نواز شریف کے سیاسی بقاء  کی مشکل جنگ

نواز شریف کے سیاسی بقاء  کی مشکل جنگ

نواز شریف صاحب اتنی مشکلات میں جے آئی ٹی سے پہلے نہیں تھے جتنا وہ اب اس وقت ہیں۔ پانامہ کیس قانونی لڑائی سے بڑھ کر اب نواز شریف اور انکے خاندان کے بقاء کی جنگ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اب تک وزارت عظمی کے چلنے کا سہرا اسٹیبلشمنٹ اور غیر ملکی دوستوں کو جاتا ہے جس میں سر فہرست مغربی ممالک آتے ہیں۔ لیکن اب سازشیں اندرونی دکھائی دیتی ہیں، بالخصوص پارٹی اور فیملی میں۔

یہ بات حیران کن ہے کہ وزیر اعظم صاحب کے قریبی ساتھیوں نے سازشوں کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو ٹھہرایا ہے کیونکہ یہ وہ اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے 2008 سے لیکر اب تک تین آرمی چیفس کو جمہوری حکومتوں کے ساتھ کام کرنے کا پابند کیا۔

جنرل پرویز مشرف نے منتخب حکومت کے سامنے سر جھکایا، جنرل پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف نے اپنی جیپ میں نواز شریف صاحب کو گھمایا۔ یہ 'جیپ ڈپلومیسی' اسٹیبلشمنٹ کی ایک منظم مہم کا حصہ تھی جہاں فوج نواز شریف صاحب کو باور کرانا چاہتی تھی کہ وہ 1999 کو تلخ ماضی کا حصہ سمجھتی ہے، اور وہ نواز شریف کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے۔ یہ دوستانہ رویہ فوج کی ضرورت بھی تھی اور ملک کی بھی۔

اس وقت وزیر اعظم کے خلاف کچھ اندرونی سازشیں نظر آ رہی ہیں جن کا تعلق راولپنڈی سے کم اور اسلام آباد اور لاہور سے زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ساری سازشیں نواز شریف صاحب کی اپنی ٹیم کی ناکامیوں سے شروع ہوتی ہیں۔وزیر اعظم کی وفا دار لیکن کم فہم ٹیم کے فیصلوں اور مشوروں نے جہنم کے دروازے کھول دئیے ہیں۔ اپوزیشن کے انتخابات سے متعلق شکایات سے لیکر بھارت کے ساتھ تعلقات اور پہر پانامہ کیس، ان تمام مسائل میں وزیر اعظم اور انکی ٹیم نے خود اپنے لئے مسائل کھڑے کئے۔ ایک تجربہ کار، تین بار منتخب وزیر اعظم سے سپریم کورٹ میں جمع کئے گئے ثبوتوں میں دھوکہ دہی اور جعلی دستاویزات کا سہارا لینا کہاں کی دانشمندی ہے۔

اسی لئے اب گیم واقعی بہت آگے نکل چکی ہے۔اس وقت وزیر اعظم کے مقابلے میں کئی کھلاڑی اکٹھے ہو چکے ہیں۔ ان سب کو اب فرق نہیں پڑتا کہ نواز شریف صاحب کو سپریم کورٹ نااہل کرتی ہے یا ٹرائل میں بھیج دیتی ہے۔ نواز شریف صاحب کا جانا ٹھہر چکا ہے، چاہے وہ نااہل ہو کر جاتے ہیں، استعفی دیتے ہیں، نیا وزیر اعظم لاتے ہیں یا اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کروا تے ہیں۔

نون لیگ کے اندر پرانے لیگی پھر حرکت میں آ رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نواز شریف صاحب اور انکے قریبی مشیروں سے تنگ ہیں۔ پھر مشرف صاحب کے زمانے کا قاف لیگ کا گروپ ہے، اور پھر چوہدری نثار صاحب ہیں، اور آخر لیکن سب سے اہم وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف صاحب ہیں۔ وزیر اعظم کے سامنے اتنے محاذ کھل چکے ہیں، یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ بھی پریشان ہے۔ حکومت سیاسی طور پر مفلوج ہے، اور ایک بار پہر سیاسی انتشار کو قابو کرنے کی صلاحیت سے محروم دکھائی دیتی ہے۔ یہ ہی صورتحال 2014 کے دھرنوں میں بھی تھی۔ اس وقت آرمی چیف نے وزیر اعظم صاحب کی مدد کی اور حکومت کو بند گلی سے نکالا۔

اس مرتبہ فوج اپنے پیشہ وارانہ امور میں مصروف ہے اور تمام معاملہ کو عدلیہ اور حکومت پر چھوڑا ہوا ہے۔ آئی ایس پی آر یہ کہے گی تو نہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج ملک میں استحکام کی خواہشمند ہے اور اس بات کی متمنی ہے کہ ملک لمبے سیاسی عدم استحکام کی طرف نہ جائے اور سیاست کرنے والے اور ملک چلانے والے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کریں۔ جمہوریت اور قانون کی پاسداری تمام پاکستانیوں پر فرض ہے۔

نواز شریف صاحب کے آپشنز بہت کم ہیں۔ یا تو وہ پارٹی بچا لیں، یا وہ اس سیاسی جنگ میں آخری حد تک جائیں جس میں انکی پارٹی اور ملکی استحکام دونوں داو پر لگ سکتے ہیں۔

ایک آخری آپشن موجود ہے جو نواز شریف صاحب کے سیاسی قد کو مزید بڑھا سکتا ہے، لیکن پاکستانی جمہوریت میں اس آپشن کو کوئی نہیں مانتا، خصوصاً خود جمہوری لوگ۔ یہ آپشن استعفی کا ہے، اور پاکستان میں استعفی سیاسی خود کشی سے کم نہیں۔

پاکستانی سیاسی نظام بند گلی میں داخل ہوتا دکھائی دیتا ہے اور کیونکہ ہمارے  سیاسی نظام میں دانشمندی کا فقدان ہے، دیکھتے ہیں کہ اس مرتبہ یہ نظام پختگی کی طرف قدم بڑھاتا ہے یا انتشار کی طرف۔

احمد قریشی پاکستانی صحافی، محقق اور مصنف ہیں جو نیو ٹی وی نیٹ ورک کے ساتھ منسلک ہیں۔
اور ایٹ کیو پروگرام کے اینکر ہیں۔ انکا پروگرام جمعہ، ہفتہ، اتوار شام آٹھ بجے دیکھا جا سکتا ہے۔

رابطہ کیلئے 
ahmed.quraishi@neonetwork.pk

@office_AQpk

FB.com/AhmedQuraishiOfficial

احمد قریشی کے یہ بلاگ بھی پڑھیں:

کس نے پاکستان کو ریاض اجلاس میں نظر انداز کیا؟

مشال خان: ایک ضروری وقفہ

متنازعہ نوٹیفیکیشن کا نقصان

وزیر اعظم صاحب کے فدائین