قصہ پانامہ نہر کا

قصہ پانامہ نہر کا

                                      اللہ تعالیٰ نے جب سے اس کائنات کو تخلیق فرمایا ہے تب سے لے کر اب تک اس میں مسلسل تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ ان میں کچھ تبدیلیاں وہ ہیں جو فطرت کی طرف سے خود بخود نمودار ہورہی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو انسان اپنی محنت، کوشش اور سہولت کیلئے بدلتا ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے توں توں تبدیلیاں اور واقعات وقوع پذیر ہوتے رہیں گے۔
آج ہم ایک ایسے تاریخی واقعہ کا مطالعہ کرنے جارہے ہیں جو اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے۔ ویسے بھی آج کل میڈیا پر پانامہ کا بہت چرچا ہے تو کیوں نہ ہم بھی آج ایک پانامہ کا ذکر کرلیں۔ لیکن ہم کسی کی کرپشن کا ذکر کرنے نہیں جارہے بلکہ آج ہم ایک تاریخی نہر کا ذکرکرنے لگے ہیں جس کانام ہے’’ پانامہ نہر‘‘۔۔
نہر پانامہ دنیا کی بہت بڑی آبی شاہراہ ہے جسے جمہو ریہ امریکہ نے خاکنائے پاناما کو کاٹ کر تیار کیا تھا۔ اس نہر نے اوقیاس(اٹلانٹک)کو بحرالکاہل سے ملادیا ہے۔ اگر چہ جہاز اس میں سے پہلے ہی گزرنے لگے تھے لیکن اس کے افتتاح کی رسم سرکاری طور پر قصیوڈرروزویلٹ صدر جمہوریہ امریکہ نے 31جولائی 1915ء کو ادا کی۔ دنیا میں اسے انجنیئری کے عجائبات کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔اس نہر کی کھدائی 1940میں شروع ہوئی اور 1941میں پایہ تکمیل کو پہنچی اس کے لیے ریاست پانامہ سے دائمی پٹے پر زمین لے لی گئی تھی۔یہ نہیں سمجنا چاہئے کہ نہر بنانےکا خیال پہلے پہل جمہوریہ امریکہ کو آیا ، بلکہ جس زمانے میں ہسپانیہ کی سلطنت عروج پر تھی اور نئی دنیا میں اس کی آباد کاری کا ڈنکا بج رہا تھا اس زمانے میں بھی یہاں سے ایک نہر بنانے کی تجویز زیر غور آئی تھی۔ اس وقت تک جمہو ریہ امریکہ کا وجود تک نہ تھا۔ جب امریکی ریاستوں نے آزادی حاصل کرلی تو انہیں یہ احساس ہوا کہ اگر پانامہ میں سے ایک نہر بنادی جائے جس سے جہاز باآسانی گزرسکیں تو اٹلانٹک سے بحرالکاہل میں جانے کے لیے جہازوں کو جنوبی امریکہ کا چکر نہ لگانا پڑے گا۔ اس طرح وقت بچ جائے گا خرچ بھی کم آئے گا اور تجارت کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔ عین اسی زمانے میں برطانیہ اور فرانس بھی اس نہر کی تیاری سے دلچسپی لینے لگے جمہو ریہ امریکہ نے پہلے برطانیہ سے معاہدہ کرکے نہر بنانے کے پورے حقوق حاصل کرلیے۔ پھر فرانس کی کوشش ناکام ہوئی اور اس کی دو بڑی تجارتی کمپنیوں کا دیوالیہ نکل گیا تو اس نے بھی دست برداری اختیار کرلی اور جمہوریہ امریکہ تنہا میدان میں رہ گئی۔ نہر کی تعمیر پر کل تینتیس کروڑ چھیاسٹھ لاکھ پچاس ہزار ڈالر خرچ ہوئے اور تقریبا چوبیس کروڑ مکعب گز زمین کھودی گئی۔ نہر کا رخ شرقی غربی نہیں بلکہ اٹلانٹیک کی جانب سے کولون(Colon)کو مرکز قرار دیں تو بحرالکاہل کے ساحل پر بلبوا(Balboa)تک اس کا رخ جنوبی اور جنوب مشرقی ہے۔ اگر ایک سمندر کے ساحل سے دوسرے سمندر تک فاصلہ ناپا جائے تو اصل نہر قریبا چالیس میل لمبی ہے۔ لیکن اطراف نہر میں دونوں طرف سمندروں میں بھی کسی قدر زمین کھودکر جہازوں کی آمد و رفت کے قابل بنانی پڑی تھی ۔ اسے بھی حساب میں شامل کرلیا جائے تو نہر کی لمبائی تقریباً 51 میل بن جاتی ہے۔اس کی کم سے کم گہرائی اکتالیس فٹ ہے۔انجنیئرنگ کا خاص کمال نہر کھودنے میں نہیں بلکہ اس کے اندر بند بنانے سے ثابت ہوتا ہے۔مثلا جو جہاز اوقیانو س کی طرف سے نہر میں داخل ہو اس بندوں کے پہلے سلسلے میں سطح بحر سے پچاسی فٹ کی بلندی پر اٹھایا جاتا ہے۔ پھر جہاز ایک اور بند سے گزرتا ہوا بحرالکاہل کی جانب آخری سلسلے کے بند میں عام سطح پر آجاتا ہے اور بے تکلف دوسرے سمندر میں داخل ہوجاتا ہے پورا فاصلہ طے کرنے میں سات آٹھ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔اگر یہ نہر نہ بنتی اور وسط امریکہ میں سے جہازوں کیلئے آمدو رفت کا انتظار نہ کیا جاتا تو اندازہ کیجئے کہ کتنی مشقت اٹھانی پڑتی کتنا وقت اور روپیہ صرف ہوتا!
فرض کیجئے کہ جہاز کو وسط امریکہ کی کسی مشرقی بندرگاہ سے مغربی بندرگاہ میں جاتا ہوتا تو وہ پور ے جنوبی امریکہ کا چکر لگائے بغیر نہ جاسکتا اور یہ فاصلہ کم از کم دس ہزار میل ہوتا اب نہر پانامہ میں سے صرف 51 میل کا فاصلہ طے کرکے جہاز مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق کی طرف آجا سکتا ہے۔
جس طرح قومیں اپنے وطن کی ترقی اور خوشحالی کیلئے سب کچھ قربان کردیتی ہیں۔ تبھی تو وہ ملک افق عالم پر ستارے کی طرح روشن ہوتے ہیں ۔ تاریخ عالم میں اس بات کی مثال ہے کہ قومیں ہی کسی ملک کی تقدیر کو بناتی اور بگاڑتی ہیں۔