لندن فلیٹس کس کی ملکیت ہیں، ہم پوچھ، پوچھ کر تھک گئے ہیں، جسٹس عظمت

لندن فلیٹس کس کی ملکیت ہیں، ہم پوچھ، پوچھ کر تھک گئے ہیں، جسٹس عظمت

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاناما عملدرآمد کیس کے حوالے سے تیسرے روز  سماعت  ہوئی۔ وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے آج اپنے دلائل مکمل کیے۔خواجہ حارث نے  آج اپنے دلائل میں   کہا کہ جے آئی ٹی کو وزیراعظم نے اپنے اثاثوں کی تفصیل پیش کی۔ وزیر اعظم کے ڈکلیئرڈ اثاثوں کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں اور نیب قوانین کے مطابق ایسا شخص جس کے بیوی بچوں کے نام اثاثے ہوں اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ کسی منسلک شخص کے اثاثوں سے فائدہ اٹھانے والا ملزم نہیں ہو سکتا۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ قانون میں آمدن اور اثاثوں کے ذرائع کا تذکرہ ہے اور اثاثے جس کے زیر استعمال ہوں وہ بھی بے نامی دار ہو سکتا ہے۔ 

جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ لندن فلیٹس کی خریداری کیلئے فنڈز کہاں سے آئے یہ سوال اب بھی حل طلب ہے۔ لندن فلیٹس کی خریداری کا ذریعہ کیا تھا؟۔ التوفیق بینک آف لندن کیس کا فیصلہ پہلے لیکن فلیٹ کی ملکیت 2006 میں تسلیم کی گئی ایسے سوالات کے جوابات میں تضاد ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ 1993 میں دیکھنا ہو گا بچے کس کے زیر کفالت تھے اگر بچے دادا کے زیر کفالت تھے تو میں کیوں جواب دوں۔

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ التوفیق بنک لندن قرض کیس سے نواز شریف کے تعلق کا کوئی ثبوت نہیں اگر نواز شریف لندن فلیٹس کے مالک نہیں تو دستاویزات کیسے دیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دئیے کہ جے آئی ٹی کا لندن فلیٹس کو شریف خاندان کی مشترکہ ملکیت قرار دینے کے ثبوتوں کا جائزہ لیں گے ہم مسلسل ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ حسین نواز نے لندن فلیٹس کی ملکیت تسلیم کی لیکن دستاویزات پیش نہیں کیں۔ لندن فلیٹس میاں شریف کی ملکیت تھے تو نواز شریف کو بھی حصہ ملا ہو گا۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دئیے ہیں کہ لندن فلیٹس کس کی ملکیت ہیں ہم پوچھ پوچھ کر تھک گئے لیکن کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ ہل میٹل سے نواز شریف کو 80 فیصد فائدہ ملا۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ہل میٹل سے متعلق حسن اور حسین نواز کے وکلا دلائل دیں گے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا شہرت ایسی ہونی چاہیے جس کے بعد کسی وضاحت یا شک و شبہے کے ضرورت نہ پڑے۔

اسحاق ڈار کے وکیل کے دلائل

پاناما عملدر آمد کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل ایڈووکیٹ طارق حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا اسحاق ڈار کھلی کتاب کی مانند ہیں ان پر کوئی الزام نہیں۔ اسحاق ڈار پر تمام الزامات ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے سے متعلق ہیں. جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اسحاق ڈار پر سنگین نوعیت کے الزامات ہیں جبکہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار پر ظاہر آمدن سے سے زائد اثاثے رکھنے کا بھی الزام ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اسحاق ڈار سے متعلق سفارشات بھی دی ہیں۔

