2016: وہ جو ہم سے بچھڑ گئے

2016: وہ جو ہم سے بچھڑ گئے


سال 2016 اختتام پزیر اور نئے سال کا سورج طلوع ہونے والاہے۔ یہ سال اپنے دامن میں کئی تلخ یادیں لئے رخصت ہوا۔ عیسوی سال کی بنیاد سورج کی گردش سے ہے جبکہ ہجری سال کا انحصار چاند کے طلوع و غروب پر ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے ’’ الشمس والقمر بحسبان‘‘ ارشاد فرماکر اس حقیقت کو واضح کردیا کہ سورج اور چاند کے مقاصد وجود میں سے ایک مقصدمعاملات زندگی چلانے کیلئے کیلنڈر مرتب کرنا ہے۔ بہر کیف ایک ہندسہ تبدیل ہونے سے تاریخ کے اک نئے باب کا آغاز ہوجائے گا۔ دنیا بھر کے انسانوں اور خصوصا اہالیان پاکستان کو نئے سال کی مبارک باد ۔سال 2016 جہاں اپنے ساتھ بہت سی یادیں چھوڑے جارہا ہے، وہیں ان یادوں میں وہ تین ایسی شخصیات بھی ہیں جو اس سال ہم سے جدا ہوئیں، جنہیں کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔


عبدالستارایدھی ، انسان دوست شخص:
20166 میں جو اہم شخصیت ہم سے جدا ہوئی، وہ ملک کے معروف سماجی کارکن عبدالستار ایدھی تھے، جن کی انسانیت کیلئے کی جانے والی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔دنیا میں کئی شخصیات نے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیں ہیں، لیکن جو کام ایدھی نے تن تنہا شروع کیا تھا، اس کو آخری سانس تک چلاتے رہے اور انھوں نے معاشرے کی خدمت کی نئی مثال قائم کی۔یکم جنوری، 1928ء میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کپڑےکے تاجر تھے جو متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ پیدائشی لیڈر تھے اور شروع سے ہی اپنے دوستوں کے چھوٹے چھوٹے کام اور کھیل تماشے کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ جب انکی ماں ان کو اسکول جاتے وقت دو پیسے دیتی تھی تو وہ ان میں سے ایک پیسا خرچ کر لیتے تھے اور ایک پیسا کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے۔ گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی ماں کی دیکھ بھال کا کام سنبھالا جو شدید قسم کے ذیابیطس میں مبتلا تھیں۔ چھوٹی عمر میں ہی انہوں نے اپنے سے پہلے دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا، جو آگے کی زندگی کے لیے کامیابی کی کنجی ثابت ہوئی۔ پاکستان کے علاوہ اسلامی دنیا میں بھی ایدھی نے ایک غیر خود غرض اور محترم شخص کے طور شہرت پائی۔ شہرت اور عزت کے باوجود انہوں نے اپنی سادہ زندگی کو ترک نہیں کیا، وہ سادہ روائتی پاکستانی لباس پہنتے ، جو صرف ایک یا دو انکی ملکیت تھے، اسکے علاوہ انکی ملکیت کھلے جوتوں کا ایک جوڑا تھا، جس کو وہ سابقہ بیس سال سے استعمال کر رہے ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کا بجٹ ایک کروڑ کا ہے جس میں سے وہ اپنی ذات پر ایک پیسا بھی نہیں خرچ کرتے۔ آپ کے بیٹے فیصل بتاتے ہیں، جب افغانستان میں مرکز کا افتتا ح کیا جا رہا تھا تو عملہ نے مہمانوں اور صحافیوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں خرید لیں۔ جب ایدھی وہاں آئے تو وہ اس بات پر سخت خفا ہوئے، کیونکہ انکے خیال میں یہ رقم کسی ضرورت مند کی مدد پر خرچ کی جا سکتی تھی۔ اس رات آپ کلینک کے فرش پر ایمبولینس کے ڈرائیوروں کے ساتھ سوئے۔عبدالستار ایدھی کو 1986ء عوامی خدمات میں’’ رامون مگسےسے ‘‘اعزاز، 1988ء’’ لینن امن ‘‘انعام، 1992ء پال ہیریس فیلو روٹری انٹرنیشنل فاونڈیشن، دنیا کی سب سے بڑی رضاکارانہ ایمبولینس سروس گینیز بک ورلڈ ریکارڈز، ہمدان اعزاز برائے عمومی طبی خدمات 2000ء متحدہ عرب امارات،بین الاقوامی بلزان اعزاز 2000ء برائے انسانیت، امن و بھائی چارہ اطالیہ اور انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کی جانب سے اعزازی ڈاکٹریٹ ڈگری کے اعزازات اپنے نام کیے۔قومی اعزازات میں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کی طرف سے سلور جوبلی شیلڈ، حکومت سندھ کی جانب سے سماجی خدمتگزار برائے بر صغیر کا اعزاز،نشان امتیاز، پاکستان سوک سوسائٹی کی جانب سے پاکستان’’ سوک اعزاز‘‘اور 26 مارچ 2005ء عالمی میمن تنظیم کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ اعزاز اپنے نام کیا۔8 جولائی 2016ء کو گردوں کے فیل ہونے کی وجہ سے 88 سال کی عمر میں رحلت کرگئے۔ انہوں نے وفات سے قبل یہ وصیت کی تھی کہ ان کے دونوں آنکھیں ضرور مندوں کو عطیہ کر دی جائے۔


