وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحا ق ڈار کی بجٹ تقریر کا مکمل متن

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحا ق ڈار کی بجٹ تقریر کا مکمل متن

اسلام آباد :  وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحا ق ڈار نے جمعہ کو آئندہ مالی سال 2017-18 کےلئے وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ ان کی بجٹ تقریر کا متن درج ذیل ہے: 

جناب اسپیکر!
1۔ میں آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا مسلسل پانچواں بجٹ پیش کر رہا ہوں۔
جناب اسپیکر!
2۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب وزیراعظم اور وزیرخزانہ مسلسل پانچواں بجٹ پیش کر رہے ہیں۔ یہ چیز مضبوط جمہوریت کی عکاسی کرتی ہے جس پر پوری قوم فخر کر سکتی ہے۔ میں بڑی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھ ناچیز کو یہ موقع دیا۔
3۔ اگلے مالی سال کے بجٹ کی تفصیلات بتانے سے پہلے میں مختصر طور پر پچھلے چار سال میں طے کیے گئے فاصلے کا احوال بتانا چاہتا ہوں، اگر میں کہوں کہ جون 2013ءمیں پاکستان اپنی مالی ادائیگیوں پر Defaultکرنے کے قریب تھا تو یہ ایک حقیقت تھی۔ ہمارے Forex Reservesدو ہفتے کی درآمدات کے برابر اور تاریخ کی کم ترین سطح پر تھے۔ بڑی ادائیگیاں واجب الادا تھیں اور کمرشل بینک تو کیا Multilateral Development Banksبھی پاکستان کے ساتھ کام کرنے سے گریزاں تھے۔ اس سال FBRکی ٹیکس وصولیوں میں اضافے کی شرح 3.38فیصد تھی جبکہ اخراجات بہت زیادہ تھے۔ نتیجے میںFiscal Deficitآٹھ فیصد سے تجاوز کر چکا تھا۔ توانائی کا بحران حد سے زیادہ تھا۔ شہروں میں 12سے 14گھنٹے اور دیہات میں 16سے 18گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی۔ نوشتہ دیوار اس بات سے بالکل واضح تھا کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی معیشت کو Macroeconomicاعتبار سے Unstableقرار دیا جا چکا تھا۔
4۔ آج پاکستان تیز تر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس سال ہماری جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح 5.3فیصد ہے جو کہ پچھلے دس سال میں ترقی کی بلند ترین شرح ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر مناسب سطح پر ہیں جو کہ چار ماہ کی درآمدات کے لئے کافی ہیں۔ گزشتہ چار سال کے دوران ٹیکس وصولوں میں 81فیصد اضافہ ہوا ہے جو اوسطاً 20فیصد سالانہ اضافہ ہے۔ 2013ءسے اب تک پرائیویٹ سیکٹر کو قرضے کی فراہمی میں پانچ گنا سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ Fiscal Deficitتقریباً 4.2فیصد ہو گا۔ اس سال مشینری کی درآمد میں 40فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ گیس کی فراہمی بہتر ہوئی ہے اور صنعت کے لئے لوڈشیڈنگ مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے جبکہ تجارتی اور گھریلو صارفین کے لئے لوڈشیڈنگ میں واضح کمی آئی ہے۔ انشاءاللہ آئندہ سال لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے کا سال ہو گا۔
5۔ نوشتہ دیوار آج بھی واضح ہے۔ صرف پیغام تبدیل ہوا ہے ۔ آج House Coopers
Price Waterجیسے معتبر عالمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان 2030ءتک دنیا کی 20بڑی اقتصادی طاقتوں (G-20) میں شامل ہو جائے گا۔ پوری قوم اس متاثر کن تبدیلی کے کریڈٹ کی مستحق ہے اور میں اس Turnaroundپر اللہ تعالیٰ کا بے پناہ مشکور ہوں جس کی مدد کے بغیر 4سال کے قلیل عرصہ میں یہ ناممکن تھا۔
جناب اسپیکر!
6۔ میں اس معزز ایوان، وزیراعظم محمد نواز شریف اور پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ایک طویل عرصے کے بعد اس سال حکومت پاکستان نے پہلی بار صرف قومی ترقی کے لئے قرضے لئے ہیں۔ پہلے ہم نہ صرف ترقیاتی ضروریات بلکہ غیرترقیاتی اخراجات کے لئے بھی قرض لیتے تھے۔ یہ قرضے ہمیں معاشی تنزلی کی طرف لے جا رہے تھے جہاں ہمیں روزمرہ اخراجات پورے کرنے کے لئے ادھار لینا پڑتا تھا اور ان قرضوں پر منافع کی ادائیگی میں بجٹ کا خطیر حصہ خرچ کرنا پڑتا تھا۔ یہ تبدیلی اچھے مالیاتی انتظام، محاصل بڑھانے پر مستقل توجہ دینے اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرنے سے حاصل ہوئی ہے۔ یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں، کسی بھی حکومت یا ادارے کے لئے ترقیاتی مقاصد کے لئے قرض لینے میں کوئی عار نہیں کیونکہ اس کے سماجی اور معاشی فوائد اس پر دئیے جانے والے Mark-Upسے زیادہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اور ملک کے بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری سے تیز تر، پائیدار اور اجتماعی ترقی حاصل ہو گی۔ انشاءاللہ
7۔ میں ایوان کو اس بات سے بھی آگاہ کرنا چاہوں گا کہ مسلم لیگ (ن) کے جنرل الیکشن 2013ءکے منشور کے مطابق پاکستان نے ستمبر 2016ءتک اصلاحاتی پروگرام کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔ اس دوران ملک میں انتہائی اہم اور مشکل Structural Reformsکو عملی جامہ پہنایا گیا۔ اس پروگرام کی تکمیل سے بین الاقوامی برادری کا ہمارے معاشی ایجنڈے پر اعتماد مضبوط ہوا۔ حکومت نے ملک کو خودانحصاری کی راہ پر گامزن کر دیا ہے جس کا اعتراف عالمی برادری بھی کر رہی ہے اور جس کی عکاسی دنیا کی بڑی ریٹنگ Agenciesمثلاً Moody`s, S&P, Fitchکی جانب سے پاکستان کی ریٹنگ بہتر کرنے سے بھی ہوتی ہے۔
پچھلے 4برسوں کے مقابلے میں آج پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
جامع معاشی کارکردگی 2012-13ءبمقابلہ 2016-17ء
جناب اسپیکر!
8۔ اب میں اس معزز ایوان کے سامنے پاکستانی معیشت کی چار سالہ کارکردگی کا جائزہ پیش کرتا ہوں۔
(1) اس سال GDPمیں اضافہ کی شرح 5.28فیصد رہی جو کہ پچھلے دس برسوں کی بلند ترین شرح ہے۔ چار سال پہلے معاشی ترقی کی شرح 3.68فیصد تھی۔ رواں سال عالمی معیشت میں 3.5فیصد کی شرح سے اضافہ کی توقع ہے۔ اس تناسب کا تقابلی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی معاشی کارکردگی دنیا کے اکثر ممالک کی کارکردگی سے بہتر رہی ہے۔ معاشی ترقی کی بلند شرح کے سبب پاکستان میں ہر لحاظ سے بہتری آئی ہے۔ پہلی دفعہ پاکستان کی معیشت کا حجم 300ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔
(2) الحمد للہ ہمارا زرعی شعبہ ( Agriculture Sector)اب بہتری کی راہ پر گامزن ہے۔ حالیہ سال اس کی کارکردگی متاثر کن رہی ہے، گزشتہ سال زرعی پیداوار میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہوا تھا، اس کے مقابلے میں رواں برس ہونے والا 3.46فیصد کا اضافہ حوصلہ افزاءہے۔ تمام بڑی فصلوں بشمول گندم، کپاس، گنا اور مکئی کی پیداوار میں واضح اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جمود کا شکار زرعی شعبے میں یہ بہتری ستمبر 2015ءمیں وزیراعظم کے اعلان کردہ کسان پیکج اور اس ایوان کے منظور کردہ بجٹ 2016-17ءمیں شامل غیر معمولی اقدامات کی بناءپر ہوئی ہے۔
