خچروں پر سامان لے جانے والی بھارتی آرمی بھلا چین کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے

خچروں پر سامان لے جانے والی بھارتی آرمی بھلا چین کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے

 نئی دہلی: چین اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی پر انڈیا کے وزیر دفاع کے بیان کو لے کر دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کے اس بیان کا زمینی حقائق سے کچھ لینا دینا نہیں ہے صرف جارحیت پر مبنی ہے۔ جب چین نے کہا کہ انڈیا کو 1962 کی جنگ سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے تو جواب میں بھارتی وزیر دفاع ارون جیٹلی نے بھی بڑا منہ کھول کر کہہ دیا کہ اب بھارت 1962 والا بھارت نہیں ہے۔

بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق، انڈيا کے معروف دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی نے کہا کہ 'مجھے سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ ارون جیٹلی کس طرح یہ بات کہہ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 1962 کے بعد سے انڈیا نے بہت ترقی کی ہے۔ فوجی طاقت کے معاملے میں بھی بھارت کافی مضبوط ہوا ہے لیکن چین کے مقابلے میں تو بھارت کچھ بھی نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ چین اور بھارت کے مابین اس سرحدی علاقے کو لے کر موازنہ کرنا مناسب نہیں کیونکہ چین کا تبت اور اس پورے علاقے میں ترقیاتی کام انڈیا کے مقابلے میں 100 گنا زیادہ ہے۔ چین اپنے ٹھکانوں تک ریلوے، ہیلی پیڈ، ایئرفيلڈ کے ذریعے آسانی سے پہنچ سکتا ہے۔ چین تو ایک ہفتے میں وہاں ریل سے پہنچ سکتا ہے۔

دوسری جانب انڈیا نے 72 سڑکیں بنانے کے منصوبے ناکام ہو گئے کیونکہ صرف آٹھ یا دس سڑکیں ہی بن سکی ہیں۔ اس صورت میں میری سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی ہے کہ جیٹلی صاحب کہہ کیا رہے ہیں؟

بھارت کا چین کو دھمکی دینا کسی صورت بھی دانشمندانہ نہیں ہے بلکہ بھارت کو اپنی صلاحیت دیکھتے ہوئے بات کرنی چاہیے صرف فوجی افسروں کے بیانات کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔

آرمی چیف بپن راوت نے بھی ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بھارت ڈھائی فرنٹ پر لڑ سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انڈیا چین، پاکستان اور مقامی باغیوں کے ساتھ لڑ سکتا ہے۔

’یہ فوجی سربراہ کا ایک سیاسی بیان ہے۔ یہ بیان انڈيا کے لیے ہے جس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ موجودہ کشیدگی کے حوالے سے شاید پردے کے پیچھے اس موضوع پر بات ہو رہی ہو گی کہ اسے ختم کیا جائے کیونکہ یہی انڈیا کے مفاد میں ہے۔ ‘

چین کے ساتھ تصادم مول لینا انڈیا کے لیے کافی مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔

انڈیا کی جو فوجی صلاحیت ہے اس حساب سے وہ چین کے سامنے کہیں نہیں ٹكتا ہے۔ حال ہی میں انڈین فضائیہ کے چیف دھنووا نے جو انٹرویو دیا تھا اس میں انھوں نے کہا ہے کہ انڈيا کے پاس 'ٹو فرنٹ وار' یعنی دو محاذوں پر جنگ کے لیے ہوائی جہازوں کی تعداد کافی نہیں ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ دھنووا نے بری فوج کے سربراہ بپن راوت سے بالکل الٹی بات کہی ہے۔ اگر صورت حال بگڑتی ہے تو انڈيا کا حال برا ہی ہوگا۔ بھارت چین کا مقابلہ بہت مشکل سے کر پائے گا۔

بھارت کے پاس نہ ایئركرافٹ ہیں، نہ ہیلی کاپٹر اور ہی نہ اس علاقے تک رسائی حاصل ہے۔ وہاں نہ تو کوئی میزائل رجمنٹ ہے اور نہ ہی کوئی ٹینک ہے۔ اخباروں میں ایک اور رپورٹ آئی ہے کہ چین 38 ٹن کے ٹینک کا تجربہ کرنے والا ہے۔

یہ ٹیسٹ اس علاقے میں ہو رہا ہے جہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلاف ہے۔ چین جو ہائی وے بنا رہا ہے اس ہائی وے کو -40 کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین اس پر 40 ٹن کا ٹینک چلا سکتا ہے۔

اس علاقے میں انڈیا کا تو نام و نشان ہی نہیں ہے۔ یہاں سڑکیں بھی نہیں ہیں۔ انڈین آرمی کے لیے آج بھی وہاں اشیا کی فراہمی خچّر کے ذریعے ہوتی ہے یا پھر ایئر ڈراپ ہوتا ہے۔ تو جیٹلی کس طرح کہہ رہے ہیں کہ وہ چین کا مقابلہ کر لیں گے؟

مصنف کے بارے میں