ہمارے ہاں دوسری شادی ایک جرم کیوں؟

ہمارے ہاں دوسری شادی ایک جرم کیوں؟

یاسر بڑا ہی سمجھدار اور معقول انسان تھا مگر پتا نہیں یاسمین کی اسے کون سی خوبی نظر آگئی کہ انھوں نے چند ہی دنوں میں شادی کر لی۔ یاسمین کی تو یہ پہلی ہی شادی تھی مگر یاسر کی دوسری تھی۔ شادی کرتے وقت یاسر نے اپنی پہلی بیوی روبینہ سے دوسری شادی کی اجازت نہیں لی تھی چنانچہ سپیشل جوڈیشل مجسریٹ نے اسے بغیر اجازت دوسری شادی کرنے کے جرم میں چھ ماہ قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنا دی ۔ جبکہ عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں یاسر کو مزید ایک ماہ قید سخت بھگتنا ہو گئی۔

مرد کی دوسری شادی خواتین کے لئے ایک سنگین مسئلہ بن جاتی ہے۔ اس سے بسے بسائے گھر اجڑ جاتے ہیں ۔ اولاد نافرمان بن جاتی ہے ۔

اگر پہلی بیوی ذرا ہوشیار اور چالاک ہو تو یاسر جیسے لوگ جیل میں چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان رائج الوقت قانون کے مطابق مرد کو دوسری شادی کرنے سے پہلے اپنی پہلی بیوی سے تحریری طور پر ممکن ہو تو اشٹام پیپر پر نہیں تو ایک سادہ پیپر پر بیوی کی اجازت لینا ضروری ہوتی ہے۔ یہ اجازت پہلی بیوی کی آزادنہ رضامندی سے ہو یہ نہ ہو کہ شوہر زبردستی، سختی سے یا ورغلا کر اجازت لے۔یعنی واضع طور پر اجازت ہو۔جس کے بعد دوسری شادی ہو سکتی ہے۔
اس قانون کے تحت نکاح خوان اور رجسٹرار کی یہ ذمہ داری ہے کہ بوقت نکاح اگر مرد بتلائے کہ یہ دوسری شادی ہے تو وہ اس سے اجازت نامہ طلب کرے اور نہ دکھانے پر نکاح پڑھانے یا رجسٹرڈ کرنے سے انکار کر دے۔ اور اگر جھوٹ بول کر نکاح بھی کروا لے تو پہلی بیوی کی درخواست پر شوہر کو سزائے قید اور جرمانہ کی سزا ہو سکتی ہے۔
اسلام اگرچہ ایک مرد کے لئے بیک وقت چار دائمی بیویاں رکھنے کی اجازت دیتا ہے لیکن اگر کو ئی عورت دوران عقد یہ شرط رکھ دے کہ اس کا شوہر اس کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کرسکتا ہے تو۔۔۔

بعض فقہا کی نظر میں یہ شرط صحیح ہے اور شوہر کو اس کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہئے۔اس حوالے سے فقہا کا کہنا ہے کہ نکاح دو فریقین کے درمیان ایک معاہدے  جیسا ہے۔ لہٰذا ایک لڑکی یا اس کے گھر والوں کو یہ شرعی حق حاصل ہے کہ اگر وہ چاہیں تو نکاح نامے میں یہ ”شرط“ شامل کروا سکتے ہیں کہ لڑکا اس بیوی کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کرے گا۔ اور اگر لڑکا اس شرط کو مان لے تو پھر وہ پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی نہیں کرسکتا۔ان فقہا کے مطابق شادی بیاہ میں فریقین اپنی پسند کی کوئی بھی شرط لکھوا سکتے ہیں بشرطیکہ وہ شرط کارفرائض سے روکنے اور کار حرام کو کرنے سے متعلق نہ ہو۔ چونکہ دوسری شادی کرنا فرض نہیں ہے، لہٰذا پہلی بیوی نکاح نامے میں یہ شرط شامل کرواسکتی ہےجس کے بعد شوہر بیوی کی زندگی میں دوسری شادی نہ کرنے کا پابند ہوگا۔


قرآن مجید کی سورہ النِّسَاءمیں کہا گیا ہے کہ "ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)۔"

