وفاقی وزراء کی اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنے کی اپیل

وفاقی وزراء کی اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنے کی اپیل

اسلام آباد:وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف نے کہا ہے کہ تمام مسلمانوں کا ختم نبوت پرپختہ یقین ہے، حلف نامے میں ہونے والی غلطی کا فورا نوٹس لے کراسے دور کیا گیا، کسی کو کوئی شک و شبہ ہے تو آئے اور ہم سے بات کرے۔

پیر کے روز وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری اوروزیر کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چودھری کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے وزیر مذہبی امور سردار یوسف نے کہا کہ کہ حلف نامے میں غلطی کا فوراً نوٹس لیکر اسے دور کیا گیا تمام مسلمانوں کا ختم نبوتۖ پر پختہ ایمان ہے حکومت نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ معاملہ مذاکرات سے حل ہو دھرنے سے معمولات زندگی شدید متاثر ہو رہے ہیں شہریوں کی مشکلات کے ازالے کے لیے دھرنے والوں سے راستہ کلیئر کرائیں گے دھرنے والوں کے ساتھ آئین و قانون کے دائرہ کار میں۔

مذاکرات کے لیے تیار ہیں وفاقی وزیر مذہبی امور نے کہا کہ ختم نبوتۖ کی تنظیم مکمل طور پر غیر سیاسی ہے ہم نے وفد کو مطمئن کیا تھا قرآن اور حدیث کے متصادم کوئی قانون بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتے اگر کسی کو کوئی شک و شبہ ہے تو ہمارے پاس آئے اور بات چیت کرے اللہ اور رسول ۖ پر ایمان اور عقیدہ ایک چیز ہے جس پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کر سکتا پاکستان جو اسلام کے نام پر حاصل ہوا آئین میں اس بات کی مکمل ضمانت دی گئی ہے کہ کوئی ایسا قانون بن ہی نہیں سکتا جو قرآن و حدیث کے منافی ہو دھرنے سے شہریوں کو بہت مشکلات کا سامنا ہے بچے سکوں اور بیمار ہسپتالوں میں نہیں جا سکتے نظام زندگی بہت مفلوج ہے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں اسمبلی میں سب نے ختم نبوتۖ بل کو متفقہ طور پر بحال کر دیا ہے اگر پھر بھی کسی کو کوئی ابہام ہے تو وہ آئے ہم سے بات کرے حکومت بات کرنے کے لیے تیار ہے لوگوں کو تکلیف دینا مذہبی معاشرتی اور سماجی لحاظ سے جائز نہیں بے گناہ لوگوں کو سزا دینا بھی تو بہت بڑی زیادتی ہے اس لیے میری حضرت مولانا رضی صاحب اور دیگر افراد سے گزارش ہے کہ وہ دھرنا جلد از جلد ختم کر دیں اگر انہوں نے کسی شک کی بنیاد پر احتجاج کر کے اپنا اظہار کر دیا ہے حکومت نے اس کا نوٹس لے لیا ہے دھرنے کے باعث بیرون ملک بھی غلط تشخص ابھر رہا ہے اور معمولات زندگی بُری طرح متاثر ہو رہا ہے لہذٰا دھرنے والے اپنا دھرنا ختم کر کے معمولات زندگی چلنے دیں

طلال چودھری نے کہا کہ حکومت نے معاملہ مذاکرات سے حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اب بھی ہماری دھرنا قائدین سے اپیل ہے کہ راستے روکنے کی بجائے مذاکرات کی میز پر آئیں ہم نے لاہور سے راولپنڈی مارچ کے شرکاء کو ہر ممکن سہولیات فراہم کیں لاہور میں قائدین نے وعدہ کیا تھا کہ سڑکیں بند نہیں کریں گے اور عوام کو بھی تنگ نہیں ہونے دیں گے مگر انہوں نے اپنے وعدے کی پاسداری نہیں کی طارق فضل چودھری ، پیر امین الحسنات نے پہلے دن سے ہی مذاکرات کی کوشش کی احتجاج کرنے والوں نے اپنے 12مطالبات پیش کیے مگر ان کے مطالبات آئین و قانون سے متصادم تھے انہوں نے کہا کہ 8روز سے جاری احتجاج کے دوران واقعات پر مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں طلال چودھری نے کہا کہ وزیر قانون 17بی اور سی کی بحالی کے لیے کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں میاں نواز شریف کی جانب سے بنائی جانیوالی انکوائری کمیٹی کے نوٹس میں ابھی تک کوئی ایسی بات نہیں آئی کہ کسی فرد کی غلطی کوتاہی کی وجہ سے اس قانون میں کوئی تبدیلی آئی ہو اور زاہد حامد کا تو دور دور تک ذکر نہیں ان کو ہٹانے کا مطالبہ کس طرح مانا جا سکتا ہے تاہم دھرنا قائدین کی طرف سے وزیر قانون کے استعفٰے کا مطالبہ بلا جواز ہے ہماری گزارش ہے کہ حکومت شہریوں کے صبر سے نہ کھیلا جائے اسطرح کے چند سو افراد کو کسی بھی وقت ہٹانے کا حکومت کے پاس آئینی اور قانون حق محفوظ ہے ہم اب بھی بات چیت سے یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں اگر یہ معاملہ حل نہ ہوا تو پھر دھرنے والوں کو راستہ صاف کرنا پڑے گا راستہ روک کر اسطرح کے مطالبات پورے نہیں کیے جا سکتے اسطرح کے کسی مطالبے کو ماننے کی حکومت کی
پالیسی نہیں حکومت اب سوچ رہی ہے کہ اگر یہ معاملہ مذاکرات سے حل نہ ہوا تو پھر اس کا کوئی اور حل نکالا جائے اب پنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں کی تکالیف کو زیادہ دیر برداشت نہیں کیا جا سکتا مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن مذاکرات آئین وقانون کے دائرہ کار میں ہی ہو سکتے ہیں شہریوں کی مشکلات کے ہم معذرت خواہ ہیں متبادل راستے دیے گئے ہیں جنہوں نے قانون کو ہاتھ میں لیا ہے ان کے خلاف کاروائی کی گئی ہے بچے کی ہلاکت سے لیکر تمام واقعات پر کاروائی عمل میں لائی گئی ہے

ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے کہا کہ ہمارا مذہب امن دوستی بھائی چارے کا درس دیتا ہے میں امید کرتا ہوں کہ بہت جلد یہ مسئلہ حل ہو جائے گا حضرت محمد ۖ تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے اس لیے ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں اور پوری قوم کے آرام اور ان کی آمدورفت کا خیال رکھنا ہے۔

مصنف کے بارے میں