پانامہ کا فیصلہ اور شاہکار کی کمال ٹائمنگ

پانامہ کا فیصلہ اور شاہکار کی کمال ٹائمنگ

 گذشتہ سال4 اپریل کوآئی سی آئی جے  کے بینرتلے جرمن اخبار میں ایک انکشافات سے بھرپور فلم ریلیز ہوئی جس میں دنیا بھر میں قائم آف شور کمپنیوں کے مالکان کے نام سامنے آئے.  پھر کیا تھا  یورپ سے ایشیا تک اس کامیاب فلم نے اپنے جھنڈے گاڑے اور کئی ممالک میں تو  اسکی تباہ کاریوں سے کئی بڑے بڑے سیاستدان گھروں میں جا بیٹھے۔

  پانامہ نامی اس فلم نے دنیا بھر میں احتجاجی سیاست کو بھی ہوا دی اور جن جن ممالک کے حکمرانوں کے نام آئے وہاں کے عوام سٹرکوں پر نکل آئے جس کے نتیجے میں چند روز میں ہی دنیا بھر میں عالمی رہنماوں کے استعفوں کا کاروبار چل نکلا۔

4 اپریل  کو آنے والی فلم میں پاکستان کے 259 کے قریب  نام بھی  سامنے آئے جن میں سب سے زیادہ شور وزیراعظم نوازشریف کے صاحبزادوں اور صاحبزادی کے نام پر دیکھنے میں آیا۔فلم کے اثرات ایسے تھے کہ وزیراعظم نواز شریف دل کے عارضے میں مبتلا ہوئے بلکہ انہیں اوپن ہارٹ سرجری کے لیے بیرون ملک بھی جانا پڑا۔ پاکستان میں 259 ناموں میں کئی بڑے بڑے نام سامنے آئے مگر کسی کے خلاف احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔اگر آیا تو صرف وزیراعظم اور انکے بچوں کے اربوں روپے کے گھروں پر سوالیہ نشان اٹھے۔

پاکستان کی سیاست میں ایک مرتبہ پھر بھونچال آیا اور کبھی اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ٹی او آرز پر ڈیڈ لاک ہوا تو کبھی وزیراعظم کو عہدے سے الگ ہونے پر سخت الفاظ کی جنگ تقریبا 1 سال جاری رہی۔ اور بالاآخر ایمپائر کے فرائض پاکستان کی سب سے مقدس عدالت کو سرانجام دینے پڑے۔فلم  کے ہیرو اگر نوازشریف تھے تو ولن کے کرداروں میں  عمران خان، سراج الحق ،شیخ رشید اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما تھے۔ سپریم کورٹ میں 126دن تک اس فلم کے ہیرو کو گرانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور ہر ولن نے ہیرو  کے خلاف مکمل جرع کی اور جب اختتامی لمحات شروع ہوئے  تو 25 فروری کو  فاضل عدالت کی جانب سے  فلم کوکلائمکس پر روکنے کا حکم دیا اور یوں 4اپریل 2016 کو  ریلیز ہونے والی فلم پانامہ لیکس پاکستان میں  اپنے کلائمکس پر پہنچ چکی ہے اور آج دوپہر 2 بجے فلم کے آخری سین سے پردہ اٹھ جائے گا۔

دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس کے اثرات صرف ایک خاندان تک محددو رہتے ہیں یا پھر اس گنگا میں اشنان کرنے والے سب ہی افراد ننگے ہوتے ہیں۔ پانامہ لیکس کے فیصلے کے ساتھ ایک اور فیصلہ بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے جس کا اعلان بھی رواں ہفتے متوقع ہے  اور وہ ہے نیوز لیکس کا ۔ نیوز لیکس نے جہاں مسلم لیگ نون کے اہم ستون اور نوازشریف کے دیرینہ اور وفادار ساتھی پرویز رشید کی قربانی بھی لی اب مکمل انکوائری کمیٹی کے فیصلوں کے ساتھ منظر عام  پر آنے کو ہے۔

کچھ ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ نیوز لیکس میں ناصرف بڑی قربانی متوقع ہے بلکہ مزید ایک وفاقی مشیر اور اہم حکومتی عہدیدار کو مورود الزام ٹھہرانے کی تیاری کی گئی ہے۔

ماضی میں  اپوزیشن جماعتوں اور ملک کے معتدل حلقوں کی جانب سے شریف خاندان کے اہم فرد کا نام بھی نیوز لیکس میں لیا جاتا رہا ہے ہےتاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا کمیشن کے فیصلوں پر کب اور کیسے عمل کرتی ہے مگر اس کے لیے کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آنا بھی ایک شرط ہے۔ پاکستان سے جڑا ہر شہری 20 اپریل کی دوپہر دو بجے کا شدت سے انتظار تو کر ہی رہا ہے مگر اس کے ساتھ  مسلم لیگی حلقے اس بات پر پریشان بھی ہیں کہ کچھ ٹائمنگ کا مسئلہ انکو مسائل بڑھنے کی جانب اشارے دے رہا ہے۔

ملک میں بڑھتی گرمی اور اسکے بعد ہوشربا  لوڈشیڈنگ سے جہاں ہر شہری پریشان اور گرمی سے نڈھال ہے تو وہیں حکومت کے دو اہم معاملات کے اعلانات بھی عین  اسی دوران ہو رہے ہیں جس سے ملکی سیاسی حالات کے درجہ حرارت میں اضافے کا قوی امکان نظر آ رہا ہے۔  سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہےکہ  اگر سپریم کورٹ کے فیصلے سے اگر ایک حلقے میں خوشی کی لہر دوڑتی ہے تو وہیں دوسرے حلقے کی جانب سے ردعمل کا آنا بھی فطری امر نظر آ رہا ہے اور اگر ان تمام حالات میں حکومت مخالف فیصلے سے جہاں حکومت کے جاری مختلف ترقیاقی منصوبوں کی رفتار میں کمی آئے گی وہیں مسلم لیگ نون کی قیادت کی جانب سے آئندہ کے سیاسی منظر نامے میں بڑے نقصان کا بھی اندیشہ ہے۔

اگر وزیراعظم کے بچوں کے خلاف کیمشن یا تحقیقات کا آغاز ہوتا ہے تو 80 کی دہائی سے پاکستان میں سیاست کرنے والے شریف خاندان کے لیے مشکلات کا آغاز ہو جائے گا۔ اور خصوصاً  وزیراعظم کے بچوں کی  سیاست میں انٹری رک جانے سے جہاں اپوزیشن کامیاب ہو گی وہیں شریف خاندان کے سیاسی مستقبل پر بھی کئی سوالات اٹھا جائیں گے۔  گویا ، نیوز لیکس سے لے کر پانامہ ہنگامہ تک حکومتی امتحان کے شروع ہونے میں اب صرف چند گھنٹے ہی باقی رہ گئے ہیں ۔ جہاں تک عوامی حلقوں کی بات کی جائے تو اکثریت اس بات پر بضد ہے کہ  اس مرتبہ ، جی کا جانا ٹھہر گیا ہے۔

مصنف کے بارے میں

عاصم نصیرنیوٹی وی کے نمائندہ خصوصی ہیں