مردم شماری!

مردم شماری!

آبادی و اعدادوشمار کے لحاظ سے کسی بھی ملک کے لئے مردم شماری بہت ہی ضروری ہے۔مردم شماری سے شرح خواندگی اور ناخوندگی کا اندازہ ہوتا ہے۔مردم شماری سے ہی بڑھتی آبادی پر کنٹرول وسائل کی تقسیم اور علاقوں کی تقسیم ممکن ہے۔مردم شماری سے ہی آبادی کی معلومات حاصل کی جاتی ہیں اور پھر آبادی کے حساب سے ہی علاقوں میں ترقیاتی کام کروائے جاتے ہیں۔سکول کالج ہسپتال وغیرہ سب آبادی کی معلومات سے ہی ممکن ہوتا ہے۔مردم شماری سے صوبوں شہروں قصبوں بلکہ ہر سطح کی آبادی کا اندازہ ہوتا ہے۔

مردم شماری سے آبادی کے درست اعدادو شمار ملتے ہیں۔مختلف زبانیں بولنے والوں کی تعداد بلکہ آبادی کے حوالے سے تمام اعدادو شمار۔مختلف ممالک میں مردم شماری بڑے جدید اور ڈیجیٹل سسٹم کے زریعے کی جاتی ہے۔اکثریت ممالک میں گھر گھر جاکر کاغذی طریقہ کار سے ہی مردم شماری عمل میں آتی ہے۔یہ طریقہ خاصہ کٹھن مگر پائیدار ہے۔

پاکستان سمیت مخلف ممالک میں مردم شماری ٹیموں کو متعدد مصیبتوں کا سامنابھی  کرنا پڑتا ہے۔کئی ممالک میں مردم شماری میں تاخیر بھی اسی وجہ سے سامنے آئی۔پاکستان میں مردم شماری میں تاخیر کی کئی وجوہات ہیں۔جن میں حکومتوں کی غیر سنجیدگی اور سیکیورٹی سر فہرست ہیں۔اکثر ممالک میں ہر دس سال یا اس کے قریبی عرصہ کے بعد مردم شماری کروائی جاتی ہے۔

پاکستانی آئین کے مطابق بھی ہر دس سال بعد مردم شماری کروانا ضروری ہے۔

مگر افسوس سے پاکستان میں شروع ہی سے اس میں تاخیر کی جاتی رہی اور آخری دفعہ پانچویں مردم شماری 1998 میں ہوئی۔اٹھارہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور مردم شماری میں ابھی بھی تاخیر کی جارہی ہے۔بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک مردم شمار ی میں تاخیر بھی کرپشن کے ذمر ےمیں آتی ہے۔اور اس کرپشن میں بھی ہماری حکومتیں ملوث رہیں۔بعض بڑی سیاسی جماعتیں اس وجہ سے مردم شماری کو لٹکانا چاہتی ہیں کہ کہیں انکا ووٹ بینک نہ کم ہو جائے۔گزشتہ کئی سالوں سے اندازہ سسٹم ہی چل رہا ہے۔اندازوں کی بدولت ہی فنڈز کی تقسیم اور دوسرے معاملات چلائے جا رہے ہیں۔جو انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔

صوبائی اور علاقائی تعصب کی بڑی وجہ بھی مردم شماری میں تاخیر ہے۔بہت سے علاقے اپنے اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں۔محض مردم شماری میں تاخیر کی وجہ سے پاکستان میں بہت سے نظام متاثر ہو رہے ہیں۔ترقیاتی منصوبوں میں منصفانہ تقسیم بھی بروقت مردم شماری سے ہی ممکن ہے۔مردم شماری پر بہت سے فیکٹرز منحصر ہیں۔صوبائی ڈویژن ڈسٹرکٹ سٹی حتی کہ یونین کونسل تک کی حد بندیاں بھی مردم شماری سے ممکن ہیں۔علاقوں کی تقسیم درست ہوگی تو ہی فنڈز کی تقسیم درست ہوگی۔مردم شماری سے ہی عورتوں مردوں کی تعداد معلوم کی جا سکتی ہے۔

