بوڑھے اقبال شاعر کا غم

بوڑھے اقبال شاعر کا غم

     اقبال شاعر نے ساری زندگی کی جمع پونجی بیٹے کی پرورش پرلگا دی۔لیکن مارنے والوں نے ایک پل بھی نہیں سوچا کہ کسی باپ کیلئے جوان بیٹا کیا حیثیت رکھتا ہے۔ باپ کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔

میراماننا ہے کہ ایک شاعر کبھی بھی تشدد پسند نہیں ہوسکتا،شاعر ساری زندگی محبت اور انسانیت کا درس دیتے گزار تا ہے۔اوروہی سبق وہ اپنی اولاد کو بھی پڑھاتا ہے۔بوڑھے اقبال شاعر نے بھی تو پیدا ہونے والے اپنے اکلوتے بیٹے مشال کے کان میں آذان دی تھی، اسے کلمہ پڑھاکر مسلمان بنایا تھا،اسے اسلام کی تعلیم دلائی۔زندہ آنکھوںسے بیٹے کوصحافی بنادیکھنے سے پہلے اسکی تشدد زدہ برہنہ لاش کی ویڈیو دیکھ کر ایک باپ پر یقینا قیامت ٹوٹ پڑی ہوگی۔ فیس بک پر ہی کسی نے نوحہ لکھا کہ کاش اس بیٹے کی ماں مرچکی ہو لیکن مشال کی ماں تو زندہ ہے اور اسکا غم بھی۔
کچھ دیر کیلئے سب کچھ چھوڑ کر نیوز چینل بدلیں اورکوئی بھی ایک حیوانوں والا چینل لگائیں۔ آپ کو کو ئی بھی ایک جانوردوسرے جانورکو مارنے کے بعد اسکی لاش پر پتھر مارتے نظرنہیں آئے گا۔جانور بھی شکار سلیقے سے کرتے ہیں۔
میں نے ایک اچھے خاصے پڑھے لکھے اور سوجھ بوجھ رکھنے والے دوست کو یہ کہتے سنا کہ ”اچھا ہوا اس دہریے کو جہنم واصل کر دیا گیا ہے۔“ میں نے دوست سے پوچھا جناب کیا آپ کو پختہ یقین ہے کہ یہ دہریہ ہے اور اس نے حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے؟

تو گومگو کی کیفیت میں صرف فیس بک پر ہونے والے بحث و مباحثے اور سنی سنائی باتوں کا حوالہ دینے لگے۔لیکن اسے گستاخ رسولﷺ ثابت نہ کر سکے۔ اس سے بھی برُا حال ہماری عوام کا ہے۔ ہم لوگ صرف سنی سنائی باتوں پر ایمان سے بھی زیادہ یقین رکھتے ہیں۔

یاد کریں سیالکوٹ میں دو بھائیوں کا بہیمانہ اور سرعام قتل ہوا،کوٹ رادھا کیشن میں مسیحی جوڑے کوتوہین مذہب کے الزام میں زندہ جلا دیا گیا، لاہور میں ایک حافظ قرآن سمیت دو بے گناہ شہریوں کو گھسیٹ کر،ڈنڈوں سوٹوں سے مارڈالا گیا پھر لاشوں کو آگ لگا دی گئی۔ ان سب کے قاتلوں کو گرفتار بھی کیا گیا اور سزائیں بھی سنائی گئیں۔لیکن سب مجرم یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ انہوں نے جن بے گناہوں کو قتل کیا،وہ قصور وار تھے بھی کہ نہیں۔صرف سنی سنائی پر یقین کرکے سب مارنے پر آمادہ ہو گئے۔کسی نے تصدیق کرنا، تحقیق کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔
سوشل میڈیاپرچونکہ جھوٹ زیادہ بکتا ہے۔اس لئے لوگ جھوٹ اور چکا چوند کی طرف جلد مائل ہوجاتے ہیں۔

حکومت پاکستان بھی سائبرکرائم قانون صحیح معنوں میں نافذ کرنے میں ناکام ہے۔جھوٹی آئی ڈی بنانا، فوٹو شاپ کا سہارا لیکر غلط تصاویر بنانا،سکرین شاٹس میں مرضی کی ایڈیٹنگ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔سائبر کرائم بل لانے کے باوجود حکومت سوشل میڈیا پر کردار کشی کرنے والوں، توہین آمیز اور اسلام مخالف پیجزچلانے والوں کو جڑ سے ختم کرنے میں ابھی تک ناکام ہے۔یقین کریں ان جھوٹے لوگوں تک رسائی اتنی بھی مشکل نہیں جتنی بنائی جارہی ہے۔حکومت یہ کام خود اپنے ہاتھ میں لے اورسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر اسلام مخالف مواد ڈالنے والوں، توہین رسالت کرنے والوں کی مانیٹرینگ کرے، فوری گرفتاری عمل میں لائے اور قرار واقعے سزا دے۔ تاکہ عوام مشتعل ہوکر کسی بھی صورت قانون اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔
بہرحال یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حکومتی حلقوں میں سوشل میڈیا کوابھی تک غیر سنجیدہ ہی لیا جارہا ہے۔میرے ایک دوست کے ساتھ یہ تجربہ ہوچکا ہے۔ ایک حکومتی ایم این اے نے اس کی سوشل میڈیا کیلئے خدمات حاصل کرنا چاہیں۔ سب کچھ طے پا گیا، دوست نے سوشل میڈیا ٹیم بنائی اور کام شروع کردیا۔ پہلے پہل تو ایم این اے صاحب تھوڑی بہت ہدایات دیتے رہے لیکن جس دن انہیں سوشل میڈیا کی افادیت کا ادراک ہوا تو وہ براہ راست ہدایات دینے لگے اور حکم صادر کردیا کہ مخالف جماعت کے رہنماﺅں کے خلاف باقاعدہ کمپین چلائی جائے اور روز کوئی نہ کوئی من گھرٹ الزام داغا جائے ۔ میرے دوست فقط ایک ماہ بعد ہی اس کام سے اُکتا گئے اور استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔جھوٹ پر مبنی پوسٹیں صرف حکومتی حلقوں کی جانب سے ہی نہیں لگائی جاتی بلکہ انصاف پر یقین رکھنے والے حکومتی مخالفین بھی اچھی خاصی تصویروں کیساتھ چھیڑچھاڑ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ بھولی بھالی عوام کو تو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے لیکن اس کام میں ماہر کاریگروں کو نہیں۔میں اکثر کہا کرتا ہوں اب سوشل میڈیا کی جنگ گھروں تک پہنچ چکی ہے۔
مردان کی یونیورسٹی کا واقعہ ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم رواداری کے رجحان کا عکاس ہے۔اگر ان لوگوں کو اور انکی سوچوں کو روکا نہ گیا تو یہ معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لے جائیں گے۔

آپ بھی مشال خان کے والد اقبال خان کی گفتگو سنُیں

ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، بلاگ لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہے۔

مصنف کے بارے میں

شہبازسعیدآسی نیوٹی وی کےویب اور بلاگ ایڈیٹر ہیں،روزنامہ نئی بات میں کالم بھی لکھتے ہیں