'ہمارا نظریہ تبدیل نہیں ہو گا، بھارتی آرمی چیف کا بیان بے معنی ہے'

'ہمارا نظریہ تبدیل نہیں ہو گا، بھارتی آرمی چیف کا بیان بے معنی ہے'
کیپشن: خواہش ہے مشرقی اور مغربی سرحد پر امن و استحکام ہو اور اچھے تعلقات ہوں، وزیر خارجہ۔۔۔۔۔۔فائل فوٹو

ملتان: میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کرتار پور راہداری کو پوری دنیا میں سراہا گیا اور دونوں جانب سے اس پر آمادگی کا اظہار کیا گیا اور بھارت نے اپنے دو وزراء کو بھیجا۔ ہماری خواہش تھی کہ بھارتی وزیر خارجہ اور وزیراعلیٰ پنجاب بھی آتے لیکن یہ اچھی شروعات ہوئی ہے اس کو مثبت انداز میں لینا چاہیے اور اس سے تعلقات میں بہتری کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان اور ہماری حکومت کی خواہش ہے کہ خطے میں امن اور استحکام ہو کیونکہ امن ہو گا تو ان مسائل پر توجہ دیں گے جو آج حکومت کو دوچار ہیں۔ پاکستان کو معاشی اور روزگار کے مسائل ہیں، یہ مسئلے سرمایہ کاری سے حل ہوں گے اور سرمایہ کاری امن سے آئے گی۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ خواہش ہے مشرقی اور مغربی سرحد پر امن و استحکام ہو اور اچھے تعلقات ہوں۔بھارتی آرمی چیف کے پاکستان کے سیکولر ہونے سے متعلق بیان پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارتی فوج کے سربراہ کا بیان بے معنی ہے۔ پاکستان اسلامی مملکت ہے اور ایک نظریے کے تحت وجود میں آیا اور ان کے بیان سے ہمارا نظریہ تبدیل نہیں ہو گا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب کا علیحدہ صوبہ ہونا ہماری خواہش، ارادہ اور منشور کا حصہ ہے اسے عملی شکل دینے کے لیے کام ہو رہا ہے۔ کچھ قانونی رکاوٹیں ہیں اور آئینی ترامیم درکار ہیں اس کے لیے ہمارے پاس اتنی اکثریت نہیں کہ دو تہائی اکثریت سے ترمیم کریں۔ ہمیں اپوزیشن کا تعاون چاہیے اور اگر اپوزیشن کہتی ہے صوبہ ہونا چاہیے تو مل بیٹھیں اس کے لیے بھی کوشش کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں اعلیٰ سطح پر لوگوں کو سہولت دینے کے لیے جو اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں وہ فیصلہ کر لیا ہے جس کے تحت یہاں سیکریٹریٹ بنایا جائے اور ایسے سینئر افسر تعینات کیے جائیں جس سے عوام کے مسائل لاہور کی بجائے گھر کے قریب حل ہوں۔

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ جنوبی پنجاب کی پسماندگی اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ اس علاقے کے لیےعلیحدہ سالانہ ترقیاتی پروگرام مرتب کیا جائے۔ اگر موجودہ بجٹ دیکھیں تو زیادہ پیسہ جنوبی پنجاب سے دیگر اضلاع کی طرف خرچ ہوا جو ایک عدم توازن ہے اور ہم یہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔

ڈالر کی قدر پر بات کرتے ہوئے شاہ محمود کا کہنا تھا کہ ڈالر بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں اور کچھ قیاس آرائیاں ہیں اور ہمارے روپے کو مصنوعی طور پر ایک جگہ روک کر رکھا گیا تھا۔ مارکیٹ میکنزم میں ایک طریقہ تلاش کرنا ہوتا ہے اس کا اثر آیا ہے اور ہم نے دیکھنا ہے برآمدات میں اضافہ کیسے کیا جا سکتا ہے،جب برآمدات میں اضافہ ہو گا تو زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہ وگا لہٰذا کوشش کر رہے ہیں اور یہ مشکل فیصلے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں مسائل کا انبار ملا ہے اور حوصلے سے حل تلاش کر رہے ہیں۔ ہم بھی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور قوم کو بھی کرنا ہو گا جبکہ کوشش ہے کہ اس طبقے پر بوجھ ڈالا جائے جو بوجھ اٹھا سکتا ہے۔

علیمہ خان سے متعلق سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے بلا تفریق احتساب کی بات کی ہے جبکہ عدالتیں آزاد ہیں اور ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔ کسی شخصیت کو بلایا جاتا ہے تو اس کا فرض بنتا ہے وہ اپنا جواب دے۔ ہم قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آگے بڑھیں گے جبکہ کسی کو بے جا رعایت نہیں دی گئی اور نہ دی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ چاہتے ہیں کرپشن میں کمی ہو اور ملکی دولت جس طبقے نے لوٹی ہے اس سے حساب لیا جائے۔