دنیا کو اب سنبھل جانا چاہئے!

دنیا کو اب سنبھل جانا چاہئے!

 دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال میں آمریکہ کا کردار پچھلی 3 یا 4 دہائیوں سے بہت قلیدی رہا ہے۔کبھی کسی کی حمایت میں کسی کے گھر میں کودے تو کبھی کسی کو بچانے کے بہانے کسی کے گھر میں کودے تو کبھی یہ کہہ کر کودے کہ یہ معاشرے اور دنیا کیلئے محلک ثابت ہوسکتا ہے۔  اس لئے نظر رکھنے کیلئے کودے یا کسی کہ گھر میں کسی کو چھپا کر اسی کو ڈھونڈنے کیلئے کودے۔

ان سارے معاملات میں لفظ "کودے" بہت تواتر سے آیا ہے اور بہت بھلا بھی لگ رہا ہے کیوں کہ ایسا ہی ہے۔

امریکہ نے دنیا کو خوفزدہ کرنے اور اپنی بالادستی قائم کرنے کیلئے جہاں جہاں موقع ملا ظلم اور بربریت کی اعلیٰ مثالیں قائم کردیں۔ کہیں کہیں امریکہ طبعی طور پر اپنے تباہی مچانے والے سامان کے ساتھ پہنچا تو کہیں پہلے سے موجود اپنے حواریوں کے ذرائعہ سے کام لیا۔ ہر صورت میں مقصد ایک ہی تھا کہ اور وہ یہ کہ دنیا میں امریکی پرچم لہرانا۔

دنیا کو محفوظ بنانا ہے تو علاقائی توازن برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔  کسی ملک کو کسی ملک پر اپنی کسی قسم کی پالیسیاں مسلط کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔

یہ اخلاقیات اور سیاسیات دونوں کی روح سے غلط ہے۔ ہم ترقی کے اس دور میں ہیں جہاں دنیا کو "گلوبل ویلیج" کے نام سے پکارا جا رہا ہے۔ آج رابطے اتنے آسان اور سہل ہوگئے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی کونے سے دوسرے کونے میں تصویر کہ ساتھ بات ہوسکتی ہے (وڈیو کالنگ)۔ جب معلومات پوشیدہ نہیں رہتیں تو پھر ایسی معلومات رکھنے کا کیا فائدہ۔ کیا امریکہ کو نہیں پتہ کہ ساری دنیا کو 11/9 کی اصلیت پتہ چل چکی ہے، عراق کو تباہ و برباد کرنے کے مقاصد سامنے آچکے، شام ہونے والے فسادات نے دنیا کو مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے، کشمیر اور فلسطین کا مسلئہ تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے، برما، بنگلادیش میں کیا ہوا اور ہو رہا ہے۔ دنیا ان تمام رازوں سے بہت اچھی طرح شناسا ہوچکی ہے۔ اس شناسائی تک رسائی بھی امریکہ کی ہی مرہونِ منت ہے۔

ہر عروج کو زوال ہے اور اس بات کی تاریخ گواہ ہے۔ تاریخ کے عروج و زوال سے آپ بہت اچھی طرح واقف ہیں اور سب سے آخری عروج کا سورج افغانستان میں روس کی عبرت ناک شکست کے بعد غروب ہوا۔ یہاں بھی امریکہ تھا اور یہیں سے امریکہ کا سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ عروج پر چمکنا شروع ہوا۔ اس عروج کو جن امریکی صدور نے دوام بخشاء ان میں رینالڈ ریگن، جارج بش (سینئر)، بل کلنٹن، جارج ڈبلیو بش اور بارک اوبامہ شامل ہیں۔ دوہزار سترہ 2017 کے پہلے مہینے میں امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدہ کا حلف لیا امریکہ کے صدور کی فہرست میں اپنا نام رقم کروالیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی جہاں دیگر بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں مگر ان کے دوٹوک اندازِ بیان اور بات کرنے کا انداز بھی ایک وجہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "سب سے پہلے امریکہ" دنیا کے تمام ممالک کیلئے بہت اہم ہے۔ دیکھنا یہ ہےکہ امریکہ کے پالیسی سازوں کو کس قسم کے چلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گوکہ انکا مقصد امریکہ کو جھکانا نہیں بلکہ غیرز ضروری دخل اندازی سے گریز کرنا ہے۔ نئے صدر صاحب چاہتے ہیں کہ وہ خالص امریکیوں کیلئے کچھ خاص کر کے دیکھائیں جو شائد ابتک کوئی دوسرا امریکی صدر نہیں کر سکا (بظاہر ایسا لگتا ہے)۔

دنیا کو اب سنبھل جانا چاہئے اور اتنا طاقتور ملک کسی کو نہیں بننے دینا چاہئے کہ آپکے ملک کی سرحدیں آپکی نا رہیں۔ اب ان ممالک کو جو امریکی دخل اندازی یا  کسی بھی طرح سے ستائے ہوئے ہیں اور اسکے چنگل سے نکلنے کے خواہش مند ہیں تو شائد اس سے بہترین وقت اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

 نوٹ: بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں.

 
 

مصنف کے بارے میں

خالد ذاہد شعر کہنے کا شغف رکھتے ہیں،آرٹیکل اور بلاگ لکھتےہیں، انکا ماننا ہے کہ ان کا قلم ملک میں قیامِ امن اورہم آہنگی کے فروغ میں کردار ادا کرسکتا ہے