پنجاب کے سرکاری ہسپتال۔۔۔4700مریضوں کیلئے صرف ایک بیڈ

 پنجاب کے سرکاری ہسپتال۔۔۔4700مریضوں کیلئے صرف ایک بیڈ

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی عوام صحت ایسے بنیادی حق کے حصول کی خاطر دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئی۔ایک جانب حکومت نے پنجاب بھر کی عوام کو ادویات کی فراہمی کے لئے صرف 224روپے فی کس سالانہ کی کمزور ترین رقم مختص کر رکھی ہے تو دوسری جانب پنجاب کے ’’سپیشلازڈہسپتالوں‘‘میں لگ بھگ 4ہزار7سوافراد کے لئے صرف ایک بیڈ موجود ہے۔پنجاب بھر میںلگ بھگ 1کروڑ 12لاکھ سے زائد افراد کو ایک ’’ایم آئرآئی مشین‘‘ملی تولگ بھگ 32لاکھ 5ہزارسے زائد افراد کے لئے حکومت کے پاس صرف ایک ’’سٹی سکین مشین‘‘موجودہے۔لگ بھگ59لاکھ52ہزار افراد کے لئے ایک ’’اینجوگرافی مشین‘‘تولگ بھگ 1لاکھ 40ہزار افراد کی خاطرایک ’’وینٹیلیٹر‘‘دستیاب کیا جا سکا ہے۔لگ بھگ4لاکھ80ہزار شہریوں کو ایک ’’ایکسرے مشین‘‘ملی تو2لاکھ23ہزار شہریوں کے نصیب میں صرف ایک’’ڈائیلیسز مشین‘‘آئی۔

’’نیو نیوز ‘‘کی تحقیقات کے مطابق پنجاب کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں روزانہ کی بنیاد پر لگ بھگ 3لاکھ 50ہزار مریض اپنے علاج معالجے کی خاطر اُمید لگائے آتے ہیں ۔مذکورہ تعداد میں سے 80ہزار افراد ’’سپیشلازڈ ہسپتالوں‘‘جبکہ 2لاکھ70ہزار افراد ’’پرائمری ہیلتھ کئیر ہسپتالوں‘‘سے رابطہ کرتے ہیں۔ محکمہ صحت کے ذرائع کا ماننا ہے سہولیات کی کمی کی وجہ سے 70فیصد سے زائد مریض سرکاری ہسپتالوں کا رُخ ہی نہیں کرتے۔دوسری جانب اگر صرف ادویات کے لئے موجود سرکاری بجٹ کا جائزہ لیا جائے کل رقم 28ارب روپے بنتی ہے۔ اعداد و شمار کے موازنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی کس ادویات کا بجٹ لگ بھگ224روپے سالانہ بنتا ہے۔ جوکہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔جبکہ سرکارکا ماننا ہے کہ وہ صرف ادویات کی مد میںفی کس 14ڈالرزسالانہ(1440روپے) اخراجات کررہی ہے،جوکہ حقائق سے متضاد ہے۔’’سپیشلائزڈہیلتھ کیئر‘‘کا ذکر کیا جائے تو حکومت کے پاس صرف 26ہزار6سو بستر موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر 4ہزار7سو افراد کے حصے میں صرف ایک بستر آتا ہے۔
اسی طرح جب ’’نیو نیوز‘‘نے پنجاب بھر کے ہسپتالوں کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ پنجاب میں کل 9’’ایم آر آئی ‘‘مشینیں موجود ہیں،اس لحاظ سے ایک مشین کے حصے میں اوسطً1کروڑ12لاکھ سے زائد افرادآتے ہیں۔جبکہ مجموعی طور پر 39مشینوں کے ساتھ لگ بھگ 32لاکھ 5ہزارسے زائد افراد کے لئے حکومت کے پاس صرف ایک ’’سٹی سکین مشین‘‘موجودہے۔مجموعی طور پر21مشینوں کے ساتھ لگ بھگ59لاکھ52ہزار افراد کے لئے ایک ’’اینجوگرافی مشین‘‘نصب ہے۔890مشینوں کی بدولت لگ بھگ 1لاکھ 40ہزار افراد کی خاطرایک ’’وینٹیلیٹر‘‘دستیاب کیاجاسکاہے۔ 260مشینوں کے ساتھ لگ بھگ4لاکھ80ہزار سے زائد شہریوں کے لئے ایک ’’ایکسرے مشین‘‘مل سکی۔اسی طرح صرف560مشینوں کے ساتھ 2لاکھ23ہزار سے زائد شہریوں کے نصیب میں صرف ایک’’ڈائیلیسز مشین‘‘آئی ہے۔اب معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب کے خادم اعلیٰ سمیت دیگر حکومتی عہدیدار ملک سے باہر علاج کیلئے کیوں جاتے ہیں۔

میاں عمران ارشد نیو ٹی وی اور روزنامہ نئی بات کے سٹاف رپورٹر ہیں   

انکا ای میل آئی ڈی m.imran@neonetwork.pk

 نوٹ: بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں