افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی موجودگی یقیناً پاکستان کے لیے خطرے کا باعث ہے،اعزاز چودھری

افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی موجودگی یقیناً پاکستان کے لیے خطرے کا باعث ہے،اعزاز چودھری

اسلام آباد: سیکریٹری خارجہ اعزاز چودھری نے کہا ہے کہ افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی موجودگی یقیناً پاکستان کے لیے خطرے کا باعث ہے، افغانستان ایک مقناطیس بن گیا دنیا بھر کے دہشتگرد وہاں کھینچے چلے آرہے ہیں، ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ پاکستان کی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہ ہو اور افغانستان سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں تاہم ہماری خواہش اور کوشش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے اور افغانستان کو بھی پاکستان کی طرح سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں حالیہ دہشتگردی کے واقعات کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کثیر الجہتی ہیں امید ہے نئی امریکی انتظامیہ کی موجودگی میں ان میں مذید بہتری آئے گی۔

سرکاری ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے اعزاز احمد چودھری نے کہا کہ حالیہ سانحات پر پوری قوم غمگین ہے اللہ تعالی شہداء کی مغفرت کرے قوم اس قسم کے واقعات سے ایک عزم اور ولولے کے ساتھ اٹھ رہی ہے پچھلے تین سال میں ہماری قوم دہشتگردی کے خلاف سینہ سپر ہوئی اور کامیاب ہوئی کچھ عرصے سے جو امن کی صورتحال تھی اس دوران اس شیطانی عمل نے دوبارہ سر اٹھایا ہے، انشاء اللہ اسی عزم حوصلے سے ہماری قوم اور قیادت اس شیطانی عمل سے نمٹے گی۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کا علاقہ بہت عرصے سے بدامنی کا شکار ہے ہم نے بارہا کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن دیکھنا چاہتا ہے جب بھی افغانستان میں بدامنی ہوئی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے اس کا بہت نقصان اٹھایا ہے اسی وجہ سے ہماری قیادت نے مخلصانہ انداز میں کوشش کی کہ ہم وہاں امن لائیں ہم نے بارہا کہا کہ آپ جو عسکری حل وہاں 15سال سے ڈھونڈ رہے ہیں اس کا کوئی ثمر ہمیں نظر نہیں آرہا آپ ایک سیاسی حل تلاش کریں اور معاملات کو بات چیت سے طے کریں تا کہ افغانستان میں بے یقینی اور بے اطمینانی کی فضاء ہے جسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے اب وہاں محفوظ پناہ گاہیں بن گئی ہیں، افغانستان ایک مقناطیس بن گیا دنیا بھر کے دہشتگرد وہاں کھینچے چلے آرہے ہیں۔

افغان صدر نے خود کہا تھا کہ 40فیصد علاقہ پر ان کا کنٹرول نہیں ہے اتنے عرصے میں حکومت کی عملداری نہ ہونا تشویشناک ہے پاکستان کو مطلوب افراد اسی علاقے میں ہیں افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی موجودگی یقیناً پاکستان کے لیے خطرے کا باعث ہے، ہم نے دیکھا کہ یہ ہوا ہم افغانستان سے بار بار کہہ چکے ہیں کہ اگر پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں آپس میں تعاون کریں گی تو افغانستان میں امن آنے کی زیادہ امید ہو گی اور دہشتگردوں کو پکڑنے میں بھی ہم دونوں زیادہ کامیاب ہوں گے بلاشبہ پاکستان نے افغان حکام سے تعاون کی بہت دفعہ پیشکش کی وزیر اعظم نے دورہ افغانستان کے دوران اشرف غنی سے کہا کہ افغانستان کا دشمن پاکستان کا دوست نہیں ہے، ہماری سرزمین آپ کے خلاف استعمال نہیں ہو گی آپ بھی کوشش کریں کہ آپ کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو ہم نے ہائی سطح کا میکنزم بنانے کی بھی کوشش کی لیکن ہمارے اخلاص کا اسطرح کا جواب نہیں آیا بلکہ الٹا آیا کیونکہ 2600کلومیٹر کا بہت مشکل بارڈر ہے اس کے اندر کراسنگ پوائنٹ پر ہم نے اپنی طرف باقاعدہ پوسٹیں بنانی شروع کیں۔ ہمارے لیے یہ بڑا ضروری ہے کہ ہم افغانستان کی حکومت کو یقین دلائیں کہ بارڈر مینجیمنٹ کے ذریعے آپ کے ملک کو بھی اتنا ہی فائدہ ہے جتنا ہمارے ملک کو ہے ہم بالکل نہیں چاہتے کہ پاکستان کی سرزمین سے کوئی وہاں جاکر دہشتگردی کرے اگر وہ پرامن شہری کے طور پر آتا ہے تو ضرور آئے ہماری بار بار تعاون کی پیشکش کا جواب نہ ملنے کا نتیجہ جو نکلا ہے وہ سب کے سامنے ہے الزام تراشی کا سلسلہ ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔

سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ ہماری خواہش ہے اور کوشش ہے کہ پاکستان کی سرزمین سے افغانستان کی سرزمین کے لیے کوئی مسئلہ نہ آئے اور ان کی سرزمین سے ہمارے لیے نہ آئے ہم نے کہا کہ آپ کا الزام ہے کہ ہماری طرف سے لوگ آپ کی طرف جاتے ہیں اور آپ کیطرف سے ہمارے ہاں آتے ہیں آئیے مل بیٹھکر اس کا کوئی حل ڈھونڈتے ہیں جب کوئی جواب نہ آیا تو بارڈر مینجیمنٹ کا ہم نے ایک بہت بڑا بیڑا اٹھایا ہے۔ اب افغانستان کی حکومت ان لوگوں کے بارے میں کچھ نہیں کر پا رہی جو لوگ ان کی سرزمین سے منصوبہ کر رہے ہیں پھر داعش کے بارے میں صرف پاکستان کو ہی نہیں روس، چین، امریکہ بلکہ سب کو تشویش ہے۔ الحمدوللہ پاکستان میں داعش جڑ نہیں پکڑ سکی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت سول اور عسکری قیادت اور اداروں کے درمیان جتنا رابطہ اب ہے اتنا میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا پاکستان کے ادارے اور حکومت متحد ہیں کہ ہم نے اپنے ملک کا دفاع کرنا ہے اگر کوئی ملک تعاون نہیں کرتا تو پاکستان اپنے طور پر وہ تمام اقدامات کرے گا جن کی ضرورت ہے نیشنل ایکشن پلان پر بڑی تیزی سے کام جاری ہے بارڈر مینجیمنٹ کر رہے ہیں ہم اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں کہ کوئی ایسا شخص پاکستان میں نہ ہو جو کسی کا آلہ کار بن سکے عین ممکن ہے افغانستان کے علاوہ پاکستان کے خلاف کوئی اوردشمن قوتیں افغان سرزمین کو استعمال کر رہی ہیں انٹیلیجینس رپورٹ میں کہ بھارت پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہا ہے۔ اس کے ثبوت بھی ہم نے اقوام متحدہ کو بھیجے ہیں پاکستان اب یہ معاملہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ اٹھا رہا ہے افغانستان کے لیے پاکستان کی نیک خواہشات اور اچھے اسلوب کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے اگرچہ دہشتگردی کے حالیہ واقعات پر افغان حکومت نے ہمدردی کا اظہار کیا ہے مگر یہ کافی نہیں ہے ہم چاہتے ہیں۔ دونوں ملکوں کی حکومتیں ملٹری انٹیلیجینس تعاون کریں دونوں ملکوں کے سیاسی قائدین بیٹھیں تا کہ بیٹھکر ان مسائل کا حل تلاش کیا جائے الزام تراشی بھی نقصان کا باعث بن رہی ہے کیونکہ دہشتگرد دو حکومتوں کے درمیان عدم اعتماد اور ناچاقی سے حوصلہ پکڑ جاتے ہیں بدقسمتی سے افغان حکومت نے اپنی عوام کو بھی پاکستان کے حوالے سے بہت ورغلایا ہے۔

سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ آج ہی ہم نے امریکی سفارتخانے کو ان باتوں سے آگاہ کیا اور کہا کہ آپ اپنا کردار ادا کریں کیونکہ پاکستان کے لیے یہ قابل قبول نہیں ہے کہ آپ کی افغانستان میں موجودگی کے باوجود وہاں سے لوگ آکر پاکستان میں خون بہائیں ہم نے افغانستان پناہ گزینوں کی 37سال میزبانی کی ہے ہم ان کو دھکا نہیں دیں گے لیکن اگر وہ ہماری سرزمین استعمال کریں گے تو وہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں جس سنجیدگی سے ہم نے افغانستان کی بہتری کے لیے کام کیا ہے ہمیں توقع ہے کہ وہ بھی اسی سنجیدگی سے کام کرے گا اگر ہم افغانستان میں کسی قسم کا تشدد نہیں دیکھنا چاہتے تو ایسا ہی کرنا افغانستان کا بھی فرض ہے اور وہاں بیٹھی افواج کی بھی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دنیا جہاں کی تمام دہشتگرد قوتیں اکٹھی ہو رہی ہیں اعزاز چودھری نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے اصولوں کی پاسداری کی ہے ہم نے اپنی تمام پالیسیاں دوسروں کی سلامتی پر مرکوز کی ہوئی ہیں اور دوسروں سے بھی یہی توقع کرتے ہیں افغانستان میں موجود نیٹو کا بھی فرض ہے اور ہم ان کو جگائیں گے اور بتائیں گے کہ آپ اپنا فرض نبھائیں ہم پاکستان کی طرف سے آپ کی طرف کوئی دہشتگرد نہیں آنے دیں گے ہم اپنا پڑوس پرامن دیکھنا چاہتے ہیں افغانستان ایک برادرانہ ملک ہے اسکے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے امریکہ ایک اہم ملک ہے اور امریکہ کے لیے بھی پاکستان اہم ہے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کئی دہائیوں پر محیط ہے اس میں اتار بھی آیا ہے اور چڑھاؤ بھی آیا ہے مگر چڑھاؤ کہیں زیادہ رہا دونوں ملکوں کے تعلقات کثیرالجہتی ہیں اس میں تعاون کی ایک جہت کا نہیں رہا عسکری تجارت تعلیم الغرض بہت سے شعبوں میں رہا ہے۔دونوں ممالک کے تعلقات کلیدی حیثیت کے ہیں جب بھی دونوں ممالک کا مفاد اکٹھا ہوا، اس سے دونوں ممالک کا مفاد اکٹھا ہوا اس سے دونوں ملک بہرہ مند ہوئے ہمارے امریکی صدر کی ٹیم کے ساتھ روابط اچھے ہوئے ہیں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کئی ایسی جہتیں ہیں جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کی زیر صدارت کام ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر دہشتگردی کے خلاف جو کامیابیاں پاکستان نے حاصل کی ہیں اس کے ثمرات امریکہ کو بھی ملے ہیں۔ اس میں پہلے بھی دونوں ملک ملکر کام کرتے رہے ہیں اور کر سکتے ہیں دوسرا پچھلے 15سال سے امریکہ افغانستان میں امن لانے کی کوشش کر رہا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ وہاں امن کا آنا پاکستان امریکہ دونوں کے لیے ضروری ہے، اس پر بھی ملکر کام کر سکتے ہیں تیسرا یہ کہ اقتصادیات کی بہتری میں بھی دونوں ملک ملکر کام کر سکتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں