کیا پاکستانیوں کو اب ڈنمارک کا ویزہ نہیں ملے گا؟

کیا پاکستانیوں کو اب ڈنمارک کا ویزہ نہیں ملے گا؟

      ڈنمارک سکینڈے نیویا میں واقع ہے جہاں کے لمبے دن اور لمبی راتیں بہت مشہور ہیں، شاعروں اور لکھنے والوں کے لئے آئیڈیل جگہ ہے ، وصل کے دن ہوں تو سورج بھی گھر جانے کو نہ آئے، اور ہجر کی راتیں ہوں تو کاٹتے نہ کٹیں۔ آج کل ڈنمارک میں غیر ملکیوں پر صعوبتوں کی راتیں طاری ہیں گو کہ آنے والا موسم بہار بھی نئے شگوفوں کی صورت درختوں سے جھانک رہا ہے مگر پھر بھی دل کے موسم خوبصورت نہ ہوں تو باہر کے اجالے بھی آنکھیں ہی چندھیاتے ہیں۔ جب سے موجودہ حکومت نے باگ ڈور سنبھالی ہے غیر ملکیوں پر ہر روز ایک تازہ مصیبت طاری ہونے کی خبر ملتی ہے، حد تو یہ ہے کہ معاملات امیگریشن کی وزیر نے اپنی پچاس ترامیم منظور ہونے پر ایک خوبصورت کیک سے جشن منایا، جس کو لیکر یہاں میڈیا میں خوب بحث چلتی رہی ، اکثریت نے وزیر موصوفہ کو انسانی احساس سے عاری قرار دیا جو لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کرکے خوش ہوتی ہیں۔

جہاں باقی غیر ملکیوں پر اس غیر ملکی مخالف حکومت کی طرف سے عنایات کی بارش ہو رہی تھی تو پاکستان جس کے باسی یہاں ایک بڑی کمیونٹی کی صورت موجود ہیں کیونکر نہ فیض یاب ہوتے، لیجئے ایسا ہی ہوا، پاکستانیوں کو ویزہ کی کیٹگری نمبر پانچ میں ڈال دیا گیا، خیر اس سے پہلے بھی ہم نمبر ایک میں نہ تھے لیکن پھر بھی کسی نہ کسی خوشی غمی پر عزیزواقارب کو ویزہ مل ہی جاتا ہے، جس کو یوں سمجھ لیجئے کہ مکمل طور پر بند کردیا گیا، یہ ویزوں کی تقسیم کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ کسی ملک کے شہری مقررہ ویزہ کی مدت کے اندر ملک چھوڑ دیں اور کسی قسم کی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث نہ ہوں۔

گروپ ایک۔

ایسے ممالک جن کے شہری مجرمانہ کاموں میں کم سے کم شامل ہونے کا چانس رکھتے ہوں، اور ڈنمارک یا کسی دوسرے شینگن ملک میں غیر قانونی سکونت اختیار کرنے کا نہ سوچتے ہوں۔ ان ویزوں کی نوعیت پرائیویٹ، سیاحتی، کاروباری، سماجی یا سائنسی ہو سکتی ہے۔ اس گروپ میں شامل ممالک درج ذیل ہیں

Group 1
angola
lesotho
bahrain
Madagascar
belize
Maldives
bhutan
mozambique
bolivia
namibia
botswana
nauru
Cambodia
oman
Comoros
Papua New Guinea
The Dominican Republic
qatar
The you. People’s Republic of Korea
Sao Tome & Principe
dominica
Saudi Arabia
ecuador
Suriname
fiji
swaziland
gabon
South Africa
guyana
Tajikistan
Indonesia
Taiwan i)
jamaica
tanzania
Cape Verde Islands
turkmenistan
China
Equatorial Guinea
laos
 
 
گروپ 2

اس گروپ میں شامل ممالک غیر قانونی طور پر ڈنمارک میں مقیم ہونے کا رسک رکھتے ہیں، اس میں شامل ممالک کچھ یوں ہیں۔

Division 2
benin
Kazakhstan
Bosnia and Herzegovina ii)
Kyrgyzstan
Burkina Faso
liberia
Congo (Brazzaville)
Macedonia (FYROM) iii)
cuba
malawi
The Central African Republic
Mauritania
Djibouti
Moldova iv)
guinea
Mongolia
Guinea-Bissau
Montenegro v)
haiti
nepal
niger
Uzbekistan
Serbia vi)
zambia
Chad
zimbabwe
thailand
togo
گروپ 3
ان ممالک کے لوگ نمایاں حد تک غیر قانونی سکونت اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا خدشہ موجود ہے، اس گروپ میں شامل ممالک یہ ہیں۔

Main Group 3
Armenia
jordan
Azerbaijan
kenya
Burma (Myanmar)
kuwait
burundi
Morocco
Cameroon
Russia
Egypt
Rwanda
ivory Coast
Sierra Leone
Phillipines
Sri Lanka
Georgia
Turkey
ghana
uganda
Belarus (Belarus)
ukraine
India
vietnam
 
