علم، عمل اور کردار

علم، عمل اور کردار

علم کو اگر ذات کا قائم مقام مان لیا جائے تو واصلِ ذات ہونے کے لیے عمل درکار ہو گا۔ علم کو اگر قلزمِ حقیقت کہہ دیا جائے تو اس میں غوطہ زن ہونے کے لیے ساحل پر بیٹھ کر نظارہ کرنا کافی نہیں، بلکہ اس کی طرف بڑھنے کے لیے پاؤں پاؤں عمل کے قدم اٹھانا ہوں گے۔
علم ایک دعوت ہے— دعوتِ عمل— جب کوئی اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو علم دینے والا اپنا دستر خوان بڑھا دیتا ہے۔ جب کوئی دعوتِ عمل قبول کر لیتا ہے تو اسے مزید خوانِ نعمت چکھائے جاتے ہیں۔ دینے والے کا ظرف تو وسیع ہے، اس کی ذات کی طرح لامحدود— خوانِ نعمت اٹھانے والا اپنے ظرف کے مطابق وصول کرتا ہے۔ علم کی پہلی دعوت بدعملی سے بچنا ہے، دوسری دعوت بے عملی سے نکلنا ہے اور تیسری اور آخری دعوت علم کے ہم قدم عملی اقدام اٹھانا ہے۔ علم اور عمل ہم آہنگ ہو جائے تو فطرت کی ہم نوائی میسر آتی ہے— نوائے سروش سننے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ فطرت کی تمام قوتیں علم کے راستے پر چلنے والے کو اپنی مدد کی یقین دہانی کراتی ہیں۔ علم کا راستہ عمل کے راستے سے مختلف نہیں۔ عمل ہوتا ہی علم کے بعد ہے— یعنی علم پہلے ہے، ہر آغاز سے پہلے، عمل کا زیر وبم بعد میں پیدا ہوتا ہے۔ علم کے راستے پر چلنا دراصل علم پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے۔ علم کے بغیر ’’عمل‘‘ جبلتوں کی کارفرمائی ہے— ایک فعلِ محض ہے۔ عمل علم کے بعد رونما ہوتا ہے۔ علم کے میسر آتے ہی نیت کا علم وجودِ انسانی میں در آتا ہے۔ علم ہماری روح میں ایک باطنی عمل برپا کرتا ہے، یہ باطنی عمل پھر ظاہری عمل پر منتج ہوتا ہے۔ نیت ایک باطنی عمل ہے۔ باطن میں اس عمل کے رونما ہوتے ہی ظاہر میں اصلاح یا بگاڑ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے باطن کے عمل کی نک سک سنوارنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ علم ایک بے سمت بے پایاں سمندر کی لہر ہے۔ اس لہر نے ہمارے باطن کے نہاں خانے میں ایک شور بپا کرنا ہے— اب یہ شور ایک شور ہی رہتا ہے یا پھر شعور کا حصہ بنتا ہے، اس کا انحصار ہمارے باطنی عمل یعنی نیت پر ہے۔ رسولِ برحقؐ کی بات ہر حال میں حق ہے ’’عملوں کا انحصار نیتوں پر ہے‘‘۔
نیت ایک عجب راز ہے۔ نیت کی اصلاح ہی اصل اصلاح ہے۔ تزکیہِ نفس دراصل نیت کی پاکیزگی حاصل کرنے کا نام ہے۔ ایک مزکّی نفس نیک نیت ہوتا ہے، یعنی اس کی نیّت مال اور مفاد کی خواہش سے آلودہ نہیں ہوتی۔ اُس کے نام کی طرح 
اخلاص بھی پاک ہوتا ہے۔ کسی مفاد کی آمیزش اخلاص کو اخلاص نہیں رہنے دیتی— بالکل ایسے ہی جیسے توحید میں ذرہ برابر شرک بھی اسے توحید نہیں رہنے دیتا۔ نیت کی اصلاح وہ واحد عمل ہے جس میں کوئی عمل نہیں کرنا پڑتا۔ نیت کی پاکیزگی کے بغیر کیا گیا عمل دین کے نام پر بھی کیا جائے تو دینی نتیجہ نہیں دیتا۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے ’’اللہ کے دوست نیت کی پاکیزگی کے بغیر کوئی عمل نہیں کرتے‘‘۔ پاک نیت سے کیا گیا عمل پاک اور غیر پاکیزہ نیت سے کیا گیا عمل ناپاک ہوتا ہے۔ ارشاد ہے کہ طیب اور خبیث کو خلط ملط نہ کرو اور یہ کہ حق اور باطل کو باہم مت ملاؤ۔ حق کو باطل کا لباس مت دو۔ اقبالؒ نے اسی مفہوم میں کہا:ع
شرکت میانِ حق و باطل نہ کر قبول
درحقیقت علم حق ہے، بے عملی غفلت، اور بدعملی باطل!! علم اور عمل کے پیرائے میں دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ علم موصول ہونے کے بعد عمل سے انحراف دراصل باطل پروری ہے۔ یہ حق کو باطل کا لباس تجویز کرنے کا انداز ہے۔
علم پر عمل کرنے سے علم قیام پذیر ہو جاتا ہے، بصورتِ دیگر جہاں سے آیا وہاں واپس ہو جاتا ہے۔ علم زندگی ہے، عمل اس زندگی کو برقرار رکھنے کی جدوجہد ہے۔ عمل سے محروم ہو کر انسان علم کے حیات آفرین پیغام کو رد کرنے کا مجرم ٹھہرتا ہے۔ علم ایک نعمت ہے، بے عملی اس نعمت کا کفران ہے۔ ایمان اور کفر میں حد فاصل علم سے زیادہ عمل قرار پاتا ہے۔ جہاں جہاں ایمان اور اہلِ ایمان کا ذکر ہے، وہاں وہاں عملِ صالح کا حکم بھی بڑی تاکید سے موجود ہے۔