وکیل اسحاق ڈار نے کہا کہ میرے موکل نے اپنا اور اہلیہ کا 1995 سے 2017 تک کا ریکارڈ جمع کروایا جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اب کوئی خط و کتابت بنا کر نہ لے آیئے گا۔ جے آئی ٹی کے مواد پر فیصلہ کریں گے یہ واضح رکھیں جس پر طارق حسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کو بروقت تمام ریکارڈ فراہم کر دیا تھا اور دستاویزات رات آٹھ بجے نیب سے لے کر دیئے تھے۔ جے آئی ٹی نے تعریف پر مبنی خط بھی دیا تھا جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے نے ریمارکس دیئے کہ دو دن پہلے ریکارڈ دینے پر تعریف کیسے ہو گئی اگر ریکارڈ نیب نے واپس کیا تو ریکوری میمو ضرور بنایا ہو گا۔ نیب نے اصل ریکارڈ دیا یا فوٹو کاپی جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیب سے ریکارڈ لے کر ایف بی آر کو دیا گیا تھا۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین ایف بی آر نے کہا تھا 95 فیصد ریکارڈ فراہم کر دیا ہے۔ کیا نیب نے تسلیم کیا کہ دستاویزات انہوں نے دیں۔ کوئی خط و کتابت ہے تو سامنے لائیں کیونکہ ایف بی آر نے پہلے کہا کہ ریکارڈ ٹریس نہیں ہو رہا یا اچانک ریکارڈ ملا اور نیب کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیا آپ نے ریکارڈ اعتراضات کے ساتھ جمع کرایا۔ عدالت کو تو کم ازکم ریکارڈ فراہم کیا جانا چاہیے تھا یا عدالت کو صرف آڈٹ رپورٹس دی گئیں۔

طارق حسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اسحاق ڈارکو کیس میں گھسیٹنے کی کوشش کی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ اسحاق ڈار کا کنکشن آپ کو میں بتا دیتا ہوں۔ گلف سٹیل مل میں اسحاق ڈار کے بیٹے کے نام ٹرانزیکشنز ہیں اور ہل مٹیل کمپنی کے ساتھ اسحاق ڈار کا کنکشن موجود ہے۔ اسحاق ڈار نے بیان حلفی کے ساتھ معافی بھی مانگی۔ اس بیان حلفی کے ذریعے کئی ٹرانزیکشنز کا علم ہوا۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار ملزم تھے اور مبینہ طور پر اعترافی بیان دیا اور مبینہ اعترافی بیان کی بنیاد پر اسحاق ڈار کو معافی ملی۔ اس پر طارق حسن نے کہا کہ اعترافی بیان دوران حراست لیا گیا تھا جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار بعد میں مبینہ اعترافی بیان سے منحرف ہو گئے جب ریفرنس خارج ہوا تب اسحاق ڈار نہ فریق تھے نہ ملزم۔

طارق حسن نے کہا کہ وہ معاملہ ختم ہو چکا ہے دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا اس نکتے پر میری تیاری بھی نہیں ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ ملزم نہیں ہیں آپ ماضی کی ٹرانزیکشن پر گواہ ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ آپ جے آئی ٹی کے لیے عدالت کے حکم کو پڑھ لیں۔ جے آئی ٹی کو ہر طرح کا ریکارڈ حاصل کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا اور تمام ادارے اسکے ساتھ تعاون کے پابند بنائے گئے تھے۔ اسحاق ڈار کا بطور شریک ملزم حدیبیہ پیپر ملز کیس ٹرائل نہیں ہوا اور اسحاق ڈار عدالت سے بری نہیں ہوئے کیونکہ اسحاق ڈار حدیبیہ کیس میں شریک ملزم سے وعدہ معاف گواہ بنے۔

طارق حسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ پاناما کیس کے عبوری فیصلے میں اسحاق ڈار کے خلاف کچھ نہیں کہا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ دیکھیں درخواست میں اسحاق ڈار کے خلاف ریلیف کیا مانگا گیا اس وقت نااہل نہیں کر سکتے تھے اس لیے ہم نے مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی اور اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن دوبارہ اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

 سماعت کے دوسرے روز کی تفصیل اور خواجہ حارث کے دلائل

گزشتہ روز سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں سپریم کورٹ کا 20 اپریل کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا اور جے آئی ٹی کے مینڈیٹ کا معاملہ اٹھایا تھا۔ انھوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے 13 سوالات کے ساتھ مزید 2 سوالات اٹھا دیئے جس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں جائیدادوں کی نشاندہی جے آئی ٹی کا مینڈیٹ نہیں تھا۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو اپنے مرتب سوالوں کے جواب دیکھنے ہیں ہم جے آئی ٹی کی سفارشات کے پابند نہیں اور جے آئی ٹی نے جو بہتر سمجھا اسکی سفارش کر دی جبکہ سفارش پر عمل کرنا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ ابھی عدالت نے فیصلہ نہیں کیا لیکن وہ جے آئی ٹی کی کارکردگی بتا رہے ہیں۔ ہماری درخواست قانونی نکات پر ہے اور جے آئی ٹی کی رائے کی قانون میں کوئی نذیر نہیں ملتی۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کی بات سمجھ کر ہم نے نوٹ کر لی ہے۔ آپ نے اپنے جواب میں دستاویزات کی تردید نہیں کی اور لندن فلیٹس کی انکوائری کی منظوری 17 سال پہلے بھی ہوئی تھی۔ 2000 سے 2008 تک آپ کے موکل ملک سے باہر تھے۔

