آزاد، خود مختار خارجہ پالیسی

آزاد، خود مختار خارجہ پالیسی

وزیرِ اعظم عمران خان نے پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کی کوششوں کے پیچھے دراصل ایک بیرونی سازش کارفرما ہے جس کا وہ نشانہ بن رہے ہیں۔وزیرِ اعظم نے اپنی تقریر کے دوران ثبوت کے طور پر ایک خط بھی لہرایا  اور اب اس خط کے مندرجات بھی کافی حد تک سامنے آ چکے ہیں۔  یہ ایک سنجیدہ نوعیت کی بات ہے کیونکہ عالمی حالات کے تناظر میں پاکستان کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ جیسا کہ حکومت واضح طور پر کہہ رہی ہے کہ سازش کے ذریعے بیرونی طاقتیں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت گرانا چاہتی ہیں۔ ملک کے خلاف ہونے والی اتنی بڑی منصوبہ بندی اگر سامنے آ گئی ہے تو اس کے ذمہ داروں کو قوم کے سامنے لا کر کیفرِ کردار تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہئے کیونکہ یہ ملکی بقا و سلامتی کا مسئلہ ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ عالمی طاقتیں حکومتوں پر اثر اندازہوتی رہی ہیں۔ قائدِ اعظم ایک سال پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے امورِ مملکت چلاتے رہے۔ انہوں نے پاکستان کی آزاد داخلہ اور خارجہ پالیسی کی گائیڈ لائنز کا تعین کیا مگر افسوس ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے اپنے اور سامراجی مفادات کے تحفظ کے لئے قائدِ اعظم کے پالیسی اصولوں سے گریز اور انحراف کیا، جس کے نتیجے میں پاکستان آج تک داخلی استحکام اور خارجہ پالیسی بحران کا شکار چلا آ رہا ہے۔ قائدِ اعظم نے خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول بیان کرتے ہوئے ایک مشاورتی اجلاس میں فرمایا کہ امریکہ اور روس دونوں شیطان ہیں لہٰذا ہمیں اس شیطان کا ساتھ دینا چاہئے جس کو ہم جانتے ہیں، ان کا اشارہ امریکہ کی جانب تھا جس نے آل انڈیا مسلم لیگ کے لیڈروں سے اپنے تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ افسوس ہمارے حکمران شیطان سے محفوظ رہنے کے بجائے اس کو آقا سمجھنے لگے۔ وہ قائدِ اعظم کا خود انحصاری کا پیغام بھول کر امریکہ پر غیر معمولی انحصار کرنے لگے۔ جب 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد امریکہ کا اصل چہرہ سامنے آیا تو پاک امریکہ تعلقات کے بانی جنرل ایوب خان نے کتاب " فرینڈز ناٹ ماسٹرز" لکھ کر امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنی ڈائری میں تحریر کیا امریکہ پاکستان 
کو کمزور اور عدم استحکام کا شکار رکھنا چاہتا ہے تاکہ ہم اس کے رحم و کرم پر رہیں۔ 
ذوالفقار علی بھٹو نے قوم پرستی کے جذبے کے پیشِ نظر قومی مفادات کے تابع ایک کامیاب آزاد اور فعال خارجہ پالیسی تشکیل دی مگر افسوس کہ پاکستان کے حکمران طبقے سامراج کے ساتھ مل گئے اور ہنری کسنجر نے بھٹو کو عبرت ناک مثال بنانے کی دھمکی کے بعد سازش میں شریک ہو گئے کیونکہ بھٹو نے ایٹمی پرو گرام رول بیک کرنے سے انکار اور چین نواز پالیسی ترک کرنے کا امریکی مطالبہ مسترد کر دیا تھا۔ پاکستان کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے امریکہ و یورپ کے مراعات یافتہ افراد نے ملی بھگت کر کے قوم پرست رہنما بھٹو کو پھانسی کے تختے تک پہنچا دیا اور یوں پاکستان ایک آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی دینے سے محروم رہا۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا سہرا بھٹو کے سر بندھتا ہے جس نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی ضد میں نہ صرف اپنا اقتدار کھو دیا بلکہ اپنی جان کی قربانی بھی دی۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی ایک بار پھر قوم پرستی کے جذبے کے ساتھ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو آزاد اور خود مختار بنانے کی کوشش کی ہے تو پھر سے وہی چہرے بیرونی دنیا کی ملی بھگت کے ساتھ آڑے آ گئے ہیں جب کہ پاک فوج کا انہیں مکمل تعاون حاصل ہے۔    
