میرا دو ہزار سولہ -چند یادداشتیں

میرا دو ہزار سولہ -چند یادداشتیں

میرے لئے دوہزار سولہ کا پہلا سورج بیجنگ انٹرنیشنل ائیر پورٹ کے ہوائی اڈے پر طلوع ہوا تھا، اس ہوائی اڈے پر کچھ بھی ایسا نہ تھا کہ جس سے لگے کہ یہاں نیا سال آیا ہے، شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چائنہ والے اپنے نئے سال کا آغاز چاند کے حساب سے جشن منا کر کرتے ہیں، چائنا میں گذرے دو ہفتے بالکل خواب جیسے تھے، ایسا دیس جہاں انگریزی سے عوامی آشنائی نہ ہونے کے برابر ہے مگر پھر بھی دنیا کی بڑی طاقت ہے، جہاں گوگل اور اس کی مصنوعات پر پابندی ہے اور لوگ اس پابندی کا احترام بھی کرتے ہیں۔

اسی سال کے اوائل میں سوشل میڈیا پر اردو لکھنے والے بلاگرز کی تحاریر کو اکٹھا کر کے ایک کتابی صورت میں شائع کرنے کی کوشش کی جو کامیاب رہی، پہلی دفعہ بہت سے فیس بک کے دوستوں کو لائیو دیکھا، کتاب کی تقریب رونمائی الحمرا آرٹ کونسل لاہور میں رکھی گئی تھی، جس میں دور دراز سے آئے دوستوں کی شرکت ابھی تک دل میں خوشی کے پھول کھلاتی ہے۔

واپس ڈنمارک آنے کے بعد کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر ایک آئی ٹی سروسزکمپنی کھولنے کے منصوبوں پر بات چلتی رہی، الفا برینز اس طرز کا ایک نام بھی سوچا گیا، جو کافی مہینوں کی محنت کے بعد ڈیجیٹل نارڈکس میں تبدیل ہو گیا، اور اس سال کے آخر تک یہ منصوبہ بھی باقی منصوبوں کی طرح بنا تعمیر کے منہدم ہو گیا۔
مئی کے مہینے میں پرتگال کی سیر کا ایک موقع ہاتھ آیا ، لزبن اور فاطمہ شہر کی سیر کی، واسکوڈے گاما جس کا نام بہت سن رکھا اس جنم بھومی تک جاپہنچے، یورپ کی ایک ایسی جفاکش قوم جنہیں یورپ کا درویش بھی کہا جا سکتا ہے، آہستہ آہستہ دنیا سے بے نیاز اپنی دھن میں مست چلے جا رہے ہیں، شہر فاطمہ نے ذہن کی کھڑکی پر نئے دروازے کھولے کہ عیسائیت میں بھی عقیدت مندی اور پیری مریدی طرز کی کچھ اشئیا موجود ہیں۔
اس کے بعد جولائی میں برسلز سے لیکر وینس تک بائی روڑ سفر بھی اس سال کی بہترین یادگاروں میں سے ایک ہے، لگزمبرک، زیوچ، انٹرلاکن، میلان، ویرونہ اور وینس شہر دیکھے، سوئیٹرزلینڈ کو بہت مہنگا پایا، اٹلی یورپ کا جوشیلا نوجوان محسوس ہوا،
اس کے بعد ایک دفعہ پھر ایک پرانے خواب کی طرف رجوع کیا کہ پی ایچ ڈی اب کر ہی لی جائے، ایک محسن کے توسط چیک ری پبلک کی ایک یونیورسٹی میں کچھ بات چلائی اور پراگ دیکھنے کا موقع ہاتھ آیا۔ پراگ جنگ عظیم سے سالم بچ جانے والا شہر ہے اس لئے وہاں تاریخی عمارتیں جوں کی توں موجود ہیں، چارلس برج سے بادشاہ کے محل کی طرف دیکھیں تو انسان خود کو کسی فلم کا حصہ محسوس کرتا ہے۔
اسی مہینے میں چار ہفتوں کے لئے پاکستان کا چکر لگا، بہت بھاگ دوڑ میں کچھ دوستوں سے ملاقات ہوئی اور کچھ سے نہ ہو سکی، پاکستان میں سمارٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے کسانوں تک پہنچنے کے ایک سلسلے کا کچھ حصہ بنا، اور اپنی ایک تجویز جس پر ابھی کام کرنا باقی ہے، اس کی منظوری کا منتظر ہوں۔
اسی سال کے آخری دنوں میں جاپان میں مقیم ایک دوست کے توسط پاکستان میں چاول کی پنیری لگانے والی مشین پاکستان میں ترویج دینے کا ایک اور خواب آغاز ہوا، جو آنے والے سال کے درمیان تک ذہن پر سوار رہنے کا امکان ہے۔
اسی سال کے آخری مہینے میں بلاگ سے ویڈیو بلاگ کی طرف دل مائل ہوا ہے، ابھی کچھ دن پہلے اپنے یوٹیوب چینل کا آغاز کیا ہے، اتنےخوابوں میں یہ سال گذرا کہ ہانپ ہانپ کر برا حال ہو گیا ، وہ منصوبے جو اس سال سے بھی پہلے کے چلے آ رہے تھے جیسے ایگری ہنٹ اس میں کچھ بہتری آئی، فروٹ فار لائف کے پلیٹ فارم سے فیصل آباد کی ایک رہائشی کالونی میں کچھ پودے لگائے گئے، اور ہمارا سائنفیک جرنل لائف سائنسز انٹرنیشل جرنل اس سال بھی پٹری پر چڑھ نہ پایا۔
دیکھوں تو لگتا ہے، اس سال میں جو حاصل ہوا، بے لاگ-اردو بلاگرز کی منتخب تحاریر پر مشتمل کتاب، بیسکس آف ایگریکلچر کا ساتواں ایڈیشن، پاکستان میں چند سو پھلدار پودوں کا اضافہ، ایگری ہنٹ اور ریز فاونڈیشن کے تحت چلنے والا فری سکول جو 83 بچوں تک جا پہنچا اور چار پانچ سفر اس سال کی خوبصورتیاں تھیں، اور اگر ناکامیوں کا تذکرہ کروں ایک لمبی فہرست ہے، اتنے خواب ٹوٹے کہ کرچیاں اکھٹی کرنے میں نیا سال لگ جائے، اسی لئے ان ناکامیوں کا تذکرہ ہی کیا۔۔۔۔

آئیے ایک نئے ولولے کے ساتھ نیا سال گذارنے کا عہد کریں۔وہ جو عہد میرا خود سے بہت سے پرانے برسوں سے ہے۔اس کو ہی دہرائے لیتے ہیں کہ

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

مصنف کے بارے میں

رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں اور اردو بلاگر ہیں