توحید علم ہے، رسالتؐ شہرِ علم اور ولایت شہرِ علم میں داخلے ہونے کا ایک دروازہ ہے۔ مرشدِ خیال کے ایک قول کی تفہیم ہو رہی ہے کہ علم اور عمل میں فرق کم کرنا شریعت بھی ہے اور ولایت بھی!! ہر شہر میں داخل ہونے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے— طریق اور طریقت ہوتی ہے۔ پہلے زمانے میں شہر کے اندر داخل ہونے کے لیے شہر کے دروازے سے اذن ملتا تھا، فصیل پھلانگ کر آنے والا شر پسند متصور ہوتا تھا۔ آج کے دور میں اس کی تمثیل پاسپورٹ اور اس پر ثبت ہونے والا ویزا ہے۔ یعنی ملک جہل سے مملکت علم میں داخلے کے لیے اگر کلمہ اور شریعت پاسپورٹ ہے تو اس میں داخلے کا اِذن ولایت کے پاس ہے۔ پاسپورٹ ہو گا تو ویزا سٹیمپ ہو گا، اور یہ ویزا من جانبِ ولایت میسر آتا ہے، ولایتِ معرفت میں داخل ہونے کی اجازت یہیں سے ملتی ہے۔ عین ممکن ہے ایک شخص ایمان بھی لے آئے لیکن ابھی تک وہ ظلمت میں گھرا ہوا ہو، اسے ظلمت سے نکال کر نور میں داخل کرنا اللہ کا کام ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ اللہ مومنوں کا ولی ہے، وہ انہیں ظلمت سے نکال کر نور میں داخل کرتا ہے۔ اللہ وفورِ رحمت سے اپنے بندے کو کفر سے نکال کر ایمان میں داخل کرتا ہے اور اپنی صفتِ ولایت سے مومنوں کی دستگیری کرتا ہوا انہیں ظلمتِ نفس سے نکال نورِ معرفت میں داخل کرتا ہے۔ اپنے عمل کو علم کے مخالف سمت میں بروئے کار لانے والا اللہُ ولی کے مقابلے میں طاغوت کو اپنا سرپرست تسلیم کرتا ہے اور از روئے قرآن طاغوت اسے نورِ ایمان سے کفر کی ظلمت کی طرف لے جاتا ہے۔
عمل کو علم کی جانب دوڑنا چاہیے۔ ’’ففرو الی اللہ‘‘ — پس دوڑو اللہ کی جانب۔ اللہ کی کوئی جناب ہے نہ جانب۔ اللہ کی طرف دوڑنے کا مفہوم کیا ہے؟ اللہ کی طرف دوڑنے سے مراد یہ کہ علم جو اللہ کا نور ہے، اے طالبِ نور اپنے عمل کو اس نورِ علم کی طرف دوڑنے دو۔ آج عمل نور کی طرف دوڑے گا، کل نور عملِ صالح کرنے والے کے آگے اور دائیں جانب دوڑتا ہوا دیکھو گے۔
تمام تر نیت اور کوشش کے باجود اگر عمل واصلِ علم نہ ہو رہا ہو تو توبہ اور توفیق طلب کرنی چاہیے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ اگر تم سے کوئی اچھا عمل نہیں ہو رہا تو غور کرو کہیں کسی غلط عمل نے اس کا راستہ تو نہیں روکا ہوا۔ معلوم ہوا کہ جادہ عمل پر روانہ ہونے سے پہلے اپنے وجود سے بدعملی کو نکالنا ضروری ہے۔ بدعملی بالعموم بدعلمی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ قلزم لامحدود پانی کی علامت ہے، پانی علم کا استعارہ ہے۔ پانی کی جگہ سراب کو جائے امان ماننے والوں کو عمل کے بجائے بدعملی گھیر لیتی ہے۔ وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ عمل کر رہے ہیں، لیکن ان کے عمل کو ان کے لیے اس دنیا میں خوش کن بنا دیا جاتا ہے اور انجامِ کار اکارت کر دیا جاتا ہے۔ بے شک ظن و گمان علم کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا۔ بے عملی بدعملی سے بہتر ہے۔ بے عمل اپنی بے عملی سے آگاہ ہے، وہ ایک اچھے عمل کے انتظار میں ہے، جبکہ بدعمل اپنے عمل کے زعم میں ہے۔
علم اور عمل باہم کچھ دیر اکٹھے چلیں تو کردار بن کر سامنے آتے ہیں۔ فقط کردار قابلِ تقلید ہوتا ہے۔ بشری کردار سے انسانی کردار اور پھر انسانی کردار سے رحمانی کردار برآمد کرنا دین کا دستور ہے۔ یہی دستور العمل حرفِ اول بھی ہے اور حرفِ آخر بھی!! انسان کو اپنے کردار میں صفا، پاکیزگی اور برگزیدگی درکار ہے تو اسے انسانِ کاملؐ کے کردار کا اتباع کرنا ہو گا۔ کردارِ مصطفویؐ تمام انسانوں کے لیے، تمام جہانوں اور زمانوں تک ایک کامل نمونہ ہے۔ شریعت سے طریقت تک اور طریقت سے معرفت تک یہی کردار رہبرِ کامل و اکمل ہے۔

مصنف کے بارے میں