہ یہاں تو حالات یکسر مختلف ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان صرف اور صرف اپنے پیار اور رفیق حیات کی وجہ سے آئی ہیں لیکن یہاں اب ان کے لیے زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہو رہا ہے۔بہتر کھانے پینے کی اشیاء عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں جبکہ علاج معالجہ کی سہولتیں بھی جیب پر بہت بھاری ہیں جس کی وجہ سے شفیق کی جمع پونجی میرے علاج معالجہ پر ہی خرچ ہو گئی۔

عائشہ کا مزید کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد چینی سفارت خانے جانے کی خواہش رکھتی ہیں جہاں شاید انہیں کسی قسم کی ملازمت یا معاشی امداد کی صورت نظر آئے وگرنہ پاکستان میں بہتر زندگی کے حصول کے لیے انہیں معاشی تنگی کا سامنا رہے گا۔

29 سالہ لیوچنگ (عائشہ) کے مطابق انہوں نے ہیومن ریسورس میں ماسٹرز کیا ہوا اور وہ چائنہ کی ایک پرائیویٹ فرم میں ملازمت کرتی تھیں۔

مصنف کے بارے میں