امیر ِ شہر کو جا کے کوئی خبر کر دے

Shakeel Amjad Sadiq, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

ایک بادشاہ نے اعلان کر رکھا تھا کہ جو اچھی بات کہے گا اس کو چار سو دینار (سونے کے سکے) دیئے جائیں گے ایک دن بادشاہ رعایا کی دیکھ بھال کرنے نکلا اس نے دیکھا ایک نوے سال کی بوڑھی عورت زیتون کے پودے لگا رہی ہے۔
بادشاہ نے کہا تم پانچ دس سال میں مر جاؤ گی اور یہ درخت بیس سال بعد پھل دیں گے تو اتنی مشقت کرنے کا کیا فائدہ؟بوڑھی عورت نے جواباً کہا جو ہم نے پھل کھائے وہ ہمارے بڑوں نے لگائے تھے اور اب ہم لگا رہے ہیں تاکہ ہماری اولاد کھائے!
بادشاہ کو اس بوڑھی عورت کی بات پسند آئی حکم دیا اس کو چار سو دینار دے دیئے جائیں جب بوڑھی عورت کو دینار دیئے گئے وہ مسکرانے لگی بادشاہ نے پوچھا کیوں مسکرا رہی ہو؟
بوڑھی عورت نے کہا کہ زیتون کے درختوں نے بیس سال بعد پھل دینا تھا جبکہ مجھے میرا پھل ابھی مل گیا ہے!بادشاہ کو اس کی یہ بات بھی اچھی لگی اور حکم جاری کیا اس کو مزید چار سو دینار دیئے جائیں جب اس عورت کو مزید چار سو دینار دیئے گئے تو وہ پھر مسکرانے لگی!بادشاہ نے پوچھا اب کیوں مسکرائی؟
بوڑھی عورت نے کہا زیتون کا درخت پورے سال میں صرف ایک بار پھل دیتا ہے جبکہ میرے درخت نے دو بار پھل دے دیئے ہیں۔بادشاہ نے پھر حکم دیا اس کو مزید چار سو دینار دیئے جائیں یہ حکم دیتے ہی بادشاہ تیزی سے وہاں سے روانہ ہوگیا وزیر نے کہا حضور آپ جلدی سے کیوں نکل آئے؟
بادشاہ نے کہا اگر میں مزید اس عورت کے پاس رہتا تو میرا سارا خزانہ خالی ہوجاتا مگر عورت کی حکمت بھری باتیں ختم نہ ہوتیں۔ایک ہمارے حکمران جو زیتون کا پودا لگاتے ہیں نہ ہی ان کے کند ذہن میں کبھی کوئی بات،بہترین قول یا زندگی کو بدل دینے والی بات کی ہو۔انہوں نے جب بھی بات کی اپنے مفاد کی بات کی۔انہوں جب بھی بات کی سابق حکومتوں کو چور ،کرپٹ اور بے ایمان ثابت کرنے کی ہے۔حالانکہ یہ سارے کا سارا ٹولہ سابق حکومتوں میں بھی وزیر،مشیر اور کرتا دھرتا رہا ہے۔تاریخ اور آئینہ جھوٹ نہیں بولتے۔بس ہمیں بھول جانے کی عادت ہے۔تاریخ بتاتی ہے۔ہوا بازی کے وزیر، سرور خان ہیں 1985ء، 1988 اور 1990ء میں یہ پاکستان پیپلزپارٹی کے MPA منتخب ہوئے۔ 1997ء میںپاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے ہار گئے۔ 2004ء میں شوکت عزیز کی کابینہ میں محنت اور افرادی قوت کے وزیر تھے۔ اب کہتے ہیں کہ ہمارا تو کوئی قصور نہیں ملک تو پہلے والوں نے تباہ کیا تھا!خسرو بختیار صاحب اکنامک افیئرز کے وفاقی وزیر ہیں۔ 1997ء پاکستان مسلم لیگ (ن) میں تھے۔ 2002ء میں ق لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے بنے۔ شوکت عزیز کی کابینہ میں امور خارجہ کے وزیر مملکت تھے۔ 2013ء میں پھرپاکستان مسلم لیگ (ن)میں شامل ہو گئے! 2018ء میں PTI میں گھس گئے اب ان کا بھی یہی خیال ہو کہ ملک تو پہلے والوں نے اس حال تک پہنچایا۔صاحبزادہ محبوب سلطان بھی وفاقی وزیر ہیں۔2002ء اور 2008ء کا الیکشن ق لیگ کے ٹکٹ پر لڑا۔2013 ء کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار تھے۔2018ء میں PTI ان کی منزل مراد بن گئی اور ان کی خدمات کے صلے میں انہیں وفاقی وزارت عطا فرما دی گئی! ان کا بھی یہی خیال ہو گا کہ سارا ستیا ناس تو پہلے والوں نے کر رکھا تھا۔فواد چودھری جو سائنس ایند ٹیکنالوجی کی وزارت میں ہیں دیگر ممالک سیٹلائٹ کا ڈیٹا خرید کر (مگر اپنا سیٹلائٹ نہیں بناتے)۔ اس کی مدد سے عیدوں پر چاند چڑھاتے رہتے ہیں۔مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ میں تھے۔ پھر PPP پر بہار آئی تو اس کی شاخ پر جا بیٹھے۔ اب وہ PTI کے سدا بہار ملک الشعراء ہیں۔ ذرا پوچھ کر دیکھیے وہ آپ کو بتائیں گے کہ ساری خرابیاں پہلے والوں نے پیدا کی تھیں! انوار الحق قادری وفاقی وزیربرائے مذہبی امور ہیں۔