اگر چہ ملکوں کا داخلی بحران اہمیت رکھتا ہے اور مسائل سے نمٹنے میں اس کی حیثیت ایک کنجی کی ہے۔ لیکن اب داخلی مسائل کو ہمیں بعض خارجی مسائل کے ساتھ جوڑ بھی مسئلوں کا حل تلاش کرنا ہوتا ہے۔ داخلی مسائل کے ساتھ کچھ علاقائی اور بین الاقوامی مسائل ایسے ہیں جو ہماری داخلی سیاست پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ وزیرِ اعظم کے لہرائے گئے خط کو اپوزیشن محض ایک سازشی تھیوری قرار دے رہی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اپنی داخلی کمزوریوں کو قبول نہ کرنے کے باعث اپنے مسائل کا الزام دوسروں پر ڈال کر اپنے آپ کو مسائل کی ذمہ داری سے بچانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی داخلی سیاست چونکہ کمزور ہے اور ہماری ریاست یا حکومتوں پر بین الاقوامی اور علاقائی سیاست کے دباؤ کا مضبوط ہونا بھی فطری امر ہے۔ کیونکہ جب آپ داخلی سیاست میں کمزور ہوں گے تو اس کا فائدہ دیگر غیر ملکی قوتیں اپنے مفادات کے پیشِ نظر اٹھاتی ہیں۔ ماضی میں یہی ہوا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادتیں اپنے سیاسی مفادات کے پیشِ نظر بین الاقوامی اور علاقائی سیاسی مفادات کے تناظر میں موجود بڑے اور مشکل مسائل پر بڑی بات کرنے سے گریز کرتی رہی ہیں۔ لیکن جب سے پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت آئی ہے وزیرِ اعظم عمران خان عالمی سیاست میں بڑے متحرک نظر آ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ ان سے بڑے نالاں نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے روس کے دورے پر جانے سے قبل کہا تھا کہ ہم نے کسی بلاک کا حصہ نہیں بننا ہے،ہم نے سب سے تعلقات قائم کرنے ہیں۔
ماضی میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ جو بھی پاکستانی حکمران یورپ کے سامنے کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے اسے ہٹانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی جاتی۔ 1977ء میں جمہوری اور مقبول رہنما ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹانے میں سب سے بڑا کردار امریکہ نے ادا کیا جب کہ سیاسی اور دانشور حلقے اس بات پر متفق تھے کہ بھٹو مجموعی طور پر وہ انتخابات جیت چکے تھے اور دھاندلی کی شکایت صرف چند سیٹوں پر تھی۔ بھٹو دشمنی ہی کا نتیجہ تھا کہ امریکہ نے قومی اتحاد کی نو جماعتوں کے اتحاد کے ذریعے ایک آمر کو عوام پر مسلط کر دیا جس نے پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی کے اس غار میں دھکیل دیا جس سے پاکستان ابھی تک نہیں نکل پا رہا ہے۔ بھٹو نے اس تحریک کو روکنے کے لئے فوج کو استعمال کرنا چاہا لیکن وہ تحریک اس قدر مضبوط ہو چکی تھی کہ فوج ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ یوں امریکہ نے بھٹو کو نشانِ عبرت بنا کر انتقام لیا۔ 1977ء میں عوام نے دیکھا کہ بیرونی مالی مدد سے سیکڑوں کارکنوں کو لاہور، کراچی، راولپنڈی اور دیگر شہروں کے مضافات سے بسوں میں شہروں میں لایا جاتا تھا۔ اب ایک بار پھر وہی عمل دہرایا جا رہا ہے وہی لوگ تحریکِ عدم اعتماد کی قیادت کر رہے ہیں۔ میں اتوار کو لاہور میں تھا لاہور کے راوی روڈ پر واقع باغ میں مختلف مدرسوں کے ہزاروں چھوٹے چھوٹے بچے سیکڑوں بسوں میں سوار کر کے اسلام آباد روانہ کئے جا رہے تھے۔ 
اس وقت پارلیمنٹ میں 11 ستارے حکومت کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اسی طرح 1977 ء میں نو ستارے امریکہ کے سیاسی مدار پر گھوم رہے تھے۔ اب عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی تعداد میں دو کا اضافہ ہو گیا ہے لیکن ان کے کردار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی فرق صرف اتنا ہے کہ 1977ء میں یہ بھٹو حکومت کو گرانے میں کی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے جب کہ اب یہ عمران خان کی حکومت کو گرانے کے درپے ہیں۔

مصنف کے بارے میں