ایف بی آر تمام حربے استعمال کرنے کے باوجود ٹیکس وصولی کا سالانہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام

 ایف بی آر تمام حربے استعمال کرنے کے باوجود ٹیکس وصولی کا سالانہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام

اسلام آباد:  اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر خالد اقبال ملک نے کہا کہ تمام حربے استعمال کرنے کے باوجود محکمہ ٹیکس 30جون 2017تک ٹیکس وصولی کا سالانہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے جو باعث تشویش ہے کیونکہ اس سے معیشت کیلئے مزید مسائل پیدا ہوں گے.

پارلیمنٹ نے 2016-17کیلئے ٹیکس وصولی کا ہدف 3.621کھرب روپے منظور کیا تھا جبکہ وفاقی وزیر خزانہ نے اس میں 100ارب روپے کی کمی کرتے ہوئے 3.521کھرب روپے کا نظرثانی شدہ ہدف مقرر کیا تھا لیکن 30جون تک ایف بی آر نے 3.330کھرب روپے بطور ٹیکس وصول کئے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت ٹیکس وصولی کا نظرثانی شدہ سالانہ ہدف بھی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے، وفاقی حکومت کی طرف سے اضافی ٹیکسوں کے نفاذ اور پیٹرولیم مصنوعات پر بھاری سیلز ٹیکس عائد کرنے کے باوجود ٹیکس وصولی کے سالانہ ہدف میں ناکامی اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان کا موجودہ ٹیکس نظام کاروباری سرگرمیوں کے فروغ اور معیشت کی ترقی میں موثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔

بروز ہفتہ خالد اقبال ملک نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ محکمہ ٹیکس وصولی کے اہداف کو بہتر انداز میں پیش کرنے کیلئے ہر سال تاجر برادری کے اربوں روپے کے ٹیکس ریفنڈز روکے رکھتا ہے جو افسوسناک ہے، اس وقت بھی تاجر برادری کے تقریبا 300ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈز محکمہ ٹیکس کے پاس پھنسے ہوئے ہیں جس وجہ سے برآمدکنندگان کو متعدد مسائل کا سامنا ہے،ایف بی آر سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام رکے ہوئے ٹیکس ریفنڈز کو فوری طور پر کلیئر کرے جس سے برآمدات کو فروغ دینے میں سہولت ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکسوں کی بھاری شرح اور ٹیکسوں کی زیادہ تعداد ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے لہذا انہوں نے مطالبہ کیا کہ محکمہ ٹیکس ریٹس اور ٹیکسوں کی تعداد کو کم کرنے پر غور کرے جس سے ٹیکس ادائیگی کی حوصلہ افزائی ہو گی اور ٹیکس ریونیو میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکس اتھارٹی موجودہ ٹیکس دہندگان پر اضافی بوجھ ڈالنے کی بجائے ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے کی کوشش کرے جس سے معیشت کیلئے زیادہ فائدہ مند نتائج پیدا ہوں گے۔

خالد اقبال ملک نے کہا کہ موجودہ ٹیکس نظام کافی پیچیدہ ہے جو سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور معیشت کے فروغ میں معاون ثابت نہیں ہو رہا لہذا انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ٹیکس اتھارٹی نجی شعبے کی مشاورت سے موجودہ ٹیکس نظام میں انقلابی اصلاحات لانے کی کوشش کرے اور اس کو عام ٹیکس دہندہ کیلئے آسان و سہل بنائے تا کہ لوگ خوشی خوشی ٹیکس ادا کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک کاروبار دوستانہ ٹیکس نظام تشکیل دے کر ہی معیشت کو تیز رفتار ترقی کے راستے پر ڈالا جا سکتا ہے۔

مصنف کے بارے میں