عدالت عظمیٰ کا راحیل شریف کو بیرون ملک ملازمت کیلئےجاری کردہ این او سی کا جائزہ لینے کا فیصلہ

عدالت عظمیٰ کا راحیل شریف کو بیرون ملک ملازمت کیلئےجاری کردہ این او سی کا جائزہ لینے کا فیصلہ
کیپشن: image by facebook

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمین کی دوہری شہریت سے متعلق مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کو بیرون ملک ملازمت کے لیے جاری کیے گئے این او سی کا جائزہ لے گی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ مدت ملازمت پوری ہونے کے فوری بعد بیرون ملک کسی دوسری نوکری کے لیے این او سی کیسے جاری کیا جاسکتا ہے ، جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف نے بطور آرمی چیف مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد سعودی عرب میں مسلم اتحادی افواج کی سربراہی سنبھال لی ہے اور اُنھیں سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس ضمن میں این او سی جاری کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیئے:کامیاب امیدواروں کو انتخابی اخراجات کی تفصیلات جمع کروانے کی ہدایت
 
 عدالت نے فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شجاع پاشا کے بیرون ملک ملازمت پر بھی حیرانگی کا اظہار کیا اور کہا کہ شجاع پاشا اتنے حساس ادارے میں کام کرنے کے بعد دبئی میں کسی دوسرے ادارے میں کیسے کام کر رہے ہیں۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اہم عہدوں پر فائض افراد کو تو بیرون ملک جانا ہی نہیں چاہیے بلکہ ایسے افراد کی سکیورٹی کو مزید بڑھا دینا چاہیے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سرکاری ملازمین کی دوہری شہریت سے متعلق مقدمے کی سماعت کی تو بینچ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا قانون میں گنجائش موجود ہے کہ اگر کسی سرکاری ملازم کو ریٹائر ہوئے دو سال کی مدت مکمل نہ ہوئی ہو تو اسے بیرون ملک نوکری کے لیے این او سی جاری کر دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیئے:دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کو مزید تقویت دی جائے: آرمی چیف
  
 ا
ٹارنی جنرل نے بینچ کو بتایا کہ قانون میں یہ گنجائش موجود ہے کہ وفاقی حکومت کسی بھی شخص کو این او سی جاری کرسکتی ہے جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت اس معاملے کو دیکھے گی کہ وفاقی حکومت سے مراد صرف وزیر اعظم نہیں بلکہ پوری وفاقی کابینہ ہے۔

چیف جسٹس نے سیکرٹری دفاع سے استفسار کیا کہ فوج میں کتنے ایسے افراد ہیں جو دوہری شہریت کے حامل ہیں جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ فوج میں ایسا ایک بھی شخص نہیں ہے جو دوہری شہریت کا حامل ہو۔

عدالت نے سیکرٹری دفاع کو حکم دیا کہ وہ ایک سرکلر جاری کریں جس میں فوجی جوانوں اور افسران سے پوچھا جائے کہ کیا اُن کی بیوی دوہری شہریت کی حامل تو نہیں ہے ، عدالت نے اس مقدمے کی سماعت سات اگست تک ملتوی کر دی ہے۔