تاہم اگر بیویوں کے درمیان انصاف نہ کرنے کا اندیشہ ہو تو ایک ہی کافی ہے۔ فقہا نے اس بارے میں کہا ہے کہ چونکہ دوسری بیوی پہلی کے ساتھ ہی رہے گی لہٰذا مناسب ہے کہ پہلی بیوی سے مشورہ ہو ۔ تاکہ بعد میں آئے دن لڑائی جھگڑا نہ ہو۔ کیونکہ اگر اس سے مشورہ نہ لیا جائے تو دوسری کو برداشت کرنا پہلی کے لیے بہت ہی مشکل ہے،  لہٰذااجازت اور رضامندی ضروری ہے۔ مزید یہ کہ اگروہ راضی نہ ہوتودلائل دے کراورآرام سے راضی کرے اور اگر مال اسباب بھی خرچ کرنا پڑے تو خرچ کرے مگر اجازت ضرور لے۔اگر مرد دونوں بیویوں کو علیحدہ علیحدہ رکھتا ہے تو اسے دونوں کے ساتھ ہر معاملے میں برابری کرنے کا حکم ہے۔

حدیث پاک کے مطابق”جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان برابری نہ کرے تو وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ ساقط اور مفلوج ہوگا۔“ (مشکوٰة شریف )
کچھ فقہا کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوسری شادی میں شرعاً کوئی عیب نہیں، لیکن پہلی بیوی کے برابر کے حقوق ادا کرنا شوہر کے ذمہ فرض ہے، اگر د وسری شادی کرکے پہلی بیوی سے قطع تعلق رکھے گا تو شرعاً مجرم ہوگا۔ البتہ یہ صورت ہوسکتی ہے کہ وہ پہلی بیوی سے مشورہ  کرلے کہ میں تمہارے حقوق ادا کرنے سے قاصر ہوں، اگر تمہاری خواہش ہو تو میں تمہیں طلاق دے سکتا ہوں، اور اگر طلاق نہیں لینا چاہتی ہو تو حقوق معاف کردو۔ اگر پہلی بیوی اس پر آمادہ ہو کہ اسے طلاق نہ دی جائے،لیکن خرچ دینا ضروری ہے۔ پھر بھی جہاں تک ممکن ہو دونوں بیویوں کے درمیان عدل و مساوات کا برتاﺅ کرنا لازم ہے۔
لیکن پاکستان سمیت بعض دیگر اسلامی ممالک میں مرد کو پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کرنے پر پابندی ہے ۔ تاہم مرد دوسری شادی ان شرائط پر کرسکتا ہے۔
1۔پہلی بیوی راضی ہو۔
2۔ پہلی بیوی ازدواجی زندگی کے فرائض پورے نہ کرسکے۔
3۔ بیوی کی طرف سے شوہر کی عدم اطاعت۔
4۔ بیوی کاپاگل پن یا کسی لا علاج بیماری میں مبتلا ہونا۔
5۔ بیوی کو قید کی سزا ملنا۔
6۔ بیوی کا نشہ آور مواد کا عادی ہونا۔
7۔ بیوی کا بانجھ ہونا۔
8۔ بیوی کا ازدواجی زندگی سے کنارہ کشی کرنا وغیرہ
مگر اب پاکستان میں فیملی ایکٹ کی اس شق کو غیر شرعی اور مردوں پر بے جا پابندی کے مترادف کہا جا رہا ہے۔یہ بحث اب عام محفلوں سے ہوتی ہوئی ایوانوں تک پہنچ گئی ہے۔پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں باقاعدہ اس پر بحث ہوچکی ہے ۔ جن میں کہا گیا ہے کہ موجودہ قوانین میں ترمیم لانے کی ضرورت ہے اور مردوں کو پہلی بیوی سے اجازت حاصل کیے بغیر دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کرنے کی بھی اجازت ہونی چاہیے۔ ایوان میں جہاں خواتین ممبران نے اس قانون کو برقرار رکھنے کے لیے یہ دلائل دیے گئے کہ عام اور شرعی قوانین دونوں میں مرد کو دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے اور اسلام کی غلط تشریح کی گئی۔
وہاں مرد ارکان نے ایوان کو بتایا کہ اسلام میں مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے اور کسی طرح کا قانون بھی اس چیز سے روک نہیں سکتا جس کی ہمیں قرآن میں واضح طور پر اجازت دی گئی ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے خصوصی دیہی معاشرے میں دوسری شادی کا عام رواج ہے ۔ ایسے میں اس قانون کی ضرورت ہے تاہم مردوں کے معاشرے میں دوسری شادیاں ہوتیں رہے گی لہٰذا ایسی خواتین کو چاہیے کہ ان کی شوہر کی طرف سے دوسری بیوی لانے پراس سے حسد اور نفرت نہ کرے بلکہ اپنے خاوند کی دوسری شادی کی حقیقت کو عزت اور پر وقار طریقے سے قبول کر لے۔ اس طرح وہ اپنے خاوند کی عزت اور محبت کو پا لے گی۔ گھر بار تباہ ہونے سے بچ سکتا ہے۔

منصور مہدی سینئر صحافی  اور روزنامہ نئی بات سے وابستہ ہیں     

انکا فیس بک آئی ڈی