پانامہ اور اقامہ

پانامہ اور اقامہ

سید کوثر عباس کاظمی

پانامہ کا قصہ اقامہ پر ختم ہوا تو ملک سے کرپشن کے خاتمے کی امید لگائے معصوم عوام حیران رہ گئے .ایک عرصہ تک پانامہ ہر محفل کا موضوع گفتگو بنا رہا پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک یہی تاثر دیا جاتا رہا جیسے اس کے سوا ملک کا کوئی اور مسلۂ ہی نہیں اور جیسے ہی اس کا فیصلہ آئے گا ملک سے کرپشن کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا۔ اعلی عدلیہ بھی یہی کہتی رہی کہ ایسا فیصلہ دیں گے جو صدیوں یاد رکھا جائے گا .پھر فیصلہ آیا لیکن شدت سے اس کے انتظار میں بیٹھے عوام کی سمجھ میں کچھ نا آیا کیوں کے پہلے تو انھیں بہت وقت لگا پانامہ سمجھنے میں اور جب فیصلہ آیا تو اس میں پانامہ کی گونج کم اور اقامہ کا دھماکہ زیادہ تھا۔
پھر اہل فکر یہ سوچنے پر مجبور ھو گئے کے اقامہ پانامہ کو بنیاد بنا کر ایک ایسے شخص کو ہٹانے کی کوشیش تو نہیں کی جا رہی جو سیاسی طور پر ووٹ کے زریعے ناقابل تسخیر ہے اور یہ کے یہ سارا دباؤ جو موجودہ حالات میں نظر آ رہا ہے ایک فرد پر ہے یا سول بالا دستی کے خاتمے کے لیے اور اس بات کو تقویت اس وقت ملی جب لاہور کے حلقہ این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں کچھ نادیدہ قوتوں کی جانب سے سیاست میں پھر مذہبی انتہا پسندی کو اپنے فوائد کے لیے استعمال کیا گیا
ایسے حالات میں یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کے ان تمام عوامل کے پیچھے وہ ہی غیر جمہوری طاقتیں کارفرما ہیں جنہوں نے 70 سالوں سے کسی منتخب وزیر اعظم کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی۔ ان غیر جمہوری قوتوں کے غیر جمہوری اقدام کو ہر دور میں تھوڑی بہت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا مگر بالآخر ان کی طاقت جیتتی رہی اور جمہوریت ہارتی رہی۔
جمہوریت کے ہارنے میں قصور بھی ہمیشہ جمہوری طاقتوں کا رہا ہے جب انھیں وقت اور موقع ملتا ہے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ کرنے کا اپنے روٹی کپڑا مکان اور روزگار کے وعدے جو ووٹ کے حصول کے لیے کئے گئے تھے پورے کرنے کا تو ہمیشہ عوامی مفاد کو ذاتی و پارٹی مفاد پر قربان کر دیا جاتا ہے اور عوام کا اعتبار جمہوریت سے اٹھ جاتا ہے اور آوازیں بلند ہونا شروع ہو جاتی ہیں کے آمرانہ دور عوام کے لیے بہتر تھا
پھر زرداری دور ہو یا میاں نواز شریف کا لوگ آٹا چینی دال چاول کے بھاؤ کا موازنہ مشرف دور سے کرتے نظر آتے ہیں کہ کتنا سستا تھا مشرف کا دور .اس آمرانہ دور سے ملک کو کتنا نقصان پہنچا اس کی خبر تک نہیں سادہ عوام کو اور اس میں بھی قصور جمہوری طاقتوں کا ہے کیوںکہ روٹی کپڑا مکان اور روزگار کا نعرہ صرف ووٹ کے حصول کے لیے لگا اور عوام کی بنیادی ضروریات کی تکمیل اور فلاح کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ایسی صورت حال میں غریب عوام جمہوریت اور آمریت کا موازنہ آٹا دال چاول اور چینی سے نا کریں تو اور کیا کریں
موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کے ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں اور اپنی ماضی کی غلطیوں کو نا صرف تسلیم کریں بلکہ ان پر قوم سے معافی مانگتے ہوۓ غیر جمہوری طاقتوں کا راستہ مل کر روکیں ورنہ اگلے ستر سالوں میں بھی کوئی منتخب وزیر اعظم اپنی مدت پورے نہیں کر سکے گا۔

نوٹ: سید کوثر کاظمی نیو نیوز کے برطانیہ اور یورپ کے بیوروچیف ہیں۔ وہ تحقیقاتی صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور 20 برس سے  اردو زبان کے مختلف صحافتی اداروں کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ سید کوثر کاظمی کیساتھ رابطے کیلئے ای میل ایڈریس اور  ٹوئٹر ہینڈل مندرجہ ذیل ہیں۔

ٹوئٹر ہینڈل: @syedkousarkazmi

ای میل ایڈریس:  kousar.kazmi@neonetwork.pk

مصنف کے بارے میں