گروپ 4
 
اس گروپ میں موجود ممالک کے لوگوں کا غیر قانونی سکونت اختیار کرنے کا بڑا خدشہ موجود ہے، اس گروپ کے ممالک کو بہت قریبی رشتہ دار، تعلیمی یا سماجی کاموں کے حوالے سے ہی ویزہ ملنے کا امکان ہے۔ پاکستان بھی پہلے اسی کیٹگری میں شامل تھا۔

 
Main Group 4
Algeria
mali
bangladesh
nigeria
The you. Republic of Congo
Stateless Palestinians vii)
Ethiopia
senegal
gambia
sudan
Iran
South Sudan
Kosovo
Tunisia
Lebanon
yemen
Libya
 
گروپ 5
اس گروپ میں شامل ممالک کے لوگ غیر قانونی سکونت کے لئے ایک بڑا خدشہ ہیں اور ڈنمارک اور شینگن ممالک کے لئے خطرے کا باعث بھی ہو سکتے ہیں۔ان ممالک کے لوگوں کو ویزہ صرف انتہائی مجبوری یا کسی غیر معمولی صورت حال میں ہی دیا جا سکتا ہے، اور یہاں کے لوگوں  تعلیمی ، سماجی یا ثقافتی  یا کاروباری ویزہ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔  اس فہرست میں درج ذیل ممالک شامل ہیں۔
 
Division 5
afghanistan
pakistan
eritrea
Somalia
Iraq
Syria
 
 
ویزے کی فہرست میں پاکستان کا شمار شام، عراق، صومالیہ، افغانستان وغیرہ کے ساتھ شمار کیا جانا ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔

کیا پاکستان کے حالات اس قدر مخدوش ہو چکے ہیں کہ اس کو خانہ جنگی والے ممالک کی فہرست میں شامل کردیا جائے؟ یا غیر ملکی مخالف حکومت کی خصوصی محبت کا نتیجہ ہے کیونکہ پاکستانی ایک بڑی تعداد میں یہاں موجود ہیں۔
کچھ دوستوں کے توسط اس فیصلے کی وجہ پاکستان سے بننے والے جعلی پاسپورٹس بھی ہیں، کیونکہ ان پاسپورٹس کا فائدہ اٹھا کر کوئی دہشت گرد بھی ملک میں داخل ہو سکتا ہے، لیکن میرے خیال میں یہ وجہ کافی نامناسب ہے کیونکہ اکثریت اپنے والدین یا عزیز و اقارب کو بلانا چاہتی ہے جس میں ان ممالک میں موجود کوئی سکونت پذیر تحریری طور پر اپنی ذمہ داری کا اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ ان افراد کا میں ذمہ دار ہوں، اگر کوئی ذمہ دار پرامن شہری موجود ہے تو اداروں کو ان افراد کا احترام کرنا چاہیئے۔


اس وقت ڈنمارک میں قریباً ساٹھ لاکھ آبادی میں پینتس سے چالیس ہزار پاکستانی موجود ہیں، پاکستانیوں کی دوسری نسل ہر کاروبار زندگی میں نمایاں نظر آتی ہے، ڈاکٹر، وکلا، سیاستدان، انجئیرز، سماجی کارکن، سیاسی نمائندے، ہر جگہ پاکستانیوں نے اپنی صلاحتیوں کا لوہا منوایا ہے۔ لیکن پھر کیا وجہ ہے جو پاکستانی مشکلات میں گھرتے چلے جا رہے ہیں۔ گذشتہ سات سالوں میں جو وجوہات مجھے سمجھ میں آئی ہیں، ان میں ایک بڑی وجہ آپس کی نااتفاقی ہے، لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ، ایک دوسرے کے پیچھے چلنے کو تیار نہیں، پہلی نسل کے اکثر لوگ جفاکش تھے اور زندگی کی محرومیاں بھگانے کے لئے سخت محنت کے عادی رہے، اس لئے لطافت کچھ کم ہوتی چلی گئی، جو پہلی نسل انہوں نے پروان چڑھائی، اس کا پاکستان سے کتنا رابطہ ہے یہ سوال ابھی جواب طلب ہے۔

کتنے بچے خود کو پاکستانی سمجھتے ہیں یا اپنے عزیز و اقارب سے پاکستان میں رابطہ رکھنا چاہتے ہیں تو شاید ان کی تعداد غالب نہ ہو، اس بات کا انداز اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں پیدا ہونے والے کتنے بچے پاکستان کی زبانوں میں کوئی زبان بول ، یا سمجھ سکتے ہیں؟
پہلی نسل کے وہ لوگ جن کا رابطہ پاکستان سے جسم و جان کی طرح ہے ان کی فصل اب پک چکی ہے، دوسرا طبقہ جو بہت بعد میں آیا یا بعد از تعلیم ڈنمارک میں سیٹل ہوا، ان کی تعداد بہت کم ہے، لیکن ان لوگوں کی اکثریت ابھی روٹی روزی کی دوڑ میں مدہوش ہے کہ کسی قانون کے بننے بگڑنے کا ہوش نہیں رکھتی
 
میرے خیال میں اگر پاکستانیوں کی آبادی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے، تو پہلی نسل، ان کے والدین جو ابھی حیات ہیں، دوسرا حصہ ایسی نسل جو یہاں پیدا ہوئی اور ان کی اولاد، تیسرا حصہ جو بعد میں گرین کارڈ طرز کی سکیموں پر ڈنمارک آئے۔ ان لوگوں میں پاکستان سکے ساتھ جی جان سے اگر کوئی جڑا ہے تو پہلی نسل اور ان کے والدین ہیں، درمیان کا بڑا طبقہ جو تعداد میں سب سے زیادہ ہے یعنی یہاں پیدا ہونے والے اور ان کے بچے ان کو پاکستان کے معاملات سے زیادہ دل چسپی نہیں ہے، ان کے عزیزواقارب کو ویزہ ملے نہ ملے ان کو زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے والدین ان کی جنم بھومی سب کچھ ان کے پاس ہے۔

ایسے میں پاکستانی مسائل پر بات کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، ابھی اسی مسئلے کو لیکر پاکستانی کمیونٹی کی بہت سے آرگنائزیشن اکٹھی ہوئیں اور یہ طے پایا کہ اس معاملہ کو ہر پلیٹ فارم پر اٹھایا جائے گا، اس کے ایک دستخط مہم کا آغاز کیا گیاہے، فیس بک پر آگاہی کا صفحہ بنایا گیا ہے، لیکن دو تین دنوں سے جو لوگوں کا رجحان نظر آ رہا ہے مجھے لگتا ہے کہ ایسی تحریک پاکستانیوں کی روایتی عدم دل چسپی کا شکار ہو جائے گی۔ ہر کوئی صرف اسی دن آواز اٹھائے گا جس دن اس کے اپنے آنگن میں آگ لگے گی، ورنہ کسی کو کسی دوسرے کے معاملہ سے کچھ سروکار نہیں۔ اس سے پہلے بھی پاکستانی کمیونٹی نے پاکستانیوں کی امن پسندی کو عام کرنے کے لئے ایک بڑے اکٹھ کا اہتمام کرنا چاہا تھا لیکن سوسائٹی کی اکثریت اس پروگرام کا حصہ نہ بن سکی تھی، نجی محافل میں لوگ  ایسی جگہوں پر نہ جانے کی درجنوں تاویلیں پیش کرتے ہیں لیکن اصل میں ان سبھی دلائل کو ایک لفظ نا اتفاقی میں سمویا جا سکتا ہے۔

اتنے زیادہ تعداد میں کمیونٹی ہونے کے باوجود بھی سیاسی سطح پر پاکستانیوں کی نمائندگی بہت کم ہے، اس کی وجہ پاکستانیوں کا ایک دوسرے سے عدم تعاون ہے،ان مہذب ملکوں میں رہ کر جہاں نظم و نسق زندگی کی ہر دوڑ کا حصہ ہے پاکستانی ایک تسبیح میں پروئے ہوئے نظر نہیں آتے،

یہاں تین نسلیں آنے کے بعد بھی ذات برادری، کام ، مذہب، فرقہ یعنی ہر طرح کی تقسیم میں بٹے ہوئے پاکستانی حسب سابق کسی معجزے کے منتظر ہیں۔ کہ کوئی باہر سے آکر ان کے مسائل حل کر دے گا، لیکن یہ سب معاملات اسی وقت حل ہوں گے جب ہم اتفاق و اتحاد کے ساتھ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں گے۔

ابھی یہ معاملات کسی حد تک حرارت پکڑ ہی رہے ہیں کہ پاکستان میں ڈنمارک کے سفیر صاحب کے فیس بک پیج پر ایک وضاحت کے سکرین شاٹ بھی دیکھنے میں آ رہے کہ پاکستانیوں کو حسب سابق ویزہ ملتا رہے گا، بلکہ وہ کاروباری حضرات کے مزید آسان ویزہ شرائط کے خواہشمند ہیں لیکن وزارت کی ویب سائٹ پر ملکوں کی تقسیم اور ان کے نیچے لکھی ہوئی وضاحت کوئی اور کہانی کہہ رہی ہے۔

ایک دوست کا موقف ہے کہ ڈنمارک میں والدین کے ویزہ اپلائی کرنے پر کبھی بھی بین نہیں رہا، والدین کا ویزہ اب بھی اپلائی کیا جا سکتا ہے، اس کے لئے اس سکرین شاٹ کی وضاحت کو کافی سمجھا جائے، یا متعلقہ وزارت کی ویب سائٹ پر لکھی ہوئی عبارت کو درست سمجھا جائے؟

مصنف کے بارے میں

رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں اور اردو بلاگر ہیں