ترقی کا سفر

ترقی کا سفر

مئی کی تپتی شاموں میں ٹی وی سکرینز پر نگاہ دوڑائیں تو ہر جانب ڈان لیکس یا پانامہ لیکس کو لے کر ملک میں سیاست کا بازار گرم ہے بلکہ سٹیم سے بھی زیادہ گرم خبریں نہ صرف گردش کر رہی ہوتی ہیں بلکہ ان میں اس طرح مرچ مصالحہ لگا کر پیش کیا جاتاہے کہ عوام کو یہی گمان ہونے لگتا ہے کہ جیسے ملک میں خانہ جنگی شروع ہونے والی ہے یا پھر کوئی نیا طوفان جنم لینے کو تیارہے۔

آج کل سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر تو حالات کو ایسے مسخ کر کے پیش کیا جا رہا ہے جیسے ہیجانی کیفیت نے ملکی نظا م کو گھیر رکھاہے اور سوشل میڈیا کے یہ افلاطون نہ صرف سب اندرونی کہانیوں سے واقف ہیں بلکہ ان کے راوی بھی ہیں۔

پاک فوج کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری بیان کو واپس لینے اور پھر سول ملٹری قیادت کے آپس میں رابطوں کے فقدان کو کم کر کے ایک صفحے پر متحد ہونے پر تو پاکستان میں بیٹھے تمام فلاسفر گویا اسے ایک ادارے کی جیت اور جمہوریت پسندوں کی فتح سے جوڑکر نہ جانے کس نئے طوفان کو جنم دینے کی ناکام کوشش میں مصروف عمل ہیں۔گویا ماضی سے ہم سبق سیکھنے کو تیار نہیں اسی لیے بھانت بھانت کی بولی بولنے والے اسی مقصد کی تعبیر کے لیے سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف ایسا زہریلا پرویگنڈا کررہے ہیں جس سے لگ رہا ہے کہ اس آگ پر پانی پھینکنے کی بجائے اس کوتیل ڈال کرمزید بھڑکایا جا رہا ہے۔

دنیا کی دیگر اقوام سے ہم سب ارض پاک کا موازنہ تو بہت خوشی سے کرتے ہیں اور اپنی خواہشات کے مطابق اس وطن کو ترقی یافتہ دیکھنا بھی شاید مجھ سمیت سب کی خواہش ہے کہ یہاں بھی انصاف ملے۔یہاں بھی ہرغریب کے گھر تک خوشحالی کا دور دورہ ہو۔ یہاں کے کھیت کھلیان پھرسونا اگلیں۔یہاں کوئی بیمار دوائی نہ ملنے پر جان سے ہاتھ نہ دھوئے۔ یہاں تعلیمی انقلاب دور افتادہ علاقوں سے لے کر گوادر کے نیلے سمندروں پر بسنے والوں کے لیے ہو اور ایک جیسا نصاب اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہو۔یہاں پر دکھ سکھ پر سب، ہم آواز ہو کر اپنے ملک میں بسنے والوں کے شانہ بشانہ ہوں۔ مگر اس سب کے لیے کیا یہی طرز عمل اختیار کرنا ہو گا۔ اس کا فیصلہ بھی ہمیں بحیثیت قوم کرنا ہو گا۔

پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے اس کے اداروں کو مضبوط کرنا ہو گا اور جب ہم اداروں کی بات کریں گے تو پھر جمہوری اداروں کی بالادستی مقدم ہونا بھی لازم ہو گا۔

عسکری اداروں کے کردار اور صلاحیت پر ہمیں رتی برابر بھی شک نہیں مگر اس کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ہمارے کسی اقدام سے ان اداروں پر آنچ تو نہیں آ رہی۔ آج جس طرح پاکستان میں اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی جا رہی ہے اس پر یہی کہوں گا کہ ابھی مہلت مل رہی ہم اپنا قبلہ درست کرلیں ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔ بالکل ایسے ہی جب تک سانس کی ڈور بندھی ہے سب کچھ چل رہا ہے اور جب یہ ڈور ٹوٹے گی تو سب کو اڑا کے لے جائے گی۔ دیگر اقوام احتساب کرتی ہیں اور احتساب سب کا ہونا چاہیے مگر پرویگنڈا کر کے کسی کے مفاد کا تحفظ نہیں ہونا چاہیے۔

