دلچسپ اور سبق آموز……!

دلچسپ اور سبق آموز……!

تحریک انصاف کے اہم راہنما فواد چودھری اپنے قائد جناب عمران خان کی تقلید میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو کب سے ایسے تنقید کا نشانہ بنائے چلے آرہے ہیں جیسے یہ ان کی گھر کی لونڈی ہو۔کچھ دن قبل تو جناب فواد چودھری نے انتہا ہی کر دی جب انھوں نے الیکشن کمیشن کے ممبران اور ان کے خاندانوں اور بچوں کو یہ کہہ کر کھلم کھلا دھمکی دی کہ ان کے ساتھ یہی سلسلہ جاری رہا تو الیکشن کمیشن کے ممبران اور ان کے خاندانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ الیکشن کمیشن حسب سابق جناب فواد چودھری کی اس دھمکی کو نظر آنداز بھی کر سکتا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر سمیت الیکشن کمیشن کے ممبران کب سے جناب عمران خان اور ان کی پارٹی کے دوسرے اہم راہنماوں کی تند و تیز تنقید کا نشانہ بنے چلے آرہے ہیں اور اس ضمن میں الیکشن کمیشن کی توہین کرنے کے الزام میں جناب عمران خان سمیت فواد چودھری اور اسد عمر کو توہین عدالت کے کیس کا سامنا بھی ہے۔ تاہم اس دفعہ معاملہ کچھ زیادہ سنجیدہ اور سنگین تھا کہ فواد چودھری نے الیکشن کمیشن کے ممبران کے ساتھ ان کے خاندانوں کو بھی خمیازہ بھگتنے کی دھمکی دے دی۔ چنانچہ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داری سمجھی کہ وہ اس معاملے کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نوٹس میں لائیں۔ اس طرح سیکرٹری الیکشن کمیشن کی تحریری درخواست پر اسلام آباد پولیس نے فوری کاروائی کرتے ہوئے اگلے دن (25جنوری کو) علی الصبح لاہور سے جناب فواد چودھری کو گرفتار کیا اور اسلام آبا د لے آئی جہاں جوڈیشنل مجسٹریٹ کی عدالت میں ان کے خلاف قائم مقدمے میں ان کی پیشیاں ہو رہی ہیں۔ انجام کار فواد چودھری کے خلاف قائم مقدمے میں کیا پیش رفت ہوتی ہے، ان کو سزا ملتی ہے یا بری ہو جاتے ہیں یہ بعد کی باتیں ہیں فی الحال ان کی گرفتاری کے حوالے سے ایک اور دل چسپ پہلو سامنے آیا ہے اس کا ذکر کرتے ہیں۔
جناب فواد چودھری کی گرفتاری کے حوالے سے جس پہلو کا ذکر کرنا مقصود ہے اس کا تعلق سابق 
وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کی حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی دو ویڈیو ز آیڈیوز سے جڑتا ہے یہ ویڈیوز آڈیوز فواد چودھری کے 25جنوری کو گرفتاری کے اگلے دو دنوں کے دوران سامنے آئی ہیں۔ ان میں پہلی ویڈیو آڈیو چودھری پرویز الٰہی کا میڈیا کے نمائندوں کے سامنے دیا جانے والا بیان ہے۔ اس میں وہ یہ کہتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں کہ میں کہہ کہہ کر تھک گیا تھا کہ خدا کے لیے ہمیں کام کرنے دیں۔ ن والے بھی یہی چاہتے تھے کہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے۔ ایک اور سال لگ (گزر) جاتا تو نون (مسلم لیگ ن) والوں کے کپڑے بھی نہ ملتے۔ خان صاحب کے ساتھ بیٹھنے والے تین چار بندوں کی وجہ سے کہ اسملبیاں توڑیں، اسمبلیاں توڑیں ایساہوا۔ ان میں ایک (فواد چودھری) پھڑا (پکڑا) گیا ہے۔ افسوس ہے لیکن یہ پہلے پکڑا جاتا تو ہمارا کام ٹھیک ہو جاناتھا۔ 