(3) Industrial Sectorمیں 5.02فیصد اضافہ ہوا ہے اور کاروبار میں روزگار کے نئے مواقع میسر آ رہے ہیں۔
(4) Services Sectorمیں 5.98فیصد ترقی ہوئی ہے جس میں Transport and Communication, Retail, Bankingاور Housingوغیرہ کے شعبہ جات شامل ہیں۔
(5) پچھلے چار سالوں میں فی کس آمدنی ( Per Capita Income)، 1334ڈالر سے بڑھ کر 1,629ڈالر ہوئی ہے یعنی 22فیصد کااضافہ ہوا۔
(6) 2008-13کے دوران افراط زر (Inflation) اوسطاً 12فیصد سالانہ رہی جبکہ رواں سال یہ شرح 4.3فیصد متوقع ہے۔
(7) Fiscal Deficit: حکومت نے معیشت کے استحکام کے لئے Fiscal Disciplineپر سختی سے عمل کیا جس کے نتیجے میں خسارہ مالی سال 2012-13ءمیں 8.2فیصد سے کم ہو کر رواں سال میں 4.2فیصد رہ گیا ہے۔ ہم نے یہ کامیابی محصولات کی وصولی میں اضافہ سے کی جس کی بنیاد انتظامی امور میں بہتری ، Broadening of Tax baseاور کئی دہائیوں سے جاری رعایتی SROsکے خاتمے پر تھی۔ اس کے علاوہ حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات میں بھی کمی کی گئی۔
(8) FBRکے محاصل:مالی سال 2012-13میں FBRنے 1,946ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا تھا جبکہ اس سال ٹیکس کا ٹارگٹ 3,521ارب روپے ہے اس طرح گزشتہ چار سالوں میں 81فیصد اضافہ ہوا جو کہ اوسطاً 20فیصد سالانہ ہے۔ Tax to GDPکا تناسب جو کہ مالی سال 2012-13ءمیں 10.1فیصد تھا، رواں سال 13.2فیصد متوقع ہے۔
(9): اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ جون 2013ءکے 9.5فیصد کے مقابلے میں پچھلے 45سال کی کم ترین شرح 5.75فیصد پر ہے۔ اسی طرح ایکسپورٹ ری فنانس کی سہولت (ERF) کا ریٹ 2013ءکے 9.5فیصد کے مقابلے میں جولائی 2016سے 3فیصد کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح Financing Facility Long Termکا ریٹ بھی جو کہ جون 2013ءمیں 11.4فیصد تھا کم کر کے مجموعی صنعت کے لئے 6فیصد اور ٹیکسٹائل شعبے کے لئے 5فیصد کیا جا چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں نجی شعبے کو قرض کی فراہمی میں تیزی آئی ہے۔
(10) پالیسی ریٹ کم ہونے کی وجہ سے مئی 2017ءتک نجی شعبے کے قرضے کا حجم 507ارب روپے ہے جبکہ 2012-13ءمیں یہ قرضے صرف 93ارب روپے تھے اس کے نتیجے میں ملک میں کاروبار کو فروغ ملا ہے۔
(11) چار سال قبل زرعی قرض کا حجم 336روپے تھا جو مالی سال 2016ءکے اختتام پر 600ارب روپے پر پہنچا اور رواں مالی سال کے لئے 700ارب روپے کا ہدف ہے۔
(12) اس سال جولائی سے اپریل کے دوران درآمدات 37.8ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی ہیں جن میں گزشتہ سال کی اس مدت کے مقابلے میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ درآمدات میں یہ غیرمعمولی اضافہ مشینری کی درآمد میں تقریباً 40فیصد سے زائد اضافے، صنعتی خام مال، پٹرولیم مصنوعات کی بین الاقوامی قیمت میں اضافہ اور اس کے علاوہ توانائی اور انفراسٹرکچر سے متعلقCPEC منصوبوں میں ہونے والی سرمایہ کاری کے نتیجہ میں ہوا۔ مستقبل قریب میں یہ سب پاکستانی معیشت کی بہتری کا عندیہ ہے۔
(13) رواں مالی سال کے پہلے دس مہینوں کے دوران برآمدات میں گذشتہ سال کے 7.8 فیصد کے مقابلے میں مجموعی طور پر1.28 فیصد کی معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ بہتری حکومت کی طرف سے جنوری2017ءمیں Exports کو بروقت180 ارب روپے کا جامع پیکج دینے اور ان کی اپنی کاوشوں کے نتیجہ میں ممکن ہوئی ہے۔
(14) :Foreign Exchange Reservesجون2013ءمیں اسٹیٹ بنک کے پاس Foreign Exchange Reserves6.3ارب ڈالرز تھے۔ آج بڑے تجارتی خسارے کے باوجود اسٹیٹ بنک کے پاس 16 ارب ڈالرز سے زیادہ کے Reserves ہیں جو کہ کمرشل بینکوں کے Reserves شامل کرنے کے بعد21 ارب ڈالرز کے قریب ہیں۔
(15) Exchange Rate 30:جون 2013ءکا ڈالر کا انٹر بینک ریٹ99.66 روپے تھا۔ یہ ریٹ چند ماہ میں بڑھ کر111 روپے کے قریب پہنچ گیا تاہم اچھے معاشی انتظام اورForex Reservesکے ذخائرمیں اضافے کے بعد واپس99 وپے پر آگیا۔ لیکن اگست سے دسمبر2014ءمیں سیاسی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے یہ ریٹ دوبارہ104.80 روپے کے قریب چلا گیا اور اس وقت سے ابھی تک یہ ریٹ اسی سطح پرمستحکم ہے۔
(16) گذشتہ چار برسوں کے دوران بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانوں نے بیش بہا ترسیلات زر بھیجی ہیں جو کہ13.9 ارب ڈالر سے بڑھ کر19.9 ارب ڈالرز پر پہنچ گئیں۔ یہ 40فیصد اضافہ حکومت کے Pakistan Remittance Initiative سکیم کی بحالی اورماضی کے بقایا جات کی ادائیگی کے ذریعہ ممکن ہوا۔ موجودہ مالی سال کے پہلے10ماہ میں 15.6 ارب ڈالر کی ترسیلات پاکستان بھیجی گئیں خلیجی ممالک کی مشکل سیاسی و اقتصادی صورتحال کے باوجود رمضان اورعید کی وجہ سے آخری دو ماہ میں ترسیلات زر میں اضافہ متوقع ہے۔ میں بیرون ملک مقیم محنت کرنے والے پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنے عزیزواقارب کو پاکستان میں رقم بھیجنے کےلئے بینکنگ ذرائع سے اپنی رقوم بھیج کر پاکستان کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالا۔
(17) Pakistan Stock Exchange 10:سال سے زیادہ عرصہ سے زیر التواءمسائل کے حل کے بعد تینStock Exchanges کا انضمام جنوری 2016ءمیں مکمل کرلیا گیا تب سے Pakistan Stock Exchange بہتری کی طرف گامزن ہے اورMorgan Stanley Capital Index (MSCI) International کے مطابق Frontier مارکیٹ سے ترقی کرکے یکم جون2017ءکوEmerging مارکیٹ بن جائے گی۔Bloomberg نے 2016ءمیں اسے ایشیا میں بہترین اورپوری دنیا میں پانچویں بہترین مارکیٹ قراردیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ انڈیکس 11مئی 2013ءکے 19,916 پوائنٹس کے مقابلے میں آج52,000 پوائنٹس سے بڑھ چکا ہے۔ اس عرصہ کے دورانMarket Capitalization 51 ارب ڈالر سے بڑھ کر97 ارب ڈالر ہوگئی ہے جو کہ90 فیصد اضافہ ہے۔
(18) نئی کمپنیوں کی Registration : اس سال مارچ تک5,855 نئی کمپنیاں رجسٹر ہوئی ہیں جبکہ 4 سال پہلے پورے مالی سال میں صرف3,960 کمپنیاں رجسٹر کی گئی تھیں۔
(19) معاشی قوانین کا نفاذ :کسی بھی معیشت کو اس کی حقیقی شرح نمو حاصل کرنے کےلئے مناسب قانونی اور ریگولیٹری فضا کا مہیا ہونا لازمی ہے۔ ایک موثر قانونی ڈھانچے کی عدم موجودگی سےgovernance اورservice delivery میں آنے والی رکاوٹوں کا احساس کرتے ہوئے ہم نے اپنے دور حکومت میں24 قوانین بنائے یا تبدیل کئے ہیں جن میں مندرجہ ذیل قوانین شامل ہیں:

