پانامالیکس کیس: سپریم کورٹ نے شریف خاندان کی وراثتی جائیداد کی تقسیم کی تفصیلات مانگ لیں

پانامالیکس کیس: سپریم کورٹ نے شریف خاندان کی وراثتی جائیداد کی تقسیم کی تفصیلات مانگ لیں

اسلام آباد:پانامہ کیس کی سماعت جاری ہے  سپریم کورٹ نے شریف خاندان کی وراثتی جائیداد کی تقسیم کی تفصیلات مانگ لیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اور کیپٹن صفدر کی نااہلی کیلئے الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر ہے۔  الیکشن کمیشن کو ریفرنس پر فیصلہ دینے کا مکمل اختیار ہے،

مریم نوازکے وکیل شاہدحامد نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ مریم نواز کے بیان پر بطور مجاز دستخط کیے تھے،مریم نواز کی جانب سے دستخط کرنے کا اختیار دیاگیا تھا۔

جسٹس گلزارنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ  میاں شریف کی وفات کے بعد ان کی جائیداد کا کیابنا؟جسٹس کھوسہ نے کہا کہ وراثتی تقسیم کےحوالے سے ایک دوروز میں آگاہ کرسکتے ہیں؟آگاہ کریں جائیداد کس طرح تقسیم ہوئی؟نواز شریف نے کاغذات نامزدگی میں کہا ہےوہ والدہ کے گھر میں رہتے ہیں ۔جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیپٹن صفدر نے 2011 میں ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کروایا،ٹیکس ریٹرن جمع نہ کروانے کا کیا نتیجہ ہو گا؟شاہد حامد نے کہا کہ اگر کوئی ٹیکس ریٹرن نہ جمع کرائے اسے 28ہزارجرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے،2011 سے پہلے کیپٹن صفدر کی تنخواہ سے ٹیکس کٹوتی ہوتی تھی۔

جس پرجسٹس کھوسہ نے کہا کہ آپ پر الزام ہےکہ کیپٹن صفدر نے گوشواروں میں اہلیہ کے اثاثے چھپائے،شاہد حامدنے کہا کہ یہاں نااہلی یا ٹیکس چوری کا سوال نہیں ھے،کیپٹن صفدر نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ مریم نواز کے گوشوارے لف کیے تھے۔جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر کیا الیکشن کمیشن اور انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے کوئی اقدام نہیں کیا؟عدالت سے کیپٹن صفدر کی نااہلی کی استدعا نہیں کی گئی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہکیپٹن صفدر کی نااہلی مانگی گئی ہے،جسٹس کھوسہ نے کہا کہ الزام ہے کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر کیپٹن صفدر ایماندار نہیں رہے۔

شاہد حامدنے کہا کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ ہونے پر نااہلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،ٹیکس کا معاملہ ایف بی آر کے دائرہ اختیار میں آتاہے۔جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کیپٹن صفدر کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التواہے،الیکشن کمیشن کو ریفرنس پر فیصلہ دینے کا مکمل اختیار ہے، اگر ریفرنس میں بھی یہی سوال اٹھایا گیا ہے تو سپریم کورٹ مداخلت کیوں کرے؟ سپریم کورٹ آرٹیکل 184/3 کے تحت متوازی کارروائی کیسے کر سکتی ہے؟  شاہد حامدنے دلائل دیئے کہ 

وزیراعظم کی نا اہلی کے لیے بھی ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے،عدالت ریفرنس خود سنے تو اس کی مرضی ہے۔

جسٹس اعجاز افضل نے پھر سوال اٹھایا جب ایک متعلقہ با اختیار فورم ہے تو اس کے مقدمات ہم کیوں سنیں؟دیگر ادارے بھی ریاست نے آئین کے مطابق بنائے ہیں۔شاہد حامد نے کہا کہ وزیراعظم ہو یا عام شہری، قانون سب کے لیے برابر ہے، حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم نے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے۔جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئے کہ کسی رکن اسمبلی کے لیے کیا طریقہ کار ہے؟شاہد حامدنے کہا کہ منتخب نمائندے کی نا اہلی کے لیے کو وارنٹو کی رٹ دائر کی جا سکتی ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ میں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض ہے؟

شاہد حامدنے کہ میں تو عدالتی سوالوں کے جواب دے رہا ہوں۔

جس پر جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ  کیا اس بنیاد پر سپریم کورٹ کارروائی نہ کرے کہ معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے، فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہے کہ معاملہ اس کے دائرہ اختیار میں آتا بھی ہے یا نہیں؟یوسف رضا گیلانی کے خلاف ریفرنس اسپیکر نے مسترد کیا تو معاملہ سپریم کورٹ آیا۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ وزیراعظم کی نا اہلی کا کیس کس ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے؟ شاہد حامدنے کہا کہ اسپیکر کے فیصلے کے خلاف اپیل لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔

