سیاسی رونا

سیاسی رونا

گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ پنجاب کے حوالے سے سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ آیا، چودھری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب قرار دے دیا گیا۔ ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ واضح طور پر غلط ہے اور برقرار نہیں رہ سکتی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ پرویز الٰہی کی آئینی درخواست منظور کی جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ حمزہ شہباز سے پنجاب کا تاج لے کر پرویز الٰہی کو دے دیا گیا۔ یہ سارا معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے کیا اور نون لیگ اور باقی اتحادی جماعتوں کی کئی مہینوں کی محنت چند منٹوں میں مٹی میں ملا دی۔
سپریم کورٹ نے یہ واضح کیا کہ 22 جولائی کی رولنگ کالعدم ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور ساتھ ہی ساتھ حمزہ شہباز اور کابینہ کی 
حلف برداری اور اقدامات کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی، اس لیے پرویز الٰہی آج ہی حلف اٹھائیں۔ گورنر پنجاب یہ نہیں کر سکتے تو صدر مملکت ان سے حلف لیں۔ حمزہ اور ان کی کابینہ کے تمام اقدامات کو ڈی فیکٹو اصول کے تحت تحفظ دیا جاتا ہے بشرط کہ یہ اقدامات غیر قانونی نہ ہوں، آنے والے وزیر اعلیٰ ان احکامات کا قانونی طریقے سے جائزہ لے سکتے ہیں، ان میں ترمیم کر سکتے ہیں یا انہیں واپس کر سکتے ہیں۔
جب یہ سارا معاملہ ہوا تو سیاسی پارٹیوں کے لیڈران جو ہمیشہ سے کرتے ہیں اس بار بھی وہی ہوا کہ ن لیگ کے قائد نواز شریف کا ایک ٹوئٹ سامنے آیا جس میں انہوں نے لکھا پاکستان کو ایک تماشا بنا دیا گیا ہے تینوں جج صاحبان کو سلام۔ یہاں پر نواز شریف نے ججز صاحبان پر طنز کیا، یہ تو صاف واضح ہے مگر بات صرف اتنی ہے کہ یہ کوئی پاکستان کا تماشا 
نیا تو نہیں بنا پچھلے کئی ادوار سے بنا ہوا ہے۔ 2018 سے جب سے عمران خان نے ملک کی کمانڈ سنبھالی تھی کبھی ن لیگ سڑکوں پر تھے تو کبھی پی ٹی آئی سڑکوں پر تھی وہ اقتدار چھوڑنا پسند نہیں کرتے تھے اور اپوزیشن اپوزیشن کی کرسی پر بیٹھنا پسند نہیں کرتی تو میرے ملک کی ساری سیاسی پارٹیاں اس وقت ایک ہی پیج پر ہیں۔ جس سے ملک کا یہ حال ہوتا جا رہا ہے۔ ڈالر دیکھیں پاؤنڈ دیکھیں کدھر چلا گیا آپ لوگوں کی اقتدار کی لڑائی ہی ختم نہیں ہونے کو آ رہی۔
دوسری طرف عمران خان نے ٹویٹ کیا کہ میں تمام دھمکیوں اور دباؤ کے باوجود آئین اور قانون کے ساتھ کھڑے رہنے پر سپریم کورٹ کے ججز کو سراہتا ہوں۔ یہ وہی عمران خان ہے جو تحریک عدم اعتماد والے دن انہی ججز پر خاصا برستے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ خان صاحب 
آپ کے جیالے یہ باتیں بھول سکتے ہیں مگر صحافی آپ کی باتیں آپ کے بیان نہیں بھول سکتے۔ میں ایک عوام ہوں مجھے سب یاد ہے۔ آپ تحریک عدم اعتماد سے اگلے دن سپریم کورٹ پر کیسی کیسی باتیں کر رہے تھے۔ عوام کو آپ نے جوڈیشل نظام اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ دوسری طرف مریم نواز نے کہا انصاف کا قتل منظور نہ ہے، اس سارے فیصلے سے پہلے ہی مریم نواز نے ٹویٹ کر دیا تھا کہ حکومت کو سخت موقف اختیار کرنا چاہئے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرے، لیڈر ان حالات سے ہی بنتے ہیں جن کا وہ سامنا کرتے ہیں۔ مریم نواز کہتی ہیں اب بھی کہیں کہیں عمران خان کے حمایتی بیٹھے ہیں جو ان کی حمایت کر رہے ہیں اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ن لیگ کو دال میں کچھ کالا نظر آ رہا ہے۔ اس لیے وہ اپنے سیاسی بیانیے پر نظرثانی کر رہی ہے اور اس میں یہ بھی شامل ہیں کہ شاید اسے اپنے پرانے بیان ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ اختیار کرنا پڑے گا کہ کچھ اداروں سے یہ رسپانس ملنے کے بعد نوازشریف اس صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور کچھ اداروں کے حوالے سے پارٹی کے سخت موقف کے پالیسی اختیار کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اس بات پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف عوام اور میڈیا کے ساتھ اپنی رابطہ مہم دوبارہ شروع کریں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ن لیگ کہتی ہے ہمیں حکومت نہیں چاہیے تھی ہم رواں سال مئی میں نئے انتخابات کے خواہش مند تھے لیکن ہمیں کہا گیا کہ آپ ملک کے بھلے کے لیے کام جاری رکھیں، تو یہ سارا وہ معاملہ ہے کہ صاف لگتا ہے کہ ن لیگ اب ان حالات سے باہر نکل رہی ہے اور نواز شریف کے ایسے بیانات دیکھ کر لگتا ہے کہ انہیں اپنے بھائی کی سیاست پر اعتراض ہے۔
مگر سوال یہاں پر یہ ہے کہ کب تک یہ تماشا ہمارے ملک میں چلے گا کہ میں اقتدار میں ہوں تو اپوزیشن کام نہیں کرنے دیتی اور اپوزیشن کو اپوزیشن کی کرسی نہیں اقتدار کی کرسی چاہیے۔ اب جیسے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی بنے ہیں اگر عمران خان 2018 میں ہی یہ فیصلہ کر لیتے تو شاید آج یہ اقتدار میں ہوتے عمران خان کی سب سے بڑی غلطی بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانا تھا۔ پرویز الٰہی پہلے بھی وزیر اعلیٰ پنجاب رہ چکے ہیں ان کو ان کے دور کا ایک اچھا وزیراعلیٰ مانا جاتا ہے کیونکہ 1122 اور سکولوں میں سرکاری نصاب مفت تقسیم کرنا جیسے پروگرام انہوں نے چلائے جس سے پنجاب کے عوام آج بھی استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ ہمیں وہ لیڈر چاہیے جو ملک میں کام کرے نہ کہ صرف کرسیوں پر بیٹھ کر اپنے ٹشن پورے کرے۔ خدارا یہ الزام تراشیوں کا تماشا بند کریں اور کام کریں اور کام کرنے دیں۔ سیاسی رونا اگر اب بند نہ ہوا تو ملک خدا نخواستہ بہت بُرے حالات میں چلا جائے گا پہلے ہی ملکی حالات وینٹی لیٹر پر ہیں۔

مصنف کے بارے میں