Benami Transactions Prohibition Act, ٭
Special EconomicZones Amendment Act, ٭
Deposit Protection Corporation Act, ٭
Corporate Bureau Act, ٭
Corporate Restructuring Companies Act, ٭
National Energy Efficiency and Conservation Act ٭
Anti Money Laundering Act, ٭
Gas Theft Control and Recovery Ordinance ٭
اور
Limited Liability Partnership Act ٭
علاوہ ازیں ایک ترقی پذیر معیشت کےلئے درکار قانونی ڈھانچہ مزید بہتر بنانے کےلئے 10 قوانین پربھی کام کیاجارہاہے۔
(20)کمپنیزلائ (Companies Law)
اس ہفتے پارلیمنٹ نےCompanies Law2017پاس کیا ہے جس پر میں دونوں ایوانوں کاشکریہ ادا کرتا ہوں اورمبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس قانون نے 33 سالہ پرانے Ordinance1984 CompaniesکوReplace کیا ہے۔یہ بڑی اصلاحات میں سے ایک ہے جو تمام کمپنی قوانین کو یکجا کر کے پاکستان میں Corporatizationکو عالمی معیار کے عین مطابق ڈھالنے میں مدد دے گا۔ یہ قانون کاروبار شروع کرنے، کاروباری مراحل میں آسانی پیدا کرنے اور سرمایہ کاری محفوظ بنانے میں مددگار ہو گا۔ یہ چھوٹے حصہ داروں اور قرض مہیا کرنے والوں کے معاملات کے تحفظ کی ضمانت مہیا کرے گا۔ چھوٹی کمپنیوں کی Regulatory Complianceمیں آسانی پیدا کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ زراعت کے فروغ کی نئی کمپنیوں کے اندراج میں آسانی ہو گی۔ نئے قانوون کے مطابق خواتین کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے خواتین کوListed Companiesکے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں نمائندگی دی جائے گی۔
21۔ Ease of Doing Business
ملک میں کمپنیوں کے لئے کاروباری آسانیاں پیدا کرنے کے لئے اصلاحات کی جا رہی ہیں جس کے نتیجے میں عالمی بینک کی کاروباری آسانی کی درجہ بندی میں پاکستان کی Rankingمیں چار درجے بہتری آئی ہے۔ ورلڈ بینک کی 2016ءمیں شائع ہونے والی رپورٹ جو کہ 2015ءکی کارکردگی پر مبنی ہے۔ میں 148 Business Index سے بہتر ہو کر 144پر آگیا ہے۔ پوری دنیا میں نمایاں اصلاحات کی بدولت اکتوبر2017ءمیں کاروباری آسانی کی شائع ہونے والی رپورٹ میں پاکستان کی درجہ بندی میں مزید بہتری متوقع ہے۔
22۔ Documentation of Economyکی حوصلہ افزائی کے لئے پہلی بار 40,000روپے مالیت کے رجسٹرڈ بانڈ کا اجراءکیا گیا ہے۔ مالی سال 2017-18 ء میں مختلف مالیت کے دیگر رجسٹرڈ بانڈ بھی متعارف کرائے جائیں گے۔
جناب اسپیکر!
9۔ یہ کامیابیاں گزشتہ چار سالوں کے دوران حکومت کے بروقت لیکن مشکل فیصلوں کا نتیجہ ہیں۔ ہم اصلاحات کا سفر جاری رکھنے کے لئے پرعزم ہیں۔ اب میں رواں سال کے دوران حکومت کی طرف سے کی گئی کچھ اصلاحات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
(a) حال ہی میں ہم نے Open Government Partnershipکے Letter of Intentپر دستخط کیے ہیں۔ 70,OGPسے زائد ممالک (بشمول ترقی یافتہ ممالک) کی عالمی شراکت داری کا معاہدہ ہے۔ کوئی بھی ملک جو اس کی رکنیت کا ارادہ رکھتا ہو ایک خاص معیار پر پورا اترنے کے بعد On Invitationرکنیت حاصل کر سکتا ہے اور ہمیں اس معیار کی 16میں سے 15شرائط پر پورا اترنے پر 7دسمبر 2016ءکو OGPمیں شمولیت کے لئے مدعو کیا گیا جو کہ ہماری حکومت کی شفافیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
(b) Multilateral of OECDکنونشن: پچھلی بجٹ تقریب کے دوران میں نے کہا تھا کہ ہم OECDکےMultilateral Convention on Mutual Administrative Assistance in Tax Mattersپر دستخط کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ یہ اقدام ٹیکس چوری کے خلاف ہمارے عزم پر مبنی تھا۔ جنوری 2014ءمیں وفاقی کابینہ سے اس Conventionمیں شمولیت کی منظوری کے بعد ہم نے اس سفر کا آغاز کیا۔ اس کنونشن کی Coordinating Bodyنے پاکستانی قوانین کا جائزہ لیا۔ ان کی سفارشات کی روشنی میں ہم نے Finance Bills 2015اور 2016ءکے ذریعے اس پارلیمنٹ نے انکم ٹیکس قوانین میں تبدیلیاں کیں جس کے بعد پاکستان کو جولائی 2016ءمیں اسConventionمیں شامل ہونے کی دعوت موصولی ہوئی اور 14ستمبر 2016ءکو پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے میں نے اس کنونشن میں پاکستان کی شمولیت کی دستاویز پر دستخط کیے جس کے نتیجے میں آنے والے سالوں میں ہم ٹیکس کے معاملات میں بین الاقوامی سطح پر کافی زیادہ تفصیلات حاصل کرنے کے قابل ہوں گے۔ اس سے ہماری ٹیکس Governanceمیں بہتری آئے گی اور ٹیکس چوری کا موثر سدباب ہو سکے گا۔
(c) Avoidance of Double Taxation Agreement: ہم نے سوئٹزر لینڈ کے ساتھ Double Taxationسے بچاﺅ کا نظرثانی شدہ معاہدہ بھی کیا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے ساتھ پچھلا معاہدہ 2005ءمیں کیا گیا تھا جس پر 2008ءمیں عملدرآمد شرروع ہوا۔ تاہم یہ معاہدہ تبادلہ معلومات کے عالمی معیار کے مطابق نہ تھا لہٰذا اگست 2013ءمیں حکومت نے اس معاہدے پر نظرثانی کے بعد معلومات کے تبادلہ کے آرٹیکل میں مطلوبہ تبدیلیاں تجویز کیں۔ پاکستان اور سوئٹزر لینڈ کے باہمی مذاکرات کے بعد یہ معاہدہ 21مارچ 2017ءکو طے پا گیا ہے۔ یہ ترمیم شدہ معاہدہ Ratificationکے مرحلے میں ہے جس کے بعد یہ قابل عمل ہو جائے گا۔ اس معاہدے کے تحت ٹیکس مقاصد کے لئے مالی کھاتوں اور بنکنگ کی معلومات دریافت کرنے پر میسر ہوں گی۔ میں یہاں اس بات کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا کہ معاہدے کی شرائط کے طے ہونے میں توقع سے زیادہ تاخیر اس وجہ سے ہوئی کہ سوئس حکومت بدلے میں غیرمعمولی رعایتوں کی خواہشمند تھی۔ الحمد للہ ہم بغیر کوئی رعایت دئیے معاہدے میں ان تبدیلیوں کو شامل کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
10۔ ان اقدامات کی بدولت نہ صرف پوری دنیا میں پاکستان کی ساکھ میں اضافہ ہووا بلکہ اقوام عالم کو پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان ہر سطح پر Good Governance, Transparencyاور احتساب میں یقین رکھتا ہے۔
جناب اسپیکر!
11۔ بنیادی معاشی کارکردگی کے جن اعدادوشمار کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے ان سے یہ بات واضح ہو جاتا ہے کہ پچھلے چار سال میں Macroeconomic Stabilityحاصل کرنے کے بعد ہماری حکومت کا Focusوزیراعظم نواز شریف کی Visionکے مطابق Inclusive and Sustainable Growth Higherہے۔
جناب اسپیکر!
12۔ پچھلے چار سال کے دوران کی جانے والی Structural Reformsمیں سے میں نے چند کا ذکر کیا ہے۔ اگلے مالی سال میں اب تک کے جو Economic Gainsہیں ان کو consolidateکرنا اور ان پر مزید Buildکرنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ میں اب اس سلسلہ میں اگلے سال کے چند اہم اہداف کا ذکر کروں گا۔

