سعودی عرب سمیت 6 عرب ممالک اور قطر کے درمیان تعلقات کی بہتری کیلئے عالمی قوتیں دوبارہ متحرک

سعودی عرب سمیت 6 عرب ممالک اور قطر کے درمیان تعلقات کی بہتری کیلئے عالمی قوتیں دوبارہ متحرک

دوحہ/اسلام آباد: سعودی عرب سمیت 6عرب ممالک اور قطر کے درمیان تعلقات کی بہتری کیلئے عالمی قوتیں اورسفارتی حلقے دوبارہ متحرک ہوگئے، چند روز قبل قطری امیر  شیخ تمیم بن حماد الثانی اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوا  تھا۔

سفارتی ذرائع کے مطابق سعودی عرب سمیت 6عرب ممالک اور قطر کے درمیان تعلقات کی بہتری کیلئے عالمی قوتیں اورسفارتی حلقے دوبارہ متحرک ہوگئے ہیں,  کوشش کی جارہی ہے کہ تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کر  لیا جائے۔عرب ممالک اور دوحہ کے درمیان جاری تنازعے کو ختم کرنے کیلئے پاکستان اور ترکی سمیت کئی ممالک کوشاں ہیں ۔ترکی اور کویت کے امیر نے بھی عرب ممالک اور دوحہ کے درمیان تنازعے کو ختم کرنے کیلئے ثالثی کا کردار ادا کیا ہے ۔

سابق پاکستانی وزیراعظم نوازشریف نے بھی ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے سعودی عرب کا دورہ کیا  تھا اور سعودی حکام سے ملاقاتوں میں مسئلے کے حل پر زور دیا تھا، نوازشریف نے کہا تھا  کہ سعودی عرب اور قطر پاکستان کے قریبی دوست ہیں۔انھوں نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کیلئے کردار  ادا    کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا۔

دریں اثناء بھارت اور ایران قطر کو کھانے پینے کی اور دیگر اشیا فراہم کررہے ہیں۔قطر عرب خطے کا ایک اہم ملک ہے جو افغان امن عمل کے حوالے سے بھی کردار ادا کررہا ہے اور طالبان کا دوحہ میں ایک سیاسی دفتر بھی کام کرتا رہاہے ۔ چند روز قبل عرب ممالک اور دوحہ کے درمیان جاری تنازع کی حل کے لیے قطر کے حکمراں اور سعودی ولی عہد کے درمیان گفتگو کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جاری تنازع میں بہتری کی امید نظر آئی تھی۔

اس گفتگو میں دونوں رہنماؤں نے مذاکرات شروع کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔تاہم اس خبر کے آنے کے بعد سعودی عرب نے اس بات پر ناراضی کا اظہار کیا کہ قطر کی خبر رساں ایجنسی کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ فون ان کے ملک کی جانب سے کیا گیا تھا۔ٹیلی فون پر ہونے والے بات چیت میں قطر کے حکمران نے سعودی عرب کے ولی عہد سے عرب ممالک اور دوحہ کے درمیان پیدا ہونے والے بحران کے بارے میں مذاکرات کی اپیل کی تھی۔

سعودی نیوز ایجنسی ایس پی اے کے مطابق قطری امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے کہا کہ وہ سعودی عرب اور اس کے دوسرے حلیف ممالک کے مطالبات پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔خیال رہے کہ سعودی عرب، بحرین، مصر اور متحدہ عرب امارات نے قطر سے پانچ جون کو اس الزام کے ساتھ رشتے منقطع کر لیے تھے کہ قطر دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے۔ قطر ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔قطری رہنما نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے جمعے کو بات کی۔

سعودی پریس ایجنسی یعنی ایس پی اے کے مطابق 'گفتگو کے دوران قطری امیر نے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر چار ممالک کے مطالبات پر غور کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ ہر کسی کے مفادات کی یقین دہانی ہو سکے۔نیوز ایجنسی کا کہنا تھا کہ اس فون کال کی تفصیل اس وقت ظاہر کی جائے گی جب بحرین، مصر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ سعودی عرب کسی معاہدے پر پہنچ جاتا ہے۔مگر اس فون کال کی خبر سامنے آنے کے کچھ دیر بعد ایس پی اے نے قطری میڈیا کو دونوں ممالک کے رہنماوں کے درمیان فون کال سے متعلق حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا الزام لگاتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ تمام مذاکرات اب 'معطل' ہیں۔

اطلاعات کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان فون پر گفتگو ڈونلڈ ٹرمپ کی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے علیحدہ علیحدہ بات چیت کے بعد ہی ممکن ہو سکی۔وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا کہ صدر(ٹرمپ) نے اس بات پر زور دیا کہ علاقائی استحکام اور ایران کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ کے عرب اتحادیوں کے درمیان اتحاد ضروری ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ 'دہشت گردی کو شکست دینے، دہشت گرد گروپس کی فنڈنگ روکنے اور انتہا پسند نظریات سے لڑنے کے لیے تمام ممالک کو اپنے عہد کی پابندی کرنی ہو گی۔اس سے قبل سعودی عرب، بحرین، مصر اور   یو   اے ای نے قطر پر عائد پابندیوں کو ہٹانے کے لیے شرائط کی ایک فہرست دی تھی جن میں ایران سے تعلق کو کم کرنے اور الجزیرہ میڈیا ہاؤس کو بند کرنا شامل ہے۔  ان ممالک نے قطر کے فنڈ سے چلنے والے قطری میڈیا   ہاؤس پر  انتہا پسندی  کو  فروغ دینے کا الزام لگایا ہے جس   کی یہ میڈیا  ہاؤس تردید  کرتا ہے۔

مصنف کے بارے میں