سپر ٹیکس کی بدولت 25 ارب روپے ریکور کیےگئے، سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بریفنگ

سپر ٹیکس کی بدولت 25 ارب روپے ریکور کیےگئے، سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بریفنگ

اسلام آباد:  سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں فنانس بل 2017 میں انکم ٹیکس کے متعلق تجاویز کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سپر ٹیکس پچھلے سال فنانس بل میں شامل کیا گیا تھا جس کی بدولت 25 ارب روپے ریکور کیے گئے تھے ۔ اس کو مزید ایک سال کیلئے بڑھایا جائے ۔ سپر ٹیکس پانچ سو ملین روپے منافع کمانے والی کمپنیوں پر لگایا جاتا ہے ۔ بنکوں سے چار فیصد اور دیگر کمپنیوں سے تین فیصد وصول کیا جاتا تھا ۔ جس پر اراکین کمیٹی نے کہا کہ اس کی مدت ایک سال تھی اس کو اب ختم ہونا چاہیے ۔

سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ حکومت ایزی منی کے حصول کی طرف چل پڑی ہے ۔ کوئی اور مقصد نہیں ہے اور ایف بی آر کو جو کام کرناچاہیے وہ نہیں کر رہے ایک بکرے کو چھ چھ مرتبہ ذبح کرنے کے مترادف ہے ۔ کمیٹی نے متفقہ طورپر تجویز مسترد کر دی ۔

ایف بی آر کے حکام نے کہا کہ ڈویلپر کے ڈیزائن منظور ہونے پر پانچ فیصد ٹیکس وصول کیا جاتا تھا ۔ اور پچھلے سال 25 ارب کا تخمینہ لگایا گیا تھا مگر 11 کروڑ روپے ریکور ہوئے اس لئے اس ٹیکس کو ختم کر دیتے ہیں ۔ فنانس بل میں فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے اخراجات کو پانچ فیصد سے دس فیصد کلیم کرنے کی تجویز کو بھی کمیٹی نے مسترد کر دیا ۔

قائمہ کمیٹی نے ایک ملین آمدن والوں کے تعلیمی الائونس کی مد کو اب 1.5 ملین تک بڑھانے کی منظوری دے دی ۔ گیس تلاش کرنے والی کمپنیوں کو 2017 اور آگے کیلئے ففتھ شیڈول میں ڈالنے کی بھی منظوری دے دی گئی ۔ قائمہ کمیٹی نے کمپنیوں کے منافع پر ایک فیصد ٹیکس وصول کرنے کی تجویز کو 1.25 تک بڑھانے کی تجویز منظور کر لی ۔ پچھلے سال ایک فیصد ریکوری پر 61 ارب روپے اکھٹے ہوئے تھے ۔

ایف بی آر کو یہ بھی اختیار دیا گیا کہ آزاد جموں و کشمیر و گلگت بلتستان کیلئے بھی ٹیکس جمع کر کے فراہم کر سکتے ہیں ۔ پہلے صرف کشمیر کیلئے اپنی حدود میں آنے والوں سے ٹیکس وصول کرتے تھے ۔ قا ئمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں انکم ٹیکس کے متعلق ابتدائی 35 تجاویز کا جائزہ لیا گیا ۔

کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز الیاس احمد بلور، محمد محسن خان لغاری، عائشہ رضافاروق ، سعود مجید ، محسن عزیز ، کامل علی آغا اور عثمان سیف اللہ خان کے علاوہ چیئرمین ایف بی آر ، ممبر آئی آر پالیسی ایف بی آر ، جوائنٹ سیکرٹری وزارت قانون و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

مصنف کے بارے میں