13۔ مالی سال 2017-18ءکے معاشی اہداف
a): GDPکی شرح میں 6فیصد اضافہ
b): Investment to GDP Ratio، 17فیصد
c): 1,001ارب روپے کے وفاقی ترقیاتی اخراجات
d): 6فیصد سے کم افراط زر (Inflation)
e): بجٹ خسارہ GDPکا 4.1فیصد۔
f): Tax to GDP، 13.7فیصد
g): زرمبادلہ کے ذخائر چار ماہ کی درآمدات کے برابر
h): Net public Debt to GDPکو 60فیصد تک رکھنا۔
i): Social Safetyکے اقدامات کو جاری رکھنا۔
اہداف کے حصول کے لئے کئے جانے والے اقدامات
بجٹ حکمت عملی کے اہم خدوخال
جناب اسپیکر!
14۔ جن اہداف کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے ان کے حصول کے لئے ہم نے ایک Strategy Budgetتشکیل دی ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
(1) FBRکے محاصل میں 14فیصد جب کہ وفاقی اخراجات میں 11فیصد تک اضافہ۔
(2) وفاقی حکومت کی غیرمحصولاتی وصولیاں7فیصد بڑھانا۔
(3) Current Expenditureکو قابو میں رکھتے ہوئے ہم ترقیاتی بجٹ میں مزید اضافہ کرنے کے قابل ہوں گے۔ اگلے مالی سال کے لئے وفاقی ترقیاتی پروگرام 1.001ارب روپے تجویز کیا گیا ہے۔ یہ رقم موجودہ مالی سال کے نظر ثانی شدہ715ارب روپے کے تخمینے سے 40فیصد زیادہ ہے اور اگر اس میں صوبائی تخمینہ شامل کریں تو 2017-18کا ترقیاتی بجٹ 2,100ارب روپے سے تجاوز کرے گا۔
(4) اس کے ساتھ ساتھ Current Expenditureمیں اضافہ افراط زر کی شرح سے کم رکھا جائے گا۔
(5) زراعت، مالی شعبے، برآمدات، ٹیکسٹائل، سماجی شعبے اور روزگار کیلئے نئے اقدامات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد معاشی سرگرمیوں میں مزید اضافہ کرنا، روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا اور عوام کی آمدن میں بہتری لانا ہے۔ ان اقدامات کی تفصیل میں تھوڑی دیر میں پیش کروں گا۔
(6) زراعت، SME، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ جات کو مزید فروغ دینے کیلئے ٹیکس مراعات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔
(7) وزیراعظم نواز شریف کی قیادت اور کیبنٹ کمیٹی برائے توانائی کے ذریعے ان کی ذاتی نگرانی میں 2018ءکے موسم گرما میں موجودہ 5 سالہ مدت کے اختتام تک تقریباً 10,000 میگا واٹ اضافی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی۔ انشاءاللہ اس سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ممکن ہوگا۔
(8) ائر پورٹ، ہسپتال اور پانی صاف کرنے کے پلانٹ سمیت گوادر کی ترقی کیلئے سرمایہ کاری کی جائے گی۔
(9) تقریباً 55 لاکھ ایسے خاندان جن کے پاس ذریعہ معاش نہیں ہے ان کیلئے سالانہ 19.338 روپے فی خاندان بذریعہ خاتون خانہ مالی معاونت جاری رکھی جائے گی۔ اس مقصد کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے 121 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جو کہ 2013ءکے 40 ارب روپے کے مقابلے میں 300 فیصد ہے۔ 2013ءمیں مستفید ہونے والے خاندانوں کی تعداد 37 لاکھ تھی جو کہ اب 55 لاکھ ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ پرائمری سکولوں کے 13 لاکھ بچوں کو مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔
(10) حکومت 300 یونٹ ماہانہ بجلی استعمال کرنے والے کم آمدن صارفین کے بجلی کے بلوں کی ادائیگی سبسڈی کی صورت میں جاری رکھے گی۔ بلوچستان کے کسانوں کیلئے زرعی ٹیوب ویلوں کے بجلی کے استعمال پر وفاقی حکومت سبسڈی جاری رکھے گی جبکہ پورے ملک میں زرعی ٹیوب ویل کے لئے 5.35 روپے فی یونٹ OFF Peak ریٹ آئندہ مالی سال میں بھی جاری رہے گا۔ اس مقصد کیلئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 118 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
(11) وزیراعظم کی مندرجہ ذیل یوتھ سکیمز جاری رہیں گی جن کیلئے اس مالی سال میں 20 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔
بزنس لون سکیم
انٹرسٹ فری لون سکیم
ٹریننگ سکیم
سکل ڈویلپمنٹ پروگرام
Fee Re-imbursement
لیپ ٹاپ پروگرام