جسٹس اعجاز افضل نےاپنے ریمارکس میں  کہا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں فریقین کے تمام اثاثوں کی چھان بین نہیں ہو سکتی۔ انکوائری کے بغیر تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور عدالت فیصلہ اس وقت کرتی ہے جب حقائق غیر متنازع ہوں۔

جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا تھا حدیبیہ کو شامل کرنا ہے یا نہیں فیصلہ ٹرائل کورٹ نے کرنا ہے اس مرحلہ پر رپورٹ کے کسی حصہ پر فیصلہ نہیں دے سکتے۔سماعت کے دوران  خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ ایف زیڈ ای کے چیئرمین نواز شریف اور مالک حسن نواز ہیں۔ انہوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ ہل میٹل سے رقم آئی لیکن اس کو سیاست میں استعمال نہیں کیا گیا۔

انہوں نے اپنے دلائل میں کہا ایف زیڈ ای کی ملکیت جے آئی ٹی کو پوچھنا چاہیے تھی جبکہ وزیراعظم نے ایف زیڈ ای کی بنیاد پر اقامہ 2012 میں لیا تھا۔ اس پر جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا جے آئی ٹی نے نہیں پوچھا تو ہم پوچھ رہے ہیں۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا آپ کہتے ہیں کہ ان کے اوپر یہ الزام غلط ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ جی ہاں یہ الزام غلط ہے اور کاغذات بھی یہی کہتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے دبئی میں کام کرنے کے لیے اقامہ تو لیا تھا نا۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ کی جلد نمبر 10 میں لکھا ہے کہ کتنی قانونی معاونت آئی ہے کتنی نہیں ہمیں نہیں معلوم کہ وہ سربمہرکیوں ہے۔ اگر آپ اصرار کریں تو اسے بھی کھولا جا سکتا ہے۔ آپ جب چاہیں متفرق درخواست میں دستاویزات کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی نے نجی فرم سے دستاویزات حاصل کیں جو مصدقہ نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا آپ کا مطلب ہے کہ یہ دستاویز باہمی قانونی تعاون سے حاصل نہ کی گئیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ قانون سورس دستاویز کی اجازت نہیں دیتا۔

جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیا صرف ذرائع سے حاصل ہونے والی دستاویز پر شک کر سکتے ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ یہ دستاویز اگر وزارت خارجہ کے ذریعے حاصل ہوتی تو قابل قبول اور مصدقہ ہوتیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اب برطانیہ میں ملکہ کو تو چٹھی نہیں لکھیں گے نا۔

خواجہ حارث نے جے آئی ٹی کو حاصل ہونے والے دستاویزات کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے کسی غیر ملکی حکومت سے براہ راست قانونی مدد نہیں لی بلکہ دستاویزات کا حصول نجی فرم کے ذریعے کیا حالانکہ دستاویزات کو متعلقہ حکومت کے ذریعے ہی ارسال کیا جانا ضروری ہے۔ غیر ملکی حکومت کو ہی دستاویزات کے لیے درخواست کی جا سکتی ہے۔ تصدیق کے بغیر کوئی دستاویز قابل قبول نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ نیب قوانین کے مطابق حکومت کے زیر اثر ادارے اور افراد ہی حکومت کے زمرے میں آتے ہیں۔ دستاویزات جے آئی ٹی کو قانونی معاونت کے تحت ملیں،۔ کیا ہم صرف اس بنیاد پر دستاویزات کو تسلیم نہ کریں کہ حکومت نے نہیں دیں۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ قانونی معاونت افراد نہیں ریاستی اداروں کے درمیان ہوتی ہے اور وفاقی حکومت یا حکومت کا نامزد ادارہ قانونی معاونت کا معاہدہ کر سکتا ہے۔ قانونی معاونت کے معاہدے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ دستاویزات اصل ہوں تو سفارت خانے کی تصدیق کی ضرورت نہیں وہ الگ بات ہے آپ اعتراض کر دیں کہ فلاں دستاویز متعلقہ ادارے سے نہیں لی گئی۔ عدالت کو دیکھنا تھا کہ منروا کے ساتھ معاہدہ کس نے کیا۔ یہ دستاویز آج تک کسی نے پیش نہیں کی۔ مالک کے بغیر پیش کردہ ٹرسٹ ڈیڈ کی کوئی حیثیت نہیں اور جے آئی ٹی کو تمام دستاویزات نواز شریف کے سامنے پیش کرنا چاہیے تھیں۔ اس کے لیے انہیں جے آئی ٹی سے پہلے عدالت میں بھی موقع دیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ رپورٹ میں مزید بہت کچھ سامنے آ گیا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ تمام دستاویزات نواز شریف کے سامنے پیش کرنا چاہیں تھیں لیکن جے آئی ٹی نے تو ایسا موقع دیا ہی نہیں۔ وزیر اعظم سے متعلقہ رپورٹ میں لکھے گئے ایک پیرا کا بھی تحقیقات میں نہیں پوچھا گیا۔