جسٹس کھوسہالیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، ریفرنس اس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس کا کیسے جائزہ لیں جس کے لیے دوسرے فورم موجود ہیں۔شاہد حامدنے کہاایک الزام پر ریفرنس دیگر فورم پر موجود ہیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ہماری تشویش ہے کہ داد رسی کے لیے فورم قانون کے تحت موجود ہیں،جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 63 کے تحت اسپیکر سے رجوع کیا جا سکتا ہے،جسٹس کھوسہ نے سوال اٹھایاسپیکر کے ریفرنس خارج کرنے کی صورت میں کیا دوسرا شخص بھی سپیکر کے پاس داد رسی کے لیے جائے۔پھر داد رسی کے لیے سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ سے براہ راست رجوع کر سکتے ہیں؟ عدالت درخواستوں کو قابل سماعت قرار دے چکی ہے،آپ اس معاملے پر عدالت کی معاونت کریں۔

مریم صفدر کے وکیل شاہد حامدنے کہا کہ بڑا اعتراض صرف عدالتی دائرہ اختیار پر ہے، قابل سماعت پر مجھے کوئی اعتراص نہیں،میرا مؤقف ہے کہ میری بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں،لندن فلیٹس میرے بھائی کے ہیں،میرے بھائی کا بھی یہی مؤوقف ہے کہ لندن فلیٹس اس کے نام ہیں،درخواست گزار کا اصرار ہے کہ بیرون ملک پراپرٹی کی میں مالک ہوں،مجھے والد کے زیر کفالت بھی کہا جا رہا ہے حالانکہ ایسا نہیں،ایسا صرف اس لیے کیا جا رہا ہے کہ میرے والد کو پراپرٹی کے معاملے میں ملوث کیا جا سکے۔ انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ  مریم نواز عام شہری ہے، یہ عوامی اہمیت کا معاملہ کیسے ہے؟

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف کی حد تک معاملہ عوامی اہمیت کا ہے، جسٹس گلزار نے کہا کہ مریم نواز کے خلاف سپریم کورٹ سے کوئی فیصلہ نہیں مانگا گیا،شاہد حامدنے کہا اگر فرض کر لیں کہ بیرون ملک جائیداد مریم نواز کی ہے تو پھر بھی کیا ہے جس پرجسٹس اعجاز افضل نے کہا کہسوال یہ بھی ہے کہ عدالت متنازع حقائق پر فیصلہ دے سکتی ہے،متنازع حقائق پر فیصلہ شواہد ریکارڈ کرنے سےہو سکتا ہے۔ مریم صفدر کے وکیل نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز اپنے والد کے زیر کفالت نہیں ہے،اگر زیر کفالت نہیں ہیں تو لندن فلیٹس مریم نواز کے ہوں بھی تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الزام ہے کہ مریم نواز اپنے والد کی فرنٹ مین ہیں۔شاہد حامدنے کہا کہ یہ تو درخواست گزار نے ثابت کرنا ہے، بار ثبوت شکایت کنندگان پر ہے،جسٹس گلزار احمدنے کہا کہ غیر ملکی میڈیا میں جو آیا ہے وہ عدالتی ریکارڈ پر موجود ہے،  شاہد حامد نے جواب دیا کہ عدالت کے باہر میڈیا پر جو ماحول بنا ہوا ہے وہ حیران کن ہے،عدالت کے باہر سیاسی لڑائی ہو رہی ہے۔جس پر جسٹس کھوسہ نے انہیں ٹوکا اور کہا کہ سیاسی لڑائی کے الفاظ مناسب نہیں، سیاسی اختلاف ہو سکتے ہیں۔جس پر مریم صفدر کے وکیل نے اپنے الفاظ واپس لے لئے۔

سپریم کورٹ میں وقفے کے بعد پاناما کیس سماعت شروع ہوئی تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مریم صفدر نے 7 نومبر کو پہلے جواب میں قطری سرمایہ کاری یا قطری خط کا کہیں زکر نہیں کیا ،قطری خط 15 نومبر کو آیا، مریم صفدر کے حالیہ جواب کا نمبر 420 ہے، یہ صرف نمبر ہے جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے ۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ منروا کمپنی کو اگر 2006 میں ہائر کیا گیا تو عدالت میں دوہزار گیارہ کی دستاویزات کیوں پیش کی گئیں؟

مصنف کے بارے میں