خصوصی اقدامات 2017-18

جناب سپیکر!
15۔ وزیراعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں ہم ملک کے عوام کی خدمت کیلئے پرعزم ہیں۔ یہ قوم ایک اچھے اور روشن مستقبل کی مستحق ہے۔ اس سلسلے میں اس بجٹ میں اب میں خصوصی تجاویز پیش کر رہا ہوں۔
فلاحی سکیمیں
16۔ غربت سے باہر آنے کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کاروبار شروع کرنے کیلئے خصوصی گرانٹ: Food-Energy Intake Methodology کے تحت 2002ءمیں غربت کا سروے کیا گیا تھا جس کے مطابق پاکستان کی 34.7 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی جو کہ کم ہو کر 2014ءمیں 9.3 فیصد ہو گئی۔ تاہم پاکستان نے ورلڈ بنک کی Cost of Basic Needs (CBN) کے فارمولے پر بھی غربت ناپنے کے نئے طریقہ کار کو اپنایا ہے۔ اس طریقہ کار کے مطابق 2002ءمیں غربت کی شرح 64 فیصد سے زیادہ تھی جو کہ 2014ءمیں کم ہو کر 29.5 فیصد رہ گئی۔ جہاں حکومت معاشرے کے کم آمدن طبقات کو معاشرتی تحفظ فراہم کر رہی ہے وہیں بے نظیر سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والوں کے نئے ہنر سیکھنے اور اپنا کاروبار شروع کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کر رہی ہے تاکہ وہ اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو سکیں۔ اس سلسلے میں حکومت ایک نئی سکیم متعارف کروا رہی ہے۔ آئندہ سال بی آئی ایس پی سے مستفید ہونے والے ایسے خاندانوں کو تربیت اور 50 ہزارروپے کی مالی معاونت فراہم کی جائے گی جو اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح وہ اس پروگرام سے Graduate کر جائیں گے۔ ابتدائی طور پر 250,000 خاندانوں کو یہ گرانٹ دیئے جانے کی تجویز ہے۔

دور دراز علاقوں کو بجلی کی فراہمی
17۔ بجلی کے ترسیلی نظام سے دوری پر بسنے والے چھوٹے شہروں کے مکینوں کوبجلی کی فراہمی کیلئے حکومت ورلڈ بنک کے تعاون سے شمسی توانائی سے چلنے والے Off-Grid نظام متعارف کروائے گی۔ اس اقدام میں بلوچستان پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔

زرعی شعبہ (Agriculture Sector)
18۔ زراعت ہمارے ملک کے لوگوں اور معیشت کیلئے انتہائی اہم ہے۔ دیہی معیشت میں زراعت کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے 2015ءمیں 341 ارب ر وپے پر منبی ایک جامع کسان پیکج کا اعلان کیا جس کے تحت چاول اور کپاس پیدا کرنے والے کسانوں کیلئے بلاواسطہ امداد، زرعی مشینری کی درآمد پر ٹیکس میں 45 فیصد سے 9 فیصد تک کمی، Cool Chain Machinery پر سیلز ٹیکس میں 17 فیصد سے 7 فیصد تک کمی، زرعی اجناس کے تاجروں کیلئے 3 سال تک ٹیکس میں چھوٹ، شمسی ٹیوب ویل استعمال کرنے والے کسانوں کیلئے بلاسود قرضوں کی فراہمی، جراثیم کش ادویات اوربیج پر سیلز ٹیکس میں کمی، زرعی قرضوں پر سود میں کمی، فصلوں کا کم لاگت بیمہ اور زرعی قرضوں کے حجم میں اضافے جیسے اقدامات شامل تھے۔
19۔ زرعی شعبے میں مزید بہتری کیلئے حکومت نے2016-17 کے بجٹ کے ذریعے کئی نئے Supportive اقدامات لئے جن میں Crop Loan Insurance Scheme، لائیو سٹاک انشورنس سکیم، ڈیری مصنوعات، لائیو سٹاک اور پولٹری پر کسٹم ڈیوٹی میں رعایت، جراثیم کش ادویات پر سیلز ٹیکس کا خاتمہ، Cool Chain Machinery پر کسٹم ڈیوٹی کا خاتمہ اور کھاد کی قیمت میں کمی قابل ذکر ہیں۔ نتیجتاً یوریا کھاد 1800 روپے فی بوری سے کم ہو کر 1400 روپے اور ڈی اے پی 4200 سے کم ہو کر 2500 روپے ہو گئی۔ کھاد کی قیمتوں میں یہ کمی ٹیکسوں میں چھوٹ اور کیش سبسڈی کے ذریعے ممکن ہوئی۔ ان اقدامات کے بہتر نتائج کا اندازہ کھاد کی کھپت اور زرعی پیداوار میں اضافے سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے پچھلے سال جمود کا شکار رہنے والے زرعی شعبے میں موجودہ سال 2016-17 کے دوران 3.46 فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی۔ یہ تمام سکیمیں اور اقدامات آئندہ مالی سال 2017-18 میں بھی جاری رہیں گے۔
20۔ آئندہ بجٹ میں کچھ نئے اقدامات بھی تجویز کئے جا رہے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
(a۔ زرعی قرضوں کیلئے مارک اپ میں کمی
اس وقت قرضوں پر مارک اپ 14 فیصد سے 15 فیصد تک ہے مجھے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ یکم جولائی 2017ءسے زرعی ترقیاتی بنک اور نیشنل بنک آف پاکستان نئی سکیم کے تحت 12.5 ایکڑ اراضی رکھنے والے کسانوں کو 9.9 فیصد سالانہ کی کم شرح پر زرعی قرضے دیں گے۔ سکیم کی دیگر خصوصیات کچھ یوں ہیں۔
(i) 50,000 روپے فی کسان قرضہ فراہم کیا جائے گا۔
(ii) 20 لاکھ قرضے زرعی ترقیاتی بنک، نیشنل بنک اور دیگر بنک مہیا کریں گے۔
(iii) سٹیٹ بنک آف پاکستان اس نئی سکیم پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گا۔

(b) زرعی قرضوں کے ہدف میں اضافہ
پیداواری لاگت کے استعمال میں چھوٹے کسانوں کو زرعی قرضوں کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ کسانوںکی سہولت کیلئے مالی سال 2017-18 میں زرعی قرضوں کا حجم پچھلے سال کے 700 ارب روپے سے بڑھا کر 1,001 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ جو کہ قرضوں کے حجم میں 43 فیصد اضافہ ہے۔ میں معزز اراکین پارلیمان کی اس بات پر توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ زرعی قرضوں کا حجم وفاقی ترقیاتی بجٹ 2017-18 جو کہ 1001 بلین روپے ہے، یہ اس کے برابر ہے۔
(c) کھاد کی قیمتوں میں استحکام
(i) کسانوں کی مزید آسانی کیلئے حکومت نے NFML کے پاس دستیاب درآمد شدہ یوریا کو 1000 روپے فی بوری کی رعایتی قیمت پر فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
(ii) ڈی اے پی پر دی جانے والی سبسڈی کی فراہمی میں آسانی کی خاطر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ڈی اے پی پر فکسڈ سیلز ٹیکس لاگو کیا جائے گا۔ جس کے نتیجے میں 400 GST روپے سے کم کر کے 100 روپیہ فی بوری کیا جا رہا ہے۔ اس مد میں کل رعایت کا تخمینہ 13.8 ارب روپے بنتا ہے۔
(iii) مالی سال 2017-18 میں ٹیکس میں کمی اور سبسڈی کے ذریعے یوریا کی زیادہ سے زیادہ فی بوری قیمت 1400 روپے پر برقرار رکھی جائے گی۔ اس مد میں کل رعایت کا تخمینہ 11.6 ارب روپے بنتا ہے۔
(iv) ٹیکسوں میں ردوبدل کے ذریعے NP، NPK، SSP اور CAN کی قیمتیں بھی اپنی موجودہ سطح پر برقرار رکھی جائیں گی۔
(d) قرضوں کے حصول کیلئے ملکیتی زمین کے ریکارڈ کا استعمال
کسانوں کیلئے قرضوں کے حصول میں آسانی پیدا کرنے کیلئے سٹیٹ بنک ایسے اقدامات کر رہا ہے جن کے ذریعے بینکنگ سسٹم کو لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم سے ہم آہنگ کیا جائے گا تاکہ جائیداد گروی رکھنے کی سہولیات مہیا کی جا سکیں۔ خود کارریکارڈز کے ذریعے کسانوں کو بنکوں سے قرض لینے میں سہولت ہوگی۔
(e) Plant Breeders Rights Registry کا قیام زیر عمل ہے جس سے کسانوں کو اعلی معیار کا نیا بیج دستیاب ہوگا۔ اس کا مقصد ملک میں فصلوں کی پیداوار بڑھانا ہے۔
(f) زرعی ٹیوب ویلوں کے استعمال کیلئے سستی بجلی
حکومت Off Peak Hours میںزرعی ٹیوب ویلوں کو 5.35 روپے فی یونٹ کی قیمت پر سستی بجلی کی فراہمی جاری رکھے گی۔ اس سہولت پر مالی سال 2017-18 میں 27 ارب روپے خرچ ہوں گے۔
(g) Production Index Unit کی قدر 4,000 سے بڑھا کر 5,000 روپے کی جا رہی ہے ۔ اس سے کسانوں کو بنکوں سے زیادہ سے زیادہ قرض لینے میں مدد ملے گی۔
(h) زرعی شعبے کے ٹیکسوں پر امدادی اقدامات
(i) Combined Harvester
ملک میں Combined Harvester کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ تاہم اس وقت 20 سے 30 سال پرانے Harvester درآمد کئے جا رہے ہیں جو کہ انتہائی خستہ حال ہیں جس کی وجہ سے کٹائی میں 10 فیصد تک نقصان ہو جاتا ہے۔اس نقصان کو کم کرنے کیلئے نئی زرعی مشینری کی درآمد کی حوصلہ افزائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں Combined Harvester کی نئی اور پانچ سال تک استعمال شدہ مشینری پر کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔
(ii) درآمد شدہ سورج مکھی اور کینولہ کے Hybird بیج پر جی ایس ٹی کو ختم کیا جا رہا ہے۔
(iii) پولٹری کیلئے درآمد کی جانے والی مشینری پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17 فیصد سے کم کر کے 7 فیصد کیا جا رہا ہے۔
(iv) 3 سے 36 ہارس پاور زرعی ڈیزل انجن برائے ٹیوب ویلز جن پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد ہے اس سیلز ٹیکس کوختم کیا جا رہا ہے۔
برآمدات اورٹیکسٹائل سیکٹر