آڈیو میں چودھری پرویز الٰہی کسی اور (اپنے کسی قریبی بااعتماد شخص) سے فون پر گفتگو کرتے سنائی دیتے ہیں وہ اپنی صاف پہچانی جانے والی آواز اور ٹھیٹ گجراتی لب و لہجے اور پنجابی زبان میں حال احوال پوچھنے کے بعد گالی دے کر یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ اس موٹو کو لیٹ پھڑیا ہے، آج صبح 5بجے۔ ایک مہینہ پہلے پھڑ لیتے تو اس (گالی دے کر) موٹے کو، تو اسمبلیاں بچ جاتیں۔ ساڈے تے سارا زور لگایا ہویا نیئں (اس موٹے یعنی فواد کو آج صبح 5بجے پکڑا ہے۔ لیٹ پکڑا ہے، ایک مہینہ پہلے پکڑ لیتے اس کو تو اسمبلیاں بچ جاتیں) 
چودھری پرویز الٰہی کے ویڈیوز آڈیوز میں بولے جانے والے یہ جملے جہاں دلچسپ اور مزے دار ہیں وہاں اس حقیقت کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور اپنی مطلب براری کے لیے سیاست دان سب کچھ کرنے اور کہنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کو جہاں پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا افسوس ہے وہاں اس بات کا دکھ بھی ہے کہ ان کے مرضی کے خلاف ان سے اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس گورنر کو بھجوائی گئی۔ وہ تحریک انصاف کے قائدین کو یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ میں آپ لوگوں کو اسمبلیوں کی تحلیل کے نتائج سے آگاہ کر رہا تھا کہ اسمبلیاں توڑنے سے ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور ہمیں اس طرح کے نتائج بھگتنے پڑیں گے لیکن آپ لوگوں نے اسمبلیاں توڑنے کی رٹ لگائی رکھی۔ اب جو ہو رہا ہے اس کو بھگتیں۔
چودھری پرویز الٰہی یہ سب کچھ کہنے یا احساس دلانے میں حق بجانب سمجھے جا سکتے ہیں کہ ان جیسے تجربہ کار اور کائیاں سیاست دان سے اسی طرح کے رد عمل کی توقع کی جا سکتی ہے۔انہیں صاف نظر آرہا تھا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی صور ت میں ان کی حکومت ختم ہو گی تو نگران حکومت جو بنے گی وہ بہرکیف ان کی تائید یافتہ نہیں ہوگی۔ وہ اس کے رحم و کرم پر ہونگے اور ان کے ساتھ وہی سلوگ ہو گا جو آج کل ہو رہا ہے۔ اس طرح انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم سیاست میں فیصلے کرتے ہوئے ضروری نہیں کہ آپ کا ہر فیصلہ درست ہو۔اس میں دوسروں کوپچھاڑنے یا خود پٹ جانے کے برابر مواقع ہوتے ہیں۔ فی الحال یہی دکھائی دے رہا ہے کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے فیصلے سے چودھری پرویز الٰہی کی جہاں حکومت ختم ہوئی ہے وہاں تحریک انصاف کے قائدین کو بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اگر پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی حکومت قائم ہوتی تو کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ فواد چودھری کی اس طرح گرفتاری عمل میں آسکتی تھی؟یقینا ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔خیر اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور پنجاب میں نگران حکومت اور نگران کابینہ کا تقرر عمل میں آچکا ہے۔
نگران کابینہ کے حوالے سے ذاتی طور اس بات کی خوشی ہے کہ ہمارے ایک مربی ّ، مہربان اور مختصر حلقہ احباب کے اہم ساتھی جناب ڈاکٹر جمال ناصر کوپنجاب کی نگران کابینہ میں بطور وزیر صحت ذمہ داریاں سنبھالنے کا موقع ملا ہے۔ ڈاکٹر جمال ناصر کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔سماجی و معاشرتی بہبود اور خدمت خلق کے شعبوں میں ان کی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ان کا یہ منصب سنبھالنا خوش آئند ہے اور امید واثق ہے کہ صحت عامہ اور سماجی بہبود کے شعبوں میں آنے والے دنوں میں بہت کچھ بہتری سامنے آئے گی۔ ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں۔