جو کرو گے وہ بھرو گے تم بھی

جو کرو گے وہ بھرو گے تم بھی

اگر آپ تندرست وتوانا رہنا چاہتے ہیں، دل دماغ درست کام کرتا رہے تو صبح اٹھ کر شہ سرخیاں اخبار کی دیکھنے سے احتراز فرمائیں۔ ’یہ توڑ دو، وہ پھوڑ دو۔‘ پاکستان کے گلے میں عمرانی سیاست ایسی چھچھوندر بن کر پھنسی ہے کہ معیشت کو الٹیاں لگی ہیں۔ آنکھیں ابل کر باہر کو آ رہی ہیں۔ مسلسل اسمبلیاں جھٹکے جھکولے کھا رہی ہیں۔ اسمبلی نہ ہوئی گملا ہوگیا، اٹھاؤ توڑ دو، جب تک خان صاحب کو اقتدار کی کرسی نہ مل جائے۔ مقصود صرف ملک کو مسلسل متزلزل رکھنا ہے۔ سیاسی بے یقینی، اکھاڑ پچھاڑ معیشت کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ گھر کے اندر گولہ باری چل رہی ہو۔ دھینگامشتی کا سماں ہو تو مہمان کان لپیٹ کر نکل جاتے ہیں۔ باہر والے آنے سے ڈرتے ہیں۔ پاکستان دنیابھر میں تماشا بنا ہوا ہے، ’میں نہ مانوں‘ سرکار کی وجہ سے۔ اس سیاسی جوار بھاٹے میں پاکستان میں سرمایہ کاری کون کرے اور کیوں کرے۔ عدم استحکام جان کا لاگو ہے۔ عدلیہ کا دستِ شفقت ’افراتفری سرکار‘ کے سر پر آج بھی ہے۔ ان حالات میں انتخابات کی رٹ؟ خالی جیب پر آئے دن انتخابات کا شوق کیونکر پورا کیا جاسکتا ہے؟
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ ایسی خوش آیند تو نہیں۔ سچ پوچھیں تو مروجہ جمہوریت پیسے کے اعتبار سے بہت بڑی عیاشی (لگژری) ہے جس کے رئیس ممالک ہی متحمل ہوسکتے ہیں! عوام کا حال تو پوچھ دیکھیں! ایک کروڑ 21 لاکھ متاثرینِ سیلاب شدید ترین غربت کا شکار ہیں۔ ان کی خبرگیری کی فرصت کسے ہے۔ یکسوئی دلجمعی سے کام کون کرے کیسے کرے؟ پاکستان، اوپر دیکھیں تو سموگ کا دوردورہ ہے۔ برسرِزمین شہروں میں کنٹینروں کے ہاتھوں گاڑی والوں نے موٹرسائیکل اختیار کرلیے وقت اور پیسے کی کفایت کے لیے! بلڈ پریشر کے مریضوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اعصابی تناؤ، نفسیاتی دباؤ کا دور دورہ ہے۔ خان صاحب پلستر اتارکر ذرا ملک سے باہر ہو آئیں تاکہ ماحولیات میں سکون لوٹ آئے! آسیب کا سایہ چھٹے۔ سیاست خاموش ہو اور کارِ مملکت چل پائے۔ یوں بھی آڈیو لیکس کے ہاتھوں جو گٹر کے منہ کھل گئے ہیں، پورا ملک متعفن ہوگیا۔ ’جھوٹ کی بدبو سے فرشتے ایک میل دور چلے جاتے ہیں۔‘ (ترمذی)
 مگر ہر ایک میل پر بدبو کا نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہوگا۔ رحمت اور حفاظت بلاسبب تو ہم سے اٹھائی نہیں گئی۔ اخلاق وکردار کی گھنگھور گھٹائیں ملک کا مقدر تاریک کیے دے رہی ہیں۔ جب حکمرانی کے طلب گاروں کا یہ عالم ہو کہ تن ہمہ داغ داغ شد تو ملکی وجود بھی اسی کا عکاس ہوگا۔ توشہ خانوں سے لے کر کردار کا ہمہ پہلو بگاڑ۔ ہم حیران ہیں کہ مال کی پاکیزگی کا فہم وادراک تو کفار مکہ کے پاس بھی تھا۔ جبھی تو کفار نے خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے وقت یہ اعلان کردیا تھا کہ کعبہ کی تعمیر میں پاک اور حلال کمائی کے سوا کچھ استعمال نہ ہوگا۔ سودخوروں، طوائفوں، گانے بجانے والوں، ظلم سے حاصل کردہ دولت کی مکمل ممانعت کر دی گئی تھی۔ کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ یہ کہتا کہ اس سے آرٹسٹوں کی حق تلفی، دل شکنی ہوگی! سرزمین پاکستان، جس کا مخفف ’پاک‘ ہے، جو خون ِشہداء سے وجود میں آتے ہوئے پاک ہوئی، آج کرپشن کا گہوارہ ہے، ہم دنیا کے 180 ملکوں میں اس دلدل میں دھنسنے میں 140 درجے پر گرے پڑے ہیں!