جناب سپیکر!

21۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ پاکستانی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور روزگار، خام مال کی کھپت، برآمدات اور مجموعی قومی پیداوار میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے سال 2013ءسے اس شعبے کیلئے خصوصی پیکجز فراہم کئے ہیں۔ یہاں میں ان میں سے چند اقدامات کی یاددہانی کرانا چاہوں گا۔
(1) Long Term Financing Facility پر شرح سود کو 11.4 فیصد سے 5 فیصد تک کم کیا گیا ہے۔
(2) ٹیکسٹائل مشینری کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دی گئی ہے۔
(3) شعبہ ٹیکسٹائل کیلئے بلاتعطل بجلی اور گیس کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔
(4) ٹیکسٹائل سیکٹر کیلئے Technology Upgradation Fund سکیم 2016-19 متعارف کروائی گئی ہے۔
(5) جنوری 2017ءمیں PM's Package Of Incentives For Exporters کا اعلان کیا گیا جس میں ٹیکسٹائل سیکٹر کو مرکزی حیثیت دی گئی۔
(6) حکومت نے گزشتہ سال پانچ بڑے Export Oriented Sectors بشمول ٹیکسٹائل، چمڑہ، کھیلوں کا سامان، آلات جراحی اور قالین بافی کو Zero Rated Sales Tax Regime میں شامل کیا تھا۔ یہ سہولت آئندہ سال بھی جاری رہے گی۔
(7) اسی طرح ٹیکسٹائل مشینری کی ڈیوٹی فری درآمد بگی جاری رکھی جائے گی۔
22۔ مالی سال 2016-17 کے دوران متعارف کرائے گئے اقدامات آئندہ سال بھی جاری رکھے جائیں گے۔ اپنی سابقہ روایت کو قائم رکھتے ہوئے شعبہ ٹیکسٹائل کے فروغ کے لیے بجٹ 2016-17 میں مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں:
(1) تمام Stakeholders سے مشاورت کے بعد کپاس کی قیمت میں استحکام کے لیے Cotton Hedge Trading کا آغاز کیا جائے گا۔
(2) سرکاری اور پرائیویٹ Stakeholders سے مشاورت کے بعد حکومت ٹیکسٹائل کے لیے Brand Development Fund کا آغاز کرے گی۔
(3) ایک ہزار سلائی مراکز کے قیام کی منظوری کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ اس اسکیم پر مالی سال 2017-18 میں عملدرآمد شروع کردیا جائے گا اور یہ اسکیم 3 سالوں میں مکمل ہوگی۔
(4) Textile Ministry پہلی مرتبہ ٹیکسٹائل کے شعبہ کے لیے Business to Business اور Business to Consumer کے لیے آن لائن ٹیکسٹائل Trade Portal کا آغاز کرے گی۔ اس عمل سے پاکستان کی ٹیکسٹائل Value Chain عالمی Marketing Practices سے ہم آہنگ ہوجائے گی۔
23۔ عالمی تجارت میں مندی اور اجناس کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے پاکستان کو برآمدات میں مشکلات پیش آئی ہیں۔ برآمدات میں اضافے کے لیے حکومت نے کئی اقدامات کئے ہیں جو اگلے سال بھی جاری رہیں ھے مثلاً:
(1) Expert Refinance Facility پر Mark-up میں کمی کی گئی ہے جوکہ جون 2013 کے 9.5 فیصد کے مقابلے میں کم ہوکر جولائی 2016 ء میں 3 فیصد رہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ Longterm Financing Facility پر Mark-up جون 2013ءکے 11.4 فیصد کے مقابلے میں 2015ءمیں 5 سے 6 فیصد رہ گئی ہے۔ ان اقدامات کی بدولت Exporters کے لیے پیداواری لاگت میں کمی واقع ہوئی ہے۔
24۔ اس کے علاوہ نئے اقدامات مندرجہ ذیل ہیں:
(1) خام کھالوں پر کسٹم ڈیوٹی کم کرکے صفر فیصد کی جا رہی ہے۔
(2) اعلی درجے کی چمڑے کی مصنوعات بنانے کے لیے استعمال ہونے والی Stamping Foil پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔
(3) منڈیوں سے دوری کے باعث چاول برآمد کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ چاول کی برآمد میں سہولت کے لیے پاکستان سے باہر چاولوں کی Warehousing کی اجازت دینے کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ وزارت تجارت‘ سٹیٹ بنک اور Rice Export Association مل کر اس اسکیم کی تفصیلات تیار کریں گے۔

