صحافت کی درس وتدریس اور مواد کا حصول

صحافت کی درس وتدریس اور مواد کا حصول

پاکستان میں صحافت کی درس وتدریس کے حوالے سے لوگوں کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ۔ پہلے خواتین اس شعبے میں بہت کم قدم رکھتی تھی لیکن جوں جوں تعلیم کی افرادیت بڑھ رہی ہے ویسے ہی تعلیم کا تناسب بڑھتا جارہا ہے ۔ خاص طور پر شہروں میں خواتین بھی صحافت کے میدان میں اپنے جوہردکھا رہی ہے۔ کوئی بھی شعبہ ہو خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں۔

پہلے کہاجاتا تھا کہ صحافت میں خواتین کے لئے کچھ مخصوص شعبے ہیں جیسے کہ خواتین میگزین کے لئے کام کرسکتی ہیں یا خواتین ایڈیشن کے لئے آرٹیکل تحریر کرسکتی ہیں۔لیکن اب خواتین صحافت کے ہرشعبے میں اپنے نام کا لوہا منوا رہی ہیں۔ صحافت میں رپوٹنگ کو سب سے مشکل مرحلہ سمجھا جاتا ہے اور اب خواتین نے رپوٹنگ میں ایسی ایسی کوریج دی ہیں کہ بڑے بڑے سینئرصحافی بھی حیران ہیں اور خواتین صحافت کے ہرشعبے میں اعلیٰ عہدے پر فائز اپنا کام خِٰٰوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہیں۔
اب یونیورسٹیوں  کے شعبہ ابلاغیات میں لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں نظرآتی ہیں دنیا کے ہرشعبے میں خواتین آگے بڑھتی جارہی ہیں اور مردوں کا مقابلہ کررہی ہیں لیکن خاص طور پر میڈیا کے شعبے میں اب خواتین کا تناسب زیادہ ہے اور خواتین میڈیا کے ہرشعبے میں جھنڈے گاڑتی ہوئی نظرآرہی ہیں لیکن درس وتدریس کے حوالے سے جومواد ملتا ہے وہ انگریز یا بھارت کے مصنف کا ملتا ہے ابھی بھی بعض یونیورسٹیز میں 1980کی دہائی کی کتابیں نصاب کا حصہ ہیں جس میں ہماری ثقافت کا اور ہمارے پاکستان کے معاشی معاشرتی اور سماجی مسائل کا بالکل ذکرنہیں ہے۔  طلباءوطالبات ان کتابوں کو پڑھتے ہیں جس سے طلباءوطالبات پاکستانی ثقافت، صحافت اور باقی مسائل کے بارے میں بالکل آگاہی حاصل نہیں ہوتی۔

اس حوالے سے سینئراساتذہ کرام نے کام کیا لیکن وہ کئی دہائیاں پہلے کیا گیا تھا ۔سینئرصحافی اور محقیق محمدزابرسعید بدرنے بھی صحافت کی تاریخ  پر نمایاں کام سرانجام دیاانکی کتابیں آج بھی مختلف یونیورسٹیوں کے سلیبس میں شامل  ہیں ۔ تاہم ان کے صاحبزادے زابرسعید بدر نے بھی صحافت، تاریخ، ادب اور کئی عنوانات پر بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں۔ صحافت کےطلبا و طالبات  ان کی کتابوں سے استفادہ  حاصل کررہے ہیں۔

 2009ءمیں زابرسعید بدرکی صحافت پر پہلی کتاب "صحافت سے ابلاغیات" تک تحریر کی جس میں صحافت کی تاریخ سے لے کر انٹرنیٹ کے استعمال تک کی تمام معلومات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں برصغیر کے تمام سینئرایڈیٹرز کے صحافت پر کئے جانے والے کام اور ان کی زندگی کے تجربات کو بیان کیا گیا ہے۔  اس کے علاوہ صحافت کے قوانین کے بارے میں پاکستان میں سب سے پہلا کام زابرسعید بدر کی ہی مرہون منت ہے۔

زابر سعید بدرنے صحافت کے آغاز کے بارے خوبصورت انداز میں لکھا ہے کہ "سب سے پہلا ابلاغ یا سب سے پہلی خبراللہ تعالیٰ نے جن وملائکہ سے اس وقت دی تھی جب ارشاد فرمایا کہ میں ایک انسان تخلیق کرنے والا ہوں اور پھراپنی اس تخلیق کی خوبیوں سے آگاہ کےا ابلاغ کا آغاز۔ ابلاغ اسی دن سے شروع ہوگیا تھا جو تاقیامت جاری وساری رہے گا"۔ صحافت میں بہت سے صحافیوں کت استاد پروفیسر ڈاکٹرمغیث الدین شیخ نے لکھا کہ "زابرسعید کی کتابیں اندھیروں اور گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہیں اور اس میں ابلا غ عامہ کے اساتذہ کی لکھی ہوئی کتابوں کے حوالے اورضرورت کے پیش نظرجامع مواد موجود ہے"۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر شفیق جالندھرینے لکھا کہ "صحافت میں اردوکتابوں کے لحاظ سے زابرسعیدبدرکو یہ کمال حاصل ہے کہ وہ مشکل اور پیچیدہ امور کو بھی سادہ اور سلیس زبان میں بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔" پاکستان کے نامورمحقق اور نقاد ڈاکٹرانورسدیدنے کہا کہ "زابرسعیدبدرکی کتابیں صحافت کے بارے عہد قدیم سے عہد جدید تک معلومات کا خزانہ ہیں اور یہ سب زابرسعید کا انسائیکلوپیڈک قراردیاجاسکتا ہے۔"

مجھے استادمحترم  زابر سعید بدرکے ساتھ کئی نشستوں سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا لیکن مجھے کبھی بھی بوریت کا احساس نہیں ہوا اور زابرسعید کی تصنیف وتالیف بہت ہی عمدہ اور طلباءوطالبات کے روشن مستقبل کے لئے ایک سیڑھی کا کام سرانجام دیتی ہیں۔ جس سے طلباءوطالبات کی درس وتدریس کی ایک الگ اور منفرد راہ ملتی ہے۔ہم زابر سعید بدر کے شکرگزار ہیں اور ان کی مزید ترقی و خوشحالی کے لئے دعاگو ہیں۔