ہجرت کی نیت سے رمضان کی شب آنے والے قافلے سجدے گزارتے سرحد پار آئے، جب جبریل امین فرشتوں کے ہمراہ زمین پر رحمت لیے اتر رہے تھے۔ پاکستان کی بنیاد رنگ، نسل، وطنیت نہ تھی۔ یہ تو ’مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘ سے خوفزدہ گورے نے ہمیں وطنیت کا اسیر کیا۔ ورنہ اسلام کی آفاقیت، مسلسل بڑھتی پھیلتی سرحدیں کفر کے لیے پیامِ موت لاتے ہیں! آج سیاسی سطح پر اسلام کا ذکر بھی گوارا نہیں!
اللہ خیر کرے امریکا پھر ہمیں چکنی چپڑی لگا رہا ہے۔ افغانستان سے نکل بھاگتے ہوئے ہم پر سخت غضب ناک تھا، پاکستان کی قربانیاں بھلاکر۔ امریکی کردار کی منافقت دیکھنی ہوتو اس بتِ کافر ادا پر مر مٹنے والے، خدمت گزاری، مخبری کرنے والے ان افغانوں کا حال دیکھ لیں۔ اپنوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے والے امریکا کے یہ بہی خواہ 8 ہزار کی تعداد میں آج بھی امریکا برطانیہ کے وعدوں کے انتظار میں مر مر کر جی رہے ہیں۔ سوا سال بعد بھی کوئی شنوائی نہیں! یہ جو جڑواں شہروں میں ان کی یلغار ہے وہ یہی امریکی وفادار افغان ہیں۔ آج بھی ڈالروں کی خاطر ان کی خدمت کرسکتے ہیں۔ اللہ خیر کرے! امریکا ہمیں ازسرنو دانہ ڈال رہا ہے، ہماری سیکورٹی کے لیے۔ حالیہ دھماکوں، حملوں پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے ڈالر دکھا کر پرچا رہا ہے۔ 20 کروڑ ڈالر جمہوریت کے فروغ کے لیے دے گا۔ کہیں انہی پیسوں سے عمران خان کا پلستر تو نہیں اتارا جائے گا؟ نیز یہ بھی کہ یہ صنفی مساوات کے لیے (یعنی صنفی انتشار) استعمال کیا جائے گا۔ یہ خدانخواستہ 2001ء والے ڈالر تو دوبارہ حملہ آور نہیں ہونے چلے؟ ایسا ہوا تو ٹھکانا پاکستان اور نشانہ افغانستان ہوگا۔ خدانخواستہ۔ مشتری ہوشیار باش! خصوصاً اس لیے بھی کہ کانگریس سے 1.7 کھرب ڈالر کا فنڈنگ بل منظور ہوا ہے۔ پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کرنے کو مطلع ابر آلود دیکھا جاسکتا ہے۔ اگرچہ امریکا خود اور بڑی طاقتیں سبھی اللہ کی شدید ہمہ پہلو پکڑ کی زد میں ہیں۔ چین تباہ کن کورونا کی لپیٹ میں ہے۔ امریکا پر برفانی سائیکلون بم برس رہے ہیں۔ 17 لاکھ گھر/ کاروبار بغیر بجلی کے بیٹھے ہیں۔ برف کی بمباری سے امریکیوں کے مطابق جنگ زدہ علاقے کی کیفیت ہے۔ یورپ الگ بجلی کی کمی اور ایسے ہی شدید موسمی تھپیڑوں کی زد میں ہے۔ یوکرین جنگ کے اثرات پورے یورپ، امریکا تک پر ہیں۔ روس کمبل ہونے گیا تھا مگر اب جنگ خود اسے شکنجے میں کس چکی ہے۔ اسرائیل پریشان بیٹھا ہے۔ کچھ قطر میں بے عزتی کروائی۔ متحدہ عرب امارات نے بھی فلسطینیوں کے لیے آنکھیں دکھاکر اس کے خواب سہانے چکناچور کردیے۔ امریکا میں پولٹری پر فلو کی مار نے گوشت انڈوں کا بحران کھڑا کیا۔ اس کے اثرات بھی یورپ تک گئے۔ پر کان پر جوں نہیں رینگتی۔ رہا امریکا کا ہم سے محبت اور ہمدردی کا پیمانہ تو وہ افغانستان نہیں بھارت کے حوالے سے دیکھا جائے گا۔ امریکا نے بھارت کا نام مذہبی آزادی والی بلیک لسٹ سے نکال دیا جس پر خود امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی بھی چلا اٹھا۔ سنگین مذہبی انتہاپسندی کا مجرم بھارت۔ یو این اور مغرب کو ہندو تنظیموں کا دہشت گردی کے لیے 159 ملین ڈالر جمع کرکے نفرت انگیزی پر جھونکنا نظر نہیں آتا۔ ایف اے ٹی ایف ہمیں فٹافٹ دہشت گردی اور سہولت کاری کا مجرم ٹھہرانے پر کمربستہ رہتی ہے!