زرداری دور میں قادری صاحب زکوٰۃ و عشر کے وفاقی وزیر تھے۔ اتنے نظریاتی واقع ہوئے کہ PPP نے انہیں بغیر کسی محکمہ کے وزیر بھی بنائے رکھا اور وہ بد مزہ نہ ہوئے۔ ان کو بھی یقینا شرح صدر ہو گا کہ خرابی تو ساری پہلی والوں نے پیدا کی تھی! 
محمد میاں سومرو الیکشن والے سال PTI کا حصہ بنے۔اس وقت وفاقی وزیر ہیں۔وہ چیئرمین سینٹ قائم مقام وزیر اعظم اور صدر بھی رہ چکے اور مشرف دور میں گورنر سندھ۔ اس لیے وہ زیادہ بہتر طریقے سے بتا سکتے ہیں کہ ملک تو پہلے والوں نے تباہ کیا تھا،موجودہ حکومت کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔عمر ایوب وفاقی وزیر ہیں۔ 2002ء کا الیکشن ق لیگ کے ٹکٹ سے لڑا۔ شوکت عزیز کی کابینہ میں وزیر مملکت رہے۔ 2012ء میں ن لیگ میں چلے گئے۔ الیکشن سے چند ماہ پہلے PTI میں شامل ہو گئے۔ ایک صدر مملکت کے پوتے اور وزیر خارجہ کے صاحبزادے ہونے کے ناتے وہ بھی بتا سکتے ہیں کہ ملک پہلے والوں نے خراب کیا ہمارا کیا قصور ہے!سید فخر امام وفاقی وزیر ہیں۔سابق سپیکر اور قائد حزب اختلاف بھی رہ چکے۔ان کی اہلیہ نواز شریف دور میں وزیر خارجہ رہ چکیں۔ یہ بھی آپ کو بتا سکتے ہیں کہ ملک تو پہلے والوں نے خراب کیا ہمیں تو اقتدار میں آئے ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے ہم ستر سال کا گند دو سالوں میں کیسے صاف کر سکتے ہیں؟طارق بشیر چیمہ صاحب بھی وفاقی وزیر ہیں۔سیاسی سفر میں البتہ وہ PPP میں رہے، ق لیگ میں رہے۔بہاولپور کے ناظم رہے۔ایم پی اے رہے پنجاب کے وزیر خوراک و زراعت رہے۔2016ء میں ق لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے۔اب وہ بھی شاید کہتے ہوں گے کہ ہمیں تو دو سال ہوئے ہیں آئے ہوئے ملک تو پہلے والوں نے لوٹا!شیخ رشید 1985ء اور1988ء ، 1990ء ، 1993ء اور 1997ء کے انتخابات میں کامیابی ،نواز شریف کے دورمیں مشیراطلاعات و نشریات پھر وزیر صنعت وحرفت اضافی چارج سیاحت وثقافت۔ 2002ء میں پاکستان مسلم لیگ ق میں وزیر اطلاعات پھر وزیر ریلوے۔ 2013 ء میںایم این اے، موجودہ وزیر داخلہ۔ ان سے تو پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں کہ تباہی میں کس کا ہاتھ ہے۔ اعظم سواتی بھی وفاقی وزیر ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں بھی صاحب وفاقی وزیر تھے۔ باقی کی ساری داستان سے آپ واقف ہی ہوں گے۔ زبیدہ جلال، فروغ نسیم، فہمیدہ مرزا ،عبدالحفیظ شیخ جیسوں کی تو بات ہی کیا، ابھی تو مشیران اور وزرائے مملکت کی فہرست بھی باقی ہے!لیکن پھر بھی یہ بات تسلیم اور سر آنکھوں پر کہ پہلے والوں نے ملک لوٹ کھایا اور ان کا پھیلایا گند دو سال میں صاف نہیں ہو سکتا لیکن عالی جاہ یہ تو بتا دیجیے وہ پہلے والے تھے کون اور یہ جو کابینہ میں ہیں یہ کیا بعد والے ہیں؟بقول خوبصورت لہجے کے جدید شاعر ڈاکٹر صغیر احمد صغیر
امیر ِ شہر کو جا کے کوئی خبر کر دے
ترے سبب سے ہی سارا نگر پریشاں ہے

مصنف کے بارے میں