ہا¶سنگ کا شعبہ
25۔ Risk Sharing Guarantee Scheme: ملک میں اس وقت 10 لاکھ سے زیادہ مکانات کی کمی ہے۔ ہر سال مکانوں کی طلب میں مزید 3 لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ طویل مدتی قرضوں کی دستیابی اس سلسلے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ بنک لمبی مدت کے قرضے دینے سے گھبراتے ہیں۔ گھر بنانے میں حائل اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے Risk Sharing Guarantee Scheme کا آغاز کیا جائے گا۔ اس سکیم کے تحت گھر بنانے کے لیے 10 لاکھ روپے تک کی فنانسنگ پر حکومت بینکوں اور DFIs کو 40 فیصد تک کی Credit Guarantee دے گی۔ اس مقصد کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس سہولت کو Microfinance Banks کے ذریعے مہیا کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
Infrastructure Finance
26۔ حکومت نے انفرااسٹرکچر کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مستقل بنیادوں پر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔ سرکاری شعبہ میں انفراسٹرکچر کی مالی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت مختلف قواعد اور پالیسی تبدیلیوں کے ذریعے نجی شعبے کی انفرااسٹرکچر کے لیے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی بھی کر رہی ہے۔ ان اقدامات میں Public Private partnership Framework‘ انفرااسٹرکچر فنانس کے لیے نئی Regulations اور نئے اداروں کا قیام شامل ہیں جن کی تفصل درج ذیل ہے:
(a) Pakistan Development Fund (PDF) کو بہت جلد فعال کردیا جائے گا۔ یہ فنڈ انفراسٹرکچر کے Financially Viable سرکاری اور Public Private Partnership منصوبہ جات کے لیے طویل مدتی قرضے فراہم کرے گا۔ بین الاقوامی Development Partners نے بھی اس فنڈ کے ذریعے معاونت میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
(b) Pakistan Infrastructure Bank نجی شعبہ کے قابل عمل منصوبوں کو انفرااسٹرکچر کی مد میں قرض فراہم کرنے کے لیے پاکستان انفرااسٹرکچر بنک بھی قائم کیا جائے گا۔ اس Bank میں 20 فیصد حصہ IFC کا ہوگا جبکہ حکومت پاکستان ترقیاتی فنڈ کے ذریعے 20 فیصد کی شراکت کرے گی۔ بقایا حصص نجی اداروں کے ہوں گے۔ یہ بنک Project Financing کے جدید طریقہ کار کو متعارف کرانے میں مددگار ثابت ہوگا جیساکہ Domestic Infrastructure Bond Market کا قیام اور Contingent Financing Products کی تشکیل جس میں Credit default Swaps, Credit Guarantee, Foreign currency liquidty facility اور Refinancing options شامل ہیں۔
(c) Public Private Partnership
PPP Authority Act پارلیمان سے منظوری کے بعد نافذ کردیا گیا ہے۔ یہ ایکٹ ملک میں Public Private Partnership کی فنانسنگ کے لیے ریگولیٹری فریم ورک مہیا کرتا ہے۔ اس سے حکومت نجی شعبہ کی شراکت کے ساتھ بڑے منصوبوں کی تکمیل کروا سکے گی۔

مالیاتی شعبہ
27۔ حالیہ سالوں میں ہمارے Financial سیکٹر نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ Financial Sector میں مزید بہتری کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
(a) Finacial Inclusion
زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مالی سہولیات کی دستیابی کے لیے حکومت National Financial Inclusion Strategy پر عمل کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں آئندہ سال مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کیے جا رہے ہیں۔
(i) Microfiance Institutions کے ذریعے کم آمدنی والے طبقوں کو قرض کی فراہمی کے لیے اسٹیٹ بنک میں 8 ارب روپے سے فنڈ قائم کیا جائے گا۔
(ii) موبائل بنکنگe-gateway systems کے ذریعے ادائیگیوں کو آسان بنانے کے لیے حکومت نے 2 ارب روپے کی لاگت سے اسٹیٹ بنک میں جدید e-gateway systems قائم کرنے کافیصلہ کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت متعلقہ اداروں کو فنی تربیت بھی فراہم کی جائے گی۔
(iii) Branchless Banking سے رقوم نکلوانے پر Withholding ٹیکس پر چھوٹ دی جائے گی۔
(iv) Pakistan Microfinance Investment Company:2016ءمیں حکومت نے KFW اور DFID کے ساتھ مل کر Pakistan Microfinance Investment Company کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد مائیکرو فنانس اداروں کو اضافی سرمایہ فراہم کرنا ہے۔ امید ہے کہ اس سے چھوٹے قرضوں کی تعداد دوگنی ہوجائے گی۔
(b) Disaster Risk Managment Fund
عوام کو قدرتی آفات سے نمٹنے اور اس حوالے سے تیار رہنے میں مدد دینے کے لیے یہ فنڈ قائم کیا گیا۔ اس سلسلے میں 12.58 ارب روپے سے ایک Endowment Fund قائم کردیا گیا ہے۔
چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (SMEs)
28۔ SMEs کسی بھی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں چھوٹے کاروبار کی ترقی میں کافی رکاوٹیں حائل رہی ہیں۔ اگر کوئی ترقی ہوئی ہے تو وہ غیر رسمی شعبے میں ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل نئے اقدامات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔
(a) SMEs کے لیے قرض کی فراہمی
SMEs کے شعبے میں سب سے بڑا مسئلہ قرض کی دستیابی ہے۔ عام طور پر بنک SMEs کو قرض دینے سے کتراتے ہیں کیونکہ اس میں ہائی رسک ہوتا ہے۔ Banks کو SMEs کے لیے قرض دینے میں سہولت پیدا کرنے کی خاطر حکومت نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان میں 3.5 ارب روپے سے SME کے لیے ایک Risk Mitigation Facility متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے تحت اسلامی اور روایتی طریقے سے قرض دیئے جائیں گے۔
(b) Innovation Challenges Fund
مارکیٹ کی بدلتی ہوئی ضروریات سے مطابقت کے لیے لازمی ہے کہ چھوٹے کاروبار جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کریں۔ Supply Chains اور چھوٹی صنعتوں کی ٹیکنالوجی میں مسلسل جدت اور بہتری ان کے منافع بخش رہنے کے لیے ضروری ہیں۔ ان ضروریات کے پیش نظر حکومت SMEs کے لیے500 ملین روپے Innovation Challenges Fund کے قیام کا اعلان کر رہی ہے۔ اس فنڈ کا انتظام پاکستان کی اہم ٹیکنالوجی یونیورسٹیوں کے تعاون سے پیشہ ورانہ طرز پر کیا جائے گا۔
(c) منقولہ جائیداد کے لیے Secured Transactions Registry
SMEs اور زراعت کے لیے قرض کی فراہمی کی خاطر حکومت نے پارلیمان سے Financial Institutions Secure Transactions Act 2016 منظور کروایا ہے۔ اس قانون کے تحت Electronic Registry قائم کی جائے گی۔ جس کے ذریعے SME اور زراعت کے شعبے میں چھوٹے borrowers اپنی منقولہ جائیداد کے عوض قرض حاصل کر سکیں گے۔ وفاقی حکومت آئندہ مالی سال کے دوران اس رجسٹری کا قیام عمل میں لائے گی۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی
29۔ زرعی اور صنعتی انقلاب کے بعد دنیا اب Informationکے انقلاب سے گزر رہی ہے۔ تقریباً ہر شعبے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے خواہ وہ شعبہ مواصلات‘ بنکنگ‘ تجارت‘ تعلیم‘ تفریح‘ e-commerce‘ حکومت یا انتظامیہ کا ہو۔ جس طرح مشینوں نے انسان کی کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ اور آسانی پیدا کی ہے اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی انسان کی ذہنی قابلیت میں اضافہ کا باعث بھی بن رہی ہے۔ مستقبل میں ممالک کے درمیان صنعتی اور غیر صنعتی کی بجائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بنیاد پر فرق دیکھا جائے گا۔ حکومت پاکستان اس صورت حال سے باخبر ہے اور اس ضمن میں ماضی کے دوران کئی اقدامات کے گئے جوکہ آئندہ بھی جاری رکھے جائیں گے۔ اس شعبہ کے لیے نئے اقدامات مندرجہ ذیل ہیں۔
(a) جنوبی کوریا کے تعاون سے 6 ارب روپے کی لاگت سے اسلام آباد میں IT Software Park قائم کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں مالی انتظامات مکمل کے لیے گئے ہیں اور تعمیراتی کام بہت جلد شروع کردیا جائے گا۔
(b) نئی قائم ہونے والی IT Companies کو پہلے 3 سال انکم ٹیکس میں چھوٹ دی جائے گی۔
(c)اسلام آباد اور دیگر وفاقی علاقہ جات سے IT Services کی برآمد پر سیلز ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا۔
(d) آئی ٹی کمپنیوں/ ہا¶سز کو اس شرط پر پاکستان میں Foreign Exchange Accounts کھولنے کی اجازت دی جائے گی کہ اپنی آمدن کو بذریعہ ترسیلات ان کھاتوں میں جمع کرواسیں گے۔ یہ اکا¶نٹ بیرون ملک کاروباری ادائیگیوں کے لیے استعمال ہوں گے۔
(e) IT Connectivity میں موبائل فونز ایک اہم جزو ہیں۔ عام آدمی کی سہولت کے لیے موبائل کال پر ودہولڈنگ ٹیکس کو 14 فیصد سے کم کرکے 12.5 فیصد اور ایکسائز ڈیوٹی کو 18.5 فیصد سے کم کرکے 17 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ صوبائی حکومتیں بھی اسی شرح سے موبائل کالز پر سیلز ٹیکس میں کمی کریں گی۔
(f) جدید/ سمارٹ فونز کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے کسٹم ڈیوٹی کو 1000 روپے سے کم کرکے 650 روپے کیا جائے گا۔
(g) موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کے سامان کی درآمد پر ڈیوٹی کم کی جا رہی ہے۔
ترقیاتی پروگرام PSDP