اب مغرب افغانستان پر نئی مرثیہ خوانی کے چکر میں ہے۔ کابل میں افغان لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کا مسئلہ! ان کے تعلیمی حقوق! سردی کی شدت اور عوام کی مالی ضروریات سے آنکھیں بند کیے ان کا پیسہ خود دبائے بیٹھے ہیں اربوں ڈالر۔ مگر سارا غم خالی پیٹ افغانوں کی کچھ بگڑی تگڑی ’فی سبیل الطاغوت فساد‘ لڑکیوں اور این جی اوز کی عورتوں کا ہے۔ ان کی تعداد دیکھنا چاہیں تو کابل میں مظاہرہ ملاحظہ ہو۔ دو درجن لڑکیوں نے مظاہرہ کیا جس کی خبر بنانے کی دو دو درجن سے زیادہ میڈیا اور اس سے بہت زیادہ سیکورٹی اہل کار موجود تھے۔
جنگ زدہ افغانستان جسے روس امریکا نے جنگوں سے ادھیڑ ڈالا، پیسہ اشرف غنی اور اس کے گماشتے گاڑیاں اور ہیلی کاپٹر بھر کر لے دوڑے، امریکا نے ظالمانہ اربوں ڈالر ضبط کرلیا۔ کیا ترجیح ِاول چند لڑکیوں کی یونیورسٹیوں کی تعلیم ہے یا عوام الناس کی خوراک، صحت، طبی ضروریات، رہائش، روزگار کا انتظام؟ یہ تو معجزہ ہے کہ پوری دنیا کی ہمہ نوع امداد سے محرومی اور ان سے ٹکہ لیے بغیر سوا سال خیریت سے گزر گیا۔ ہم ان سے زیادہ برے معاشی حالات سے دوچار ہیں! امریکا میں مخلوط تعلیم، ملازمت، عورت کے لیے ریکارڈ توڑ ہراسانی اور عورت کی لٹی پٹی عزت کے پرخچے اڑانے کے اعداد پیش کر رہی ہے۔ افغانستان انہیں اس پر بھاشن دینے یا عار دلانے پر نہیں کمربستہ تو افغانستان کی محفوظ ومامون باعزت عورت پر وقار تقدس سے گھر بیٹھی حفاظت کے حصار میں، دنیا کی آنکھوں میں کیوں کھٹک رہی ہے؟ خود پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے نام پر پیسے کا کھاؤ، والدین کا معاشی استحصال اور لڑکیوں کا عدم تحفظ بھی محل نظر ہے۔ صبح سے شام تک کے ٹائم ٹیبل قصداً ایسے بنائے جانے کی شکایت ہے کہ دو کلاسیں صبح اوردو شام میں ہوں گی۔ درمیانی وقت مل جل کر جہاں مرضی یونیورسٹیوں میں گزارو۔ صلائے عام ہے! تعلیمی معیار کی گراوٹ ہی نہیں، اخلاقی معیار اور حیا بھی دگرگوں ہے۔ (مثلاً اعلیٰ تعلیم کے اعلیٰ ادارے قائداعظم یونیورسٹی میں لڑکے لڑکیوں نے سیلاب زدگان کے چندے کے لیے میوزیکل کنسرٹ مچایا تھا!) 
افغانستان اسلام کی حکمرانی کے لیے 20 سال قربانیاں دیتا اس ’اعلیٰ تعلیم‘ کو رائج کرے؟ افغانستان کو دنیا بھر نے پہلے بموں سے نشانے پر رکھا 20 سال۔ اف کسی نے نہ کی۔ انہیں ہر مدد اور ہمدردی سے محروم رکھا۔ اب کس منہ سے انہیں روکنے ٹوکنے، بھاشن دینے چلے ہو؟ جو اعلیٰ تعلیم کی طلب گار ہیں، امریکا ایک اور C-16 بھیج کر انہیں لے جائے اور ملا لائیں تیار کرنے کی یونیورسٹی کھول لے۔ نہ چھیڑ ملنگاں نوں! بمشکل تو بچ کر نکلے ہو! اپنی خیر مناؤ! پاکستان ہمسایہ نہیں بدل سکتا۔ اب 20 سالہ تلافیئ مافات کا وقت ہے۔ امریکی تسلط سے آزاد خارجہ پالیسی کے تحت افغانستان سے دوطرفہ برادرانہ، خیرخواہانہ تعلقات میں ہمارا بھلا ہے۔ امریکا کی خاطر ہم نے بہتیری بلائیں اور اللہ کا بے پناہ غضب مول لیا۔ مزید کی کیا گنجائش؟ اب پھوٹ کا عذاب سہہ رہے ہیں زلزلوں سیلاب کے بعد۔
وقت سے بچ نہ سکو گے تم بھی
جو کرو گے وہ بھرو گے تم بھی

مصنف کے بارے میں