جلالپور کا ایدھی

جلالپور کا ایدھی

میں مدت کے بعد اپنے قصبے میں داخل ہو رہاتھا ۔ جیسے ہی میری گاڑی قصبے کی داخلی سڑک پر پہنچی تو ٹوٹی پھوٹی سڑک شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد بڑی پختہ سڑک اچانک شروع ہوگئی ۔ میں نے سڑ ک کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے اپنے کزن سے پوچھا کہ یہ نئی سڑک ہے مگر دو چار ماہ بعد ٹو ٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی ۔ لیکن آج تو اس کے جواب نے مجھے حیرت میں ڈال دیا بولا ”اب سڑک اتنی جلدی نہیں ٹوٹے گی “ میں نے بھی حیرانگی سے اس سے پوچھا کیوں ،اس بار اس میں کیا ایسی خاص بات ہے ۔
میرے کزن نے جواب دیا کہ آپ کو پتہ ہے کہ اس بار اس سڑک کی تعمیر کے کام کی نگرانی کو ن کر رہاہے ۔میں نے سر ہلایا کہ نہیں ،وہ بولا” جلالپور کا ایدھی “ میں چونک گیا ۔یعنی اس سڑک کی تعمیر و مرمت اس بار”منظور احمدساقی“ کے ذمے ہے ،جسے سارا شہر ”جلالپور کا ایدھی “ نام سے بھی جانتا ہے ۔ میں نے اس کی بات پر سر ہلایا کہ اگر ایدھی صاحب سڑک کی تعمیر کی نگرانی کر ر ہے ہیں تو یہ سڑک واقعی لمبے عرصے تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوگی ۔
منظور احمدساقی کو میرے قصبے کا شاید ہی کوئی فرد ہو گا جو نہ جانتا ہو۔وہ ایک شفیق باپ، انسان دوست، ملنسار، بغیر لالچ کے کسی کا بھی کا م کرنے کو ہر وقت تیار، سماجی کارکن جس کے دامن پر کسی کرپشن کا کوئی داغ نہ ہو ۔انتہائی خوش اخلاق شاید ہی کوئی ہو جو اس کی خوش اخلاقی کو معترف نہ ہو۔
مجھے بڑی اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے تقریباََتیس سال پہلے جب میں گرمی کے موسم میں بازار گیا تو بازار میں ایک مخصوص کونے پر ”ساقی مینگو جوس “ کا بڑا سا بینر دیکھا ۔ساتھ ہی ایک گلاس کی قیمت صرف ایک روپیہ دیکھ حیران رہ گیا۔ ایک روپیہ جو بعد میں آم مہنگے ہونے کی وجہ سے بڑھ کر دو سے تین روپے ہو گئی، مگر وہ قیمت جوس کے لحاظ سے انتہائی مناسب تھی ۔ہمارے قصبے کے تھانے کی حدود میں تقریباََ85 گاﺅں آتے ہیں ۔ یہاں یہ قابل ذکر بات ہے کہ ہمارا قصبہ جلالپوربھٹیاں گندم اور چاول کی خریداری کا مرکز اور دنیا بھر میں جانا جاتاہے ۔
گرمی کے موسم میں دوسرے دیہات سے آنے والوں کے لیے اصل آم کا جوس کا ملنا ایک نعمت سے کم نہیں اور وہ بھی صرف دو سے تین روپے میں دستیاب تھا۔ گاہک کی آنکھوںکے سامنے کسی بھی ملاوٹ سے پاک تازہ اور فریش جوس ملنا بھی خوش نصیبی کی بات تھی ۔ساقی مینگو جوس کو میرے خیال میں سارے دیہات میں ہی پذیرائی حاصل تھی ،مگر یہ سیزنل کام تین ماہ بعد بند کرنا پڑا ۔آم کا موسم جاتے ہیں مینگو جوس پینے والوں کی کمی کے ساتھ بزنس بند ۔
اس کے علاوہ بارہ ربیع الاوّل کو ساقی کی خوشی باقی شہریوں کی طرح دیدنی ہوتی تھی ۔ بازار کے مین داخلی راسطے پر خوبصورت گیٹ بنانے کا سلسلہ ساقی کے بغیر ادھور ہی جانا جاتاہے ۔

پھر اپنی چھوٹی سے فروٹ یا گولی ٹافیوں کی دکان کے پاس کی گئی سجاوٹ تو ہر ایک کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی۔جلالپو ر بھٹیاں میں جن گلیوں ، نالیوں، سٹریٹ لائٹس کے لیے ساقی نے محنت شاقہ سے لگوائی وہ ان کی ایمانداری کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔گاﺅں کے قبرستان کی جگہ جس پر قبضہ مافیا کا راج تھا منظور احمدساقی کی کوششوں سے قبرستان کی زمین واگزار ہوئی ۔گرمی کا موسم شروع ہوتے ہی لاری اڈے پر مسافروں کو مفت لیموں پانی پلانا اپنا فرض میں سمجھنا صرف منظور احمدساقی کا کام تھا۔غریب کے حق کے لیے آواز اٹھانا صر ف اسکا کام تھا۔

بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں جا پہنچی ، گزشتہ دنوں میرے ایک دوست نے موبائل پر پیغام بھیجا کہ ساقی صاحب دنیا میں نہیں رہے ۔سنتے ہی میرے پاﺅں تلے زمین نکل گئی ۔میں نے اس سے پوچھا کہ وہ تو صحت مند تھے ۔اتنی زیادہ عمر بھی نہیں تھی ۔دوست نے بتایا کہ اس کو ذیابیطس کی بیماری تھی ۔اس نے اپنے ایک قریبی عزیز سے دیسی دوائی لی جیسے ہی استعمال کی تو اس کی حالت بگڑ گئی ۔بس پھر کیا تھا ان کو لاہور لانا پڑا بیماری ایسی کے ان کی دونوں ٹانگیں ہی کاٹنی پڑی ،مگر کچھ دنوں بعد خبر سننے میں آئی کہ ساقی جہانِ فانی سے کوچ کر گئے ۔
بچھڑ ا وہ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

مصنف کے بارے میں

محمد اکرم شانی  سینئیر صحافی, بلاگر  اور سوشل میڈیا ایکسپرٹ ہیں ،آج کل  نیو ٹی وی نیٹورک سے وابسطہ ہیں.