جناب اسپیکر
30۔ اس سال کا ترقیاتی پروگرام وزیراعظم کے وژن کے مطابق ہے جوکہ
٭ Higher, Sustainable and Inclusive Growth کا حصول
٭ Human Resource Development
٭ انفرااسٹرکچر کی بہتری
٭ Food Security
٭ Water and Energy Security
پر مشتمل ہے۔ وفاقی حکومت کے ترقیاتی اخراجات اب مالی سال 2012-13ءکے 324ارب روپے کے مقابلے میں 3 گنا بڑھ چکے ہیں۔ وفاقی حکومت کا ترقیاتی پروگرام 1001 ارب روپے تک بڑھانے کی تجویز ہے جوکہ پچھلے مالی سال کے نظرثانی شدہ تخمینہ جات کے 715 ارب روپے کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔ وفاقی اور صوبائی ترقیاتی پروگرام کا مجموعی حم پچھلے سال کے 1539 ارب روپے (715 ارب روپے وفاقی اور 824 ارب روپے صوبائی) سے بڑھا کر 2113 ارب روپے کیا جا رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ حکومتی شعبے نے اپنے ترقیاتی اخراجات میں 37 فیصد اضافہ کیا ہے۔ اس سے معیشت میں لاکھوں لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ترقیاتی اخراجات میں اضافے سے نجی شعبے میں بھی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا۔
31۔ ماضی میں توانائی اور Infrastructure کے شعبوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ ہماری حکومت نے اس روایت کو یکسر بدل دیا ہے۔ آج وفاقی ترقیاتی بجٹ کا بیشتر حصہ انفراسٹرکچر اور توانائی کیلئے مختص کیا جاتا ہے۔ یہ ہماری معاشی پالیسی میں بڑی تبدیلی ہے اور یہ تبدیلی ہمارے مستقبل کی معاشی ترقی کے اہداف کی بنیاد ہے۔ انفرا سٹرکچر کیلئے کل PSDP کا 67 فیصد مختص کیا گیا ہے۔ اولین ترجیح ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبہ کو دی گئی ہے جس کیلئے 411 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس میں قومی شاہراہوں کیلئے 320 ارب روپے، ریلوے کیلئے 43 ارب روپے اور دیگر منصوبوں اور Aviation کی اسکیموں کیلئے 44 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
32۔ 19 سال کے وقفے کے بعد مردم شماری کا عمل جاری ہے۔ لیکن عمر کے لحاظ سے آبادی کے تناسب میں کوئی بڑی تبدیلی متوقع نہیں۔ ہماری آبادی کا بیشتر حصہ 20 سال سے کم عمر نوجوانوں پر ہی مشتمل رہے گا۔ اس لئے ہمارے ترقیاتی پروگرام کی توجہ انسانی اور سماجی سرمائے کی ترقی، تعلیم، صحت، خواتین کو بااختیار بنانے، غربت کے خاتمے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور عدم مساوات ختم کرنے پر مرکوز ہے۔

جناب اسپیکر۔

33۔ اب میں وفاقی حکومت کے ترقیاتی بجٹ کے چند اہم Programmes پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔

توانائی

34۔ توانائی کی کمی تیز تر ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ حکومت لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلئے انتھک کام کر رہی ہے۔ 2018ءتک انشاءاللہ 10000 میگاواٹ اضافی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی۔ اس کے علاوہ 2018ءکے بعد مکمل ہونے والے 15,000میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کا financial close ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں حکومت توانائی کے شعبے کی ترقی کیلئے 401 ارب روپے تجویز کر رہی ہے۔ اس میں واپڈا کی 317 ارب روپے کی سرمایہ کاری شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایک نیا پروگرام energy for all متعارف کروایا جا رہا ہے جس کیلئے ابتدائی طو ر پر 12.5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جن بنیادی منصوبوں میں حکومت سرمایہ کاری کرے گی وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

(1) LNG سے بجلی بنانے کے دو منصوبوں بلوکی اور حویلی بہادر شاہ کیلئے 76.5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ دونوں منصوبوں سے 2,400 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔ دونوں منصوبوں کی مکمل تکمیل 2017-18 میں ہو گی۔
(2) داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کیلئے 54 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں اس منصوبے کے تحت 2,160 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔
(3) دیامیر بھاشا ڈیم (Lot-1) کی تعمیر کیلئے 21 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس ڈیم سے 4,500 میگا واٹ بجلی کی پیداوار متوقع ہے۔
(4) نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کیلئے 19.6 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
اس پروجیکٹ سے 969 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔ اس منصوبے کی تکمیل بھی 2017-18 میں ہو گی۔
(5) تربیلا ہائیڈرو پاور کی چوتھی توسیع کیلئے 16.4 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس سے 1,410 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔
(6) جامشورو میں 1,200 میگا واٹ پیداواری صلاحیت کے حامل کول پاور منصوبے کیلئے 16.2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
(7) اس کے علاوہ کراچی میں 2,200 میگا واٹ پیداواری صلاحیت کے حامل 2 ایٹمی توانائی منصوبوں اور 600 میگا واٹ کے چشمہ سول ایٹمی پاور پلانٹ پر کام جاری رہے گا۔

35۔ بجلی کی پیداوار اور مانگ میں فرق ہمارے چیلنج کا صرف ایک پہلو ہے۔ ماضی میں بجلی کی ترسیل اور تقسیم میں کوئی اہم سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ نتیجتاً اگر ہم بجلی کی پیداوار کو بڑھا بھی لیں تو صارفین تک بجلی پہنچانے کے قابل نہیں ہوں گے۔ اس سال سے ہم صورتحال کی بہتری کیلئے ہنگامی اقدامات کر رہے ہیں۔ مٹیاری لاہور ٹرانسمیشن لائن تعمیر کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ گرڈ سٹیشنوں اور ترسیلی نظام میں بھرپور سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔

پانی

36۔ اگر پانی کے شعبے میں سرمایہ کاری نہ کی گئی تو پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسلئے حکومت ترجیحی بنیادوں پر ڈیم بنانے اور نہروں اور water courses کو تعمیراور بہتر کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔ اوپر بیان کئے گئے بڑے منصوبوں کے علاوہ پانی کے شعبے میں حکومت 38 ارب روپے مختص کر رہی ہے۔ ا?

مصنف کے بارے میں