پاکستان میں رواں ہفتے جو مثبت خبریں گردش کرتی رہیں ان میں ایک خبر ایسی بھی تھی جس کو زیادہ پروموٹ کرنے کی ضرورت تھی مگر اس خبر میں شاید ریٹنگ نہیں آتی اس لیے اسے پس پشت ڈال دیا گیا۔ صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے مجھے چین جانے کا اتفاق ہوا اور اس وقت جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو ایک ایسی پرواز میں سوار ہوں کہ جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں اور وفاق کی قیادت محو سفر ہیں۔

وزیراعظم نوازشریف کے ہمراہ پہلی مرتبہ چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ نے سفر کیا اور دوران سفر تمام سیاسی قیادت کو ایک صفحہ پر متحد پا کر ناقابل بیان مسرت ہوئی۔

گو کہ اس میں دو وزراء کا تعلق حکمران جماعت مسلم لیگ نون سے ہے مگر تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے وزراء اعلیٰ کی موجودگی وفاق کی مضبوطی کا اشارہ دے رہی ہے۔درحقیقت اس سفر کی خاص بات ترقی کے سفر کے وہ زینے ہیں جن پر چڑھے بغیر ہم کبھی بھی اقوام عالم کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے۔ سی پیک ہی اب وہ امید ہے جس کی کامیابی میں پاکستان کا مستقبل پنہاں ہے۔ پاکستانی اداروں کی مضبوطی ، جمہوریت کی مرحلہ وار منتقلی ہی اس ملک کے مفاد میں ہے۔ خبروں کو اور اس سفر کو جب دیکھتا ہوں تو یہی دعا نکلتی ہے کہ کب ہم ملکی وقار کو ترجیح دیں گے اور خوشحالی کے سفر کے لیے اپنا حصہ ڈالیں گے کیونکہ اس ملک میں تب تک مثبت تبدیلی نہیں آ سکتی جب تک ہم اپنے حصے کا کام نہ کر لیں۔اور اس کے لیے اشد ضروری ہے کہ ملکی اداروں کے درمیان تصادم کی بے بنیاد خبروں سے اجتناب کریں اور اگر خواہشات کو ہی خبروں کی شکل دینی ہے تو پھر اس ملک کو ترقی کے سفر پر کوئی نہیں ڈال سکے گا۔

اس ملک میں ترقی کے لیے تمام قیادت پر اعتماد اور انہیں سپورٹ کرنا جتنا آج ضروری ہے ماضی میں شاید نہیں تھا۔کیونکہ نعرے اور دعوے ماضی میں بھی سراب سے زیادہ دکھائی نہیں دئیے اور نہ ہی اب مایوسی کے بھیانک سائے کو ختم کرنے کے لیے ان نعروں کی ضرورت ہے۔ ملک کو ضرورت ہے تو اداروں میں استحکام کی۔اداروں کی مضبوطی اور وفاق کی سلامتی پاکستان کی سلامتی ہے۔اگر ہم سب اپنی خواہشات کی خبروں سے آگے نکل کر سوچیں گے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان ترقی کی منازل طے کر کے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر لے گا۔چین کی جانب سے سی پیک پر سرمایہ کاری خوش آئند ہے مگر اس سے زیادہ خوشی بھی تب ہو گی جب اس کے اثرات چاروں صوبوں میں آئیں۔ کسی بھی صوبے کی حق تلفی نہ ہو اور تمام صوبے اپنا جائز حصہ اس سے حاصل کرکے وہاں کے عوام تک خوشحالی کو منتقل کریں۔

مصنف کے بارے میں

عاصم نصیرنیوٹی وی کے نمائندہ خصوصی ہیں