سمندر پر تیرتا دنیا کا پہلا شہر

سان فرانسسکو: ایک امریکی ڈیزائن فرم ’’سی اسٹیڈنگ انسٹی ٹیوٹ‘‘ نے فرنچ پولی نیشیا کی حکومت سے ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت جنوبی بحرالکاہل میں سمندر پر تیرتا ہوا دنیا کا پہلا شہر تعمیر کیا جائے گا۔

سمندر پر تیرتا دنیا کا پہلا شہر

سان فرانسسکو:  ایک امریکی ڈیزائن فرم ’’سی اسٹیڈنگ انسٹی ٹیوٹ‘‘ نے فرنچ پولی نیشیا کی حکومت سے ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت جنوبی بحرالکاہل میں سمندر پر تیرتا ہوا دنیا کا پہلا شہر تعمیر کیا جائے گا۔

امید ہے کہ اس شہر کی تعمیر 2019 میں شروع کردی جائے گی اور اس کا پہلا مرحلہ تقریباً دس سال میں مکمل ہوگا۔ یہ تو نہیں معلوم کہ اس میں کتنے لوگ رہ سکیں گے لیکن ڈیزائن دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کم از کم 10 ہزار افراد کی گنجائش ہوگی جبکہ ابتداء میں وہاں رہائش اختیار کرنے کا خرچہ 27 ہزار ڈالر فی کس بتایا جارہا ہے۔ البتہ مستقل سکونت اختیار کرنے کے بعد یہ اخراجات خاصے کم رہ جائیں گے۔

کہ فرنچ پولی نیشیا، جنوبی بحرالکاہل میں 100 سے زائد جزیروں پر مشتمل ایک ملک ہے جو فرانسیسی حکومت کے زیرانتظام ہے اور جسے عالمی درجہ حرارت بڑھنے کے باعث سطح سمندر میں اضافے سے ڈوبنے کا شدید خطرہ ہے۔ فرنچ پولی نیشیا کی حکومت نے بھی اسی خدشے کے پیش نظر سمندر پر تیرتے ہوئے شہر کے منصوبے میں شراکت پر رضامندی ظاہر کی ہے تاکہ وقت سے پہلے ہی اپنی ساری آبادی کو ایسے شہروں میں منتقل کر سکے۔

اس معاہدے کو باضابطہ شکل دینے کے لئے فرنچ پولی نیشیا کی حکومت نے قانون سازی کی تیاری بھی کرلی ہے جس کے تحت اس منصوبے کو ’’ فلوٹنگ آئی لینڈ پروجیکٹ‘‘ (تیرتے جزیرے کا منصوبہ) کا نام دیا گیا ہے۔

اس شہر کو ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوئے ایسے درجنوں بڑے اور کثیرالمنزلہ بحری جہازوں سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جو سمندر پر ساکن حالت میں موجود ہوں۔ سی اسٹیڈنگ انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ سمندر پر تیرتا ہوا یہ شہر نہ صرف ڈوبتے ہوئے جزیروں کے باسیوں کو تحفظ فراہم کرے گا بلکہ سیاحوں کے لئے سیر و تفریح کا سامان بھی ہوگا جس سے فرنچ پولی نیشیا کی حکومت خطیر اضافی آمدنی بھی حاصل کرسکے گی۔

بعض ناقدین کا خیال ہے کہ ابھی سے سمندرپرتیرتے ہوئے اس شہر کے بارے میں خوش فہمیاں پالنا درست نہیں کیونکہ فی الحال یہ صرف ایک معاہدے اور ڈیزائن ہی کی شکل میں ہے جبکہ اس خیال کو حقیقت کا روپ دھارنے کے لئے درجنوں چیلنجوں سے گزرنا ہوگا اور کوئی نہیں جانتا کہ ان مشکلات پر قابو پایا جاسکے گا یا نہیں کیونکہ دنیا میں اب تک اس نوعیت کے کسی منصوبے پر عملی کام نہیں کیا گیا ہے۔