خواجہ سرائوں کی تعداد معلوم کر کے انہیں بھی نمائندگی دی جا سکتی ہے۔

ملک میں موجود اقلیتوں کو نمائندگی بھی مردم شماری سے ممکن ہے۔پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوںکی نمائندگی بھی مردم شماری سے ہی طے کی جا سکتی ہے۔میں اپنے پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ گزشتہ کئی سالوں سے متعدد غلطیاں مردم شماری میں تاخیر کی وجہ سے ہوئی ہوں گی۔مردم شماری میں مزید تاخیر ملکی ترقی میں رکاوٹ ہے اسی لئے مردم شماری جلد از جلد مکمل ہونی چاہئے۔یہ بھی وقت کی بڑی ضرورت ہے۔مردم شماری ہمیں خوانداہ اور ناخواندہ کے اعداد و شماربھی مہیا کرتی ہے جس سے بے روزگاری پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے سیکیورٹی کی عدم دستیابی کو مردم شماری میں تاخیر کی وجہ ٹھہرایا جاتا رہا۔مگر جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو لاکھ فوجی جوان مردم شماری کے لئے مختص کرنے کا حکم جاری کردیا۔فوجی جوان مردم شماری ٹیموں کے ساتھ مختلف فرائض انجام دیں گے جن میں سیکیورٹی سر فہرست ہے۔اب ان لوگوں کے پاس کوئی جواز نہیں بچا جو مسلسل مردم شماری میں تاخیر چاہتے تھے۔امید کرتے ہیں کہ مقررہ وقت پندرہ مارچ کو ہی ملک میں چھٹی مردم شماری کا آغاز ہوگا اور اسے جلد از جلد مکمل کیا جائیگا۔مختلف پسماندہ علاقوں کے مکینوں کے پاس قومی شناختی کارڈ موجود نہیں ان میں احساس محرومیت پیدا ہوسکتاہے۔جن میں بلوچستان اور دوسر صوبوں کے کچھ علاقے بھی ہیں۔ویسے نادرا ایک پرائیویٹ ادارہ ہے مگر نادرا کی سست روی سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حکومتی اداروں سے بھی گیاگزرا ہے۔دیہی اور دور دراز کے علاقوں میں نادرا کا کوئی سسٹم موجود نہیں۔شہروں میں قطاروں کا رش کم نہیں ہوتا ۔کارڈ کے حصول کے لئے لوگوں کو دھکے مل رہے ہیں۔

حکومت کو فوری اس طرف توجہ کرنی ہوگی تا کہ لوگ خوش اسلوبی سے شناختی کارڈ بنوا کر ملکی مردم شماری اور ملکی انتخابات میں حصہ لے سکیں۔دیکھا جائے تو ایک بڑی تعداد ووٹ کے حق سے صرف شناختی کارڈ کی وجہ سے محروم ہے۔آخر میں حکومت اور عوام سے گزارش ہے کہ مردم شماری کی ٹیموں کی ہر ممکنہ مدد کی جائے۔تاکہ مردم شماری جیسا اہم کام خوش اسلوبی سے مکمل ہو جائے۔ملک پاکستان مزید ترقیاں سمیٹ سکے۔حکومت کو اب دل سے مردم شماری میں انٹرسٹ لینا ہوگا۔اور حکومت کو مردم شماری سے آگاہی کے اشتہارات بھی چلانے چاہیے تا کہ لوگً مردم شماری میں آسانی سے اپنا کردار ادا کرسکیں۔امید کرتے ہیں کہ مردم شماری سے ملکی اعدادو شمار کا درست اندازہ جلد مکمل ہوجائے گا۔

چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ میں چیف ایگزیکٹو وائس آف سوسائٹی ہیں