کارپوریٹ میڈیا اور بے مقصد صحافت

کارپوریٹ میڈیا اور بے مقصد صحافت

کچھ روز قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹرینڈ چل رہا تھا " میڈیا کے مینڈک" سیاسی کارکن اور عوام دل کھول کر صحافیوں اور میڈیا میں کام کرنے والوں کو تنقید کانشانہ بنا رہے تھے. لوگ کہنا چاہ رہے تھے " یہ بک گئی ہے صحافت". اس موقع پر میں غمگین دل کے ساتھ یہ بلاگ لکھنے پر مجبور ہوا.
آزاد میڈیا جمہوریت کا اہم ترین جزو ہے مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے 'آزاد میڈیا' کی تعریف یا تو غلط بیان کی جاتی ہے یا پھر سمجھنے میں غلطی کی جاتی ہے. آزاد میڈیا سے مراد ہے کہ صحافی کا قلم بنا کسی ڈر اور خوف کے ان حقائق سے پردہ اٹھائے جنہیں کچھ عناصر چھپانا چاہتے ہیں. سچ بولنا اور سچ سننا ہی پسند کیا جائے. مگر ہمارے ہاں آزاد صحافت کا لفظ سنتے ہی چند چرپ زبان اینکرز ذہن میں آجاتے ہیں. وہ اینکر حضرات جو دوپہر 2 بجے اٹھ کر بیڈ-ٹی پیتے ہیں اور سورج ڈھلنے تک میڈیا ہاؤسز کا رخ کرتے ہیں. دفتر پہنچتے ہی ریسرچرز اور پروڈیوسر حضرات انہیں تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کرتے ہیں. پروگرام کوآرڈینیٹرز پروڈیوسرز کی رضامندی سے یہ طے کرتے ہیں کے آج پروگرام میں کس سیاسی جماعت کے رہنما کو دعوت دینی ہے اور اس سے موجودہ صورت حال کے حوالے سے کیا ممکنہ سوالات کئے جا سکتے ہیں. پھر اینکر اپنی چرپ زبانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوالات بلند کرتا ہے اور بیچارے نیم خواندہ سیاست دان کی خوب درگت بناتا ہے.

ٹالک شو میں سیاست دان کی پٹائی دیکھ کر ناظرین بھی خوش اور مطمعین ہو جاتے ہیں، آخر انکا تو کتھارسس ہو جاتا ہے. اس سب کاروبار میں صحافتی اقدار اور اخلاقیات کہیں دور رہ جاتی ہیں. جس پروگرام میں جتنے زیادہ پھڈے ہوں اسے اتنی ہی زیادہ ریٹنگ نصیب ہوتی ہے. اور ریٹنگ ہی وہ واحد چیز ہے جو سیٹھ کو خوش کر سکتی ہے. سیٹھ کو صحافتی اقدار یا اخلاقیات سے کوئی غرض نہیں اسے صرف ریٹنگ سے غرض ہے.

میں ٹیلی ویژن پر دیکھتا ہوں کہ بہت سے صحافی تصدیق تو کیا تحقیق کے پاس سے بھی نہیں گزرے. حالانکہ تحقیق اور مطالعہ ہی ایک صحافی کا زیور ہے. دوسری جانب کہا جاتا ہے کے رپوٹنگ ہی اصل صحافت ہے مگر ہمارے میڈیا کی رپورٹنگ کے حالات بھی خستہ حالی کا شکار ہیں. چند ہی رپورٹس ایسی دیکھنے کو ملتی ہیں جنہیں دیکھنا واقعی عوامی مفاد میں ہے یا عوام کے لئے سود مند ہے بلکہ ایسی رپورٹس ہی دکھائی جاتی ہیں جنہیں دیکھنے سے عوام میں کوئی شعور اجاگر نہیں ہو سکتا.
اگر کوئی نوجوان صحافی جسکا تعلیمی بیک گراؤنڈ صحافت کا ہو جسے انقلاب برپا کرنے کا شوق ہو جب وہ اپنے میڈیا ہاؤس میں با مقصد صحافت کی بات کرتا ہے تو یا تو اسے جنونی تسلیم کیا جاتا ہے یا پھر غیر تجربہ کار انسان. کیوں کہ شائد وہ کتابی باتیں کر رہا ہے. اگر آپ پاکستان کے جمہوری نظام کو مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں تو حقیقی آزاد میڈیا تشکیل دینا ہوگا  اور آزاد میڈیا کے لئے اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے.

کارکن صحافیوں اور اینکروں سے بڑھ کر یہ ذمہ داری میڈیا مالکان پرعائد ہوتی ہے. تحقیق اور حقائق پر بات کرنا ہی ہر صحافی کی ذمہ داری ہے.

مصنف کے بارے میں

رخشان میر نوجوان صحافی، بلاگر ہیں