امجد صابری، ایسے آواز جو کبھی نہیں بھول سکتی:
امجد فرید صابری 23 دسمبر 1976 کو پیدا ہونے۔ صوفی قوال،نعت خواں اور گلوکار تھے۔ وہ صابری برادران ایک قوال گھرانے میں پیدا ہوئے اور غلام فرید صابری قوال کے بیٹےے تھے۔ وہ 12 سال کی عمر میں ہی اپنے والد کے ساتھ سٹیج پر پرفارم کرتے آئے تھے۔اس دوران وہ برصغیر کے معروف قوال بن کر ابھرے جو اکثر اپنے والد اور چچا کے لکھے ہوئے قوالی پڑتے۔ امجد صابری نے فن قوالی اپنے والد سے 9سال کی عمر میں سیکھنا شروع کیا اور 1988ء میں 12سال کی عمر میں پہلی بار سٹیج پر پرفارمنس دی۔انہوں نے بہت سے ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔امجد صابری کو 22 جون 2016ءکو دو مسلح موٹر سائیکل سواروں نے لیاقت آباد ٹاؤن میں اُن کی کار پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔امجدصابری، کراچی شہر کے لیاقت آباد کے علاقہ میں واقع اپنی رہائش سے نکل کر نجی ٹیلی وژن کے اسٹوڈیو جا رہے تھے۔


جنید جمشید، پیار و محبت کا پیکر:
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز(پی آئی اے) کے چترال سے اسلام آباد جاتے ہوئے حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہونے والے مسافر طیارے میں معروف شخصیت جنید جمشید بھی سوارر تھے۔اس بدقسمت طیارے میں 42 افراد سوار تھے جن میں سے بدقسمتی سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔ جنید جمشید چترال میں تبلیغی دورے پر گئے ہوئے تھے ۔شوبز کی چکا چوند کو خیرباد کہہ کر اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف کردینے والے اسٹار جند جمشید کی ناگہانی موت نے دنیا بھر میں ان کے پرستاروں کو سوگوار کردیا ۔جنید جمشید نے گلوکاری کے شعبے سے آغاز کرکے پاکستان سمیت دنیا بھر میں شہرت حاصل کی اور بعد ازاں ان کا رجحان مذہب کی جانب ہوگیا اور وہ تبلیغی جماعت کا حصہ بن گئے اور گلوکاری کو ترک کردیا۔جنید جمشید نہایت شفیق انسان تھے۔
یہ تھی اس سال کی کچھ تلخ یادیں ۔ نئے سال کا آغاز اس دعا کے ساتھ کہ یا اﷲ میرے ملک کو تمام آفات سماوی و ارضی سے محفوظ رکھنا ۔آمین


احمد حسن نیو ٹی وی کے سوشل میڈیا ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں اور اردو بلاگر ہیں

مصنف کے بارے میں