خواجہ حارث کی بات پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یہاں سے ہی مسائل شروع ہوتے ہیں حسین نواز کے مالک ہونے کی ایک دستاویز بھی پیش نہیں ہوئی۔ عدالت نے شریف فیملی کے وکلاء کے دلائل سے مطمئن نہ ہونے پر جے آئی ٹی بنائی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سوال نہیں کیا گیا تو روکا بھی نہیں گیا،60  روز دئیے مکمل موقع دیا،پہلے وزیر اعظم نے کہا دستاویز ہیں پھر کہا نہیں ہیں،وزیر اعظم عدالت نہیں تو جے آئی ٹی کو ہی ریکارڈ دے دیتے۔ 20 اپریل کا حکم نامہ عبوری تھا۔ جے آئی ٹی رپورٹ اور شواہد کے جائزے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ معاملہ نیب کو بھیجیں یا نااہلی سے متعلق فیصلہ کر دیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ کیس آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق ہے کیونکہ اثاثوں اور آمدن کی دستاویز آپ نے دینا تھیں۔ وزیراعظم کا کام تھا کہ لندن فلیٹس کی خریداری کے ذرائع بتاتے لیکن آپ کا زور صرف اس پر ہے کہ جے آئی ٹی نے یہ دستاویز نہیں دکھائی وہ نہیں دکھائی۔ لندن فلیٹس کی خریداری کے وقت بچوں کی آمدنی نہیں تھی اور وزیراعظم نے تقریر میں کہا تھا ذرائع اور وسائل کا ریکارڈ موجود ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ وزیراعظم کے اثاثے آمدن سے زیادہ تھے تو جے آئی ٹی بتاتی رپورٹ میں شامل چیزوں پر جے آئی ٹی نے ہم سے نہیں پوچھا۔ دستاویزات پر جے آئی ٹی نے جرح نہیں کی اور جرح کے بغیر تمام رپورٹ یکطرفہ ہے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر ٹرائل شفاف نہیں ہو سکتا۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک سال سے پوچھ رہی ہے اب بتا دیں۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ جس کی جائیداد ہو ثابت اسی کو کرنا ہوتی ہے۔ شریف خاندان کے وکلاء کے دلائل بھی جے آئی ٹی کی وجہ بنے اور جے آئی ٹی کی فائنڈنگ نہیں بلکہ سامنے آنے والا مواد اہمیت کا حامل ہے۔

پہلے روز کی سماعت کی تفصیل

عمران خان کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل

سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے جے آئی ٹی رپورٹ کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا  کہ پاناما کیس کے فیصلے میں عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جب کہ جسٹس گلزار نے جسٹس آصف سعید کھوسہ سے اتفاق کیا اور 3 ججز نے مزید تحقیقات کی ہدایت دی جس کے بعد عمل درآمد بینچ اور جے آئی ٹی بنی جبکہ جے آئی ٹی ہر 15 روز بعد اپنی پیش رفت رپورٹ عمل درآمد بینچ کے سامنے جمع کراتی رہی۔ 10 جولائی کو جے آئی ٹی نے اپنے حتمی رپورٹ جمع کرائی۔ تحقیقات کا معاملہ عدالت اور جے آئی ٹی کے درمیان ہے اب جے آئی ٹی رپورٹ پر فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔

نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا جے آئی ٹی نے متحدہ عرب امارات سے قانونی معاونت بھی حاصل کی اور گلف اسٹیل مل سے متعلق شریف خاندان اپنا موقف ثابت نہیں کر سکا جبکہ گلف اسٹیل مل 33 ملین درہم میں فروخت نہیں ہوئی۔ جے آئی ٹی نے طارق شفیع کے بیان حلفی کو غلط اور 14 اپریل 1980 کے معاہدے کو خود ساختہ قرار دیا ہے۔ اپنی تحقیقات کے دوران جے آئی ٹی نے حسین نواز اور طارق شفیع کے بیانات میں تضاد کو بھی نوٹ کیا۔

جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں فہد بن جاسم کو 12 ملین درہم ادا کرنے کو افسانہ قرار دیا جبکہ قطری خط وزیراعظم کی تقاریر میں شامل نہیں تھا۔ جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کو طلبی کے لیے چار خط لکھے جبکہ جے آئی ٹی نے رپورٹ کہا کہ قطری شہزادہ پاکستانی قانونی حدود ماننے کو تیار نہیں اس کے علاوہ قطری شہزادے نے عدالتی دائرہ اختیار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔

نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے کہا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کی ایجنسی نے موزیک فونسیکا کے ساتھ خط و کتابت کی اور جے آئی ٹی نے اس خط و کتابت تصدیق کی۔ لندن فلیٹ شروع سے شریف خاندان کے پاس ہیں کیونکہ تحقیقات کے دوران مریم نواز نے اصل سرٹیفکیٹ پیش نہیں کیے۔ ٹرسٹی ہونے کے لیے ضروری تھا کہ مریم نواز کے پاس بیریئر سرٹیفکیٹ ہوتے۔ بیریئر سرٹیفکیٹ کی منسوخی کے بعد کسی قسم کی ٹرسٹ ڈیڈ موجود نہیں اور فرانزک ماہرین نے ٹرسٹ ڈیڈ کے فونٹ پر بھی اعتراض کیا۔

حدیبیہ پیپر کیس سے متعلق نعیم بخاری نے کہا کہ حدیبیہ کیس کے فیصلے میں قطری خاندان کا کہیں تذکرہ نہیں جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اس میں قطری خاندان کا ذکر ہونا ضروری نہیں تھا۔ حدیبیہ پیپر ملز کی سیٹلمنٹ کی اصل دستاویزات سر بمہر ہیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ شہباز شریف بطور گواہ جے آئی ٹی میں پیش ہوئے اور انہوں نے جے آئی ٹی میں ایسے بیان دیا جیسے پولیس افسر کے سامنے دیتے ہیں۔ ان کا بیان تضاد کے لیے استعمال ہو سکتا ہے اور جے آئی ٹی کے سامنے دیئے گئے بیانات کو ضابطہ فوجداری کے تحت دیکھا جائے گا۔ قانونی پیرامیٹرز کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔

عمران خان کے وکیل نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ جے آئی ٹی کے مطابق نواز شریف نے سعودی عرب میں واقع عزیزیہ اسٹیل ملز لگانے کے لیے کوئی سرمایہ موجود نہیں تھا۔ عزیزیہ اسٹیل مل کے حسین نواز اکیلے نہیں بلکہ میاں شریف اور رابعہ شہباز بھی حصہ دار تھے۔ اس کی فروخت کی دستاویزات پیش نہیں کیں لیکن جےآئی ٹی نے قرار دیا کہ عزیزیہ مل 63 نہیں 42 ملین ریال میں فروخت ہوئی۔

نعیم بخاری نے کہا کہ جے آئی ٹی نے بتایا ہے کہ ایف زیڈ ای نامی کمپنی نواز شریف کی ہے۔ حسین نواز کے مطابق ایف زیڈ ای کمپنی 2014 میں ختم کر دی گئی۔ نواز شریف ایف زیڈ ای کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے چیئرمین تھے۔ عدالت نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ کیا ایف زیڈ ای کی دستاویزات جے آئی ٹی کو قانونی معاونت کے تحت ملیں یا ذرائع سے جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ کمپنی کی دستاویزات قانونی معاونت کے تحت آئیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ تمام دستاویزات تصدیق شدہ نہیں ہیں جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ دستاویزات درست ہیں صرف دستخط شدہ نہیں۔ کمپنی نے نواز شریف کا متحدہ عرب امارات کا اقامہ بھی فراہم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے دبئی اور برطانوی حکام کو 7 ،7 خطوط لکھے اس کے علاوہ سعودی عرب کو بھی ایک خط لکھا لیکن اس کا جواب نہیں آیا۔ یو اے ای حکومت کو لکھے گئے خطوط رپورٹ کی جلد نمبر 10 میں ہوں گے جو ظاہر نہیں کی گئی جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ضرورت محسوس ہوئی تو والیم 10 کو بھی کھول کر دیکھیں گے۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ شریف خاندان کے پاس آمدن سے زائد اثاثے ہی اور نواز شریف کے اثاثے بھی ان کی آمدن سے زائد ثابت ہوئے۔ جس کا ذکر جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل ہے۔ جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ آمدن سے زائد اثاثے ہونے کے کیا نتائج ہوں گے جس پر نعیم بخاری نے کہا ہے کہ ہم نے عدالت سے نواز شریف کی نااہلی کا ڈیکلریشن مانگا ہے اور نواز شریف کے خلا ف نیب کا مقدمہ بھی بنتا ہے۔

جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کے دلائل

جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے اپنے دلائل میں کہا کہ میری درخواست نواز شریف کی اسمبلی تقریر کے گرد گھومتی ہے کیونکہ نواز شریف نے اسمبلی تقریر اور قوم سے خطاب میں سچ نہیں بولا۔ جے آئی ٹی کے مطابق نواز شریف نے تعاون نہیں کیا۔ انہوں نے قطری خطوط پڑھے بغیر درست قرار دیئے۔ نواز شریف نے کہا کہ قطری سرمایہ کاری کا علم ہے مگر کچھ یاد نہیں اور نواز شریف نے اپنے خالو کو پہچاننے سے انکار کیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگز سارا پاکستان جان چکا ہے لیکن ہم جے آئی ٹی کی فائنڈنگز کے پابند نہیں آپ کو یہ بتانا ہے کہ ہم جے آئی ٹی فائنڈنگز پر عمل کیوں کریں۔ جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ ہم جے آئی ٹی کی سفارشات پر کس حد تک عمل کر سکتے ہیں۔ بتائیں ہم اپنے کون سے اختیارات کا کس حد تک استعمال کر سکتے ہیں جس پر توفیق آصف نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیر اعظم کی نااہلی کے لیے کافی مواد ہے۔

نعیم بخاری جے آئی ٹی رپورٹ کی سمری سے عدالت کو آگاہ کر چکے ہم جے آئی ٹی رپورٹ کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور اسے درست تسلیم کرتے ہیں۔ بادی النظر میں وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر بادی النظر کہہ دیا تو پھر کیس ہی ختم ہو گیا۔

شیخ رشید کے دلائل

کیس کے تیسرے مدعی شیخ رشید نے پانامہ کیس میں دلائل دیتے ہوئے کہا نواز شریف ایک کمپنی کے ملازم نکلے جس سے پوری قوم کی ناک کٹ گئی۔ نواز شریف کے بچے حمید مستری کے بیٹے نہیں ایٹمی ملک کے وزیراعظم کے بچے ہیں۔

انہوں نے کہا شریف خاندان نے بے نامی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں اور مریم نواز بینیفیشل مالک ثابت ہو گئی ہیں ۔ جس عمر میں شناختی کارڈ نہیں بنتے ان کے بچے 8 کروڑ روپے کما لیے ہیں سرکاری ٹی وی کا خاکروب اٹھارہ ہزار ٹیکس دیتا ہے اور ملک کا وزیراعظم صرف 5 ہزار ٹیکس دیتے ہیں ۔ شیخ رشید کے دلائل پر کمرہ عدالت میں مسکراہٹیں بکھر گئیں تھیں ۔

شریف خاندان اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اعتراضات

سماعت سے قبل شریف خاندان اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراضات جمع کرائے ۔ شریف خاندان نے اپنے اعتراضات میں موقف اختیار کیا  کہ جے آئی ٹی کوعدالت نے 13 سوالات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا لیکن جے آئی ٹی نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔ جے آئی ٹی جانبدار تھی اور اس نے قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا۔ اس لیے عدالت عظمیٰ سے استدعا ہے کہ ہماری درخواست منظور کرتے ہوئے رپورٹ کو مسترد کیا جائے۔

واضح رہے جے آئی ٹی نے 10 جولائی کو اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی تھی۔ 10 جلدوں پر مشتمل اس رپورٹ میں نواز شریف سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات اور اس سے متعلق شواہد سامنے لائے گئے۔

نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں