عمران نیازی :سیاسی پریڈ گرائونڈ سے پلٹون گرائونڈ تک

عمران نیازی :سیاسی پریڈ گرائونڈ سے پلٹون گرائونڈ تک

مجھے ڈائری لکھنے کی عادت نہیں بیماری ہے کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آپ کے ماضی کو کسی دوسرے کی ٗآپ کے بارے میں لکھی ہوئی تحریر سے زیادہ معتبر اور بوقت ضرورت آپ کی یاداشت کا سب سے اہم گواہ ہوتی ہے ۔اپنی ڈائری میں لکھے شب وروز میں کتابی شکل میں اپنے تجزیے کے ساتھ ’’نیازی :  پلٹون سے پریڈ گراونڈ تک‘‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر لانے کیلئے کام کر رہا ہوں جو یقینا تحریک انصاف کی سیاسی زندگی پر آج تک لکھی جانے والی سب سے چشم کشا تاریخ ہو گی۔ اسے منظرِ عام پر لانا میری سیاسی ٗ اخلاقی ٗ قومی اور مذہبی ذمہ داری ہے کہ ایک’’ سیاسی ورکر کم صحافی ‘‘جب تاریخ مرتب کرتا ہے تو وہ رپورٹنگ سے بالکل مختلف ہوتی ہے ۔آج جب میڈیا مفاداتی طور پر تقسیم شدہ ہے اوراپنی اپنی بوٹی کیلئے ہر میڈیا ہائوس نے صحافیوں کے بجائے قصائی رکھ لیے ہیں جوبلا امتیاز وطن عزیز کو ذبح کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ وہ اپنے اپنے آقائو ں کی خوشنودی کو مفادِ پاکستان پر ترجیح دے رہے ہیں ۔مجھے عمران خان سے کوئی شکایت نہیں کہ ایک کام جو وہ بخوبی کرسکتا تھا اُس نے انتہائی دیانتداری سے کردیا یعنی پاکستان کے دو جماعتی سیاسی نظام کو اس کی بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا ۔استاد محترم معراج محمد خان مرحوم کا یہی ویژن تھا کہ ’’ عمران ریس میں بھاگنے والا گھوڑا نہیں تانگے میں جوتنے والا ہے اس کی سماج میں ہیرو شپ ہے ٗ اس کے گرد لوگ بڑی تعداد میں اکھٹے ہو جائیں گے تم اپنا کام خاموشی سے کرتے رہوٗ یہ تمہیں اتنا مایوس کریں گے کہ تم پارٹی چھوڑ جائو ٗ ان میں کبھی اخلاقی جرأت نہیں ہو گی کہ تمہیں پارٹی سے نکال سکیں ٗ یہ تمہاری صلاحیتوں کا اعتراف کریں گے لیکن تمہیں کبھی بااختیار نہیں کریں گے یہ تمہاری صلاحیتوں سے خوفزدہ ہوں گے ٗہر نالائق انسان اس بات سے خوفزدہ ہوتا ہے کہ میرا متبادل نہ آ جائے ٗتمہیں اتنے زیادہ نوجوان تربیت کیلئے اپنے پلیٹ فارم(پاکستان قومی محاذ آزادی) پر نہیں ملیں گے سو یہاں بہت بڑی تعداد تربیت کیلئے خود آئے گی اور یہی نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں ٗ انہیں حقیقی انقلاب سمجھا دو یہ اپنے گھروں کو واپس نہیں جائیں گے اوریہی مستقبل کی ’’سماجی تخلیقی اقلیت‘‘ ہو گی ‘‘۔ اور پھر معراج محمد خان کی ایک ایک بات سچ ثابت ہوئی ہم نے یہ کام اتنی دیانتداری سے کیا کہ خود عمران کو اس کا اعتراف کرنا پڑا البتہ اس میں عمران کے خیالات اوروجدانی 
گفتگو نے نوجوانوں کو بھر پور ڈی ٹریک کیا لیکن اس کے باوجود خیبر پختون خوا کے دروں سے لے کرسندھ کے ساحل تک تحریک انصاف میں موجودنوجوانوں کی ایک بڑی اکثریت حقیقی معاشی انقلاب پر یقین رکھتی ہے جو عمران کے روز بروز بدلتے موقف اور زیرزمین حاصل کیے گئے این ۔ آر ۔ او سے مایوس ہوئی ہے لیکن ان کا انقلاب سے رشتہ کبھی نہیں ٹوٹے گامگر یہ آہستہ آہستہ عمران خان سے دور ہوتے جائیں گے اور عمران بنی گالہ میں اپنے ’’ شیروئوں ‘‘ کے ساتھ باقی زندگی گزارے گا تحریک انصاف خاموشی سے تحریک استقلال بننے جا رہی ہے ۔عمران نے جن پر تکیہ کیا تھا وہ پتے آشیانے کو ہوا دیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔ عمران کی اعلیٰ ترین خوبی یہ ہے کہ وہ دھوکا نہیں کھا سکتا کیوں کہ وہ کسی پر اعتماد ہی نہیں کرتا البتہ دیتا مکمل دھوکا کیونکہ لوگ اُس پر مکمل اعتماد کرتے ہیں ۔
تحریک انصاف کے 126 دن کے پہلے دھرنے میں ٗ میں نے 88 دن اسلام آباد میں گزارے تھے اورگھر واپس اپنی ایک سالہ بیٹی ثویبہ سے ملنے اور زادِ راہ لینے کیلئے آتا تھا ۔وہاں ہونے والے حالات و واقعات سے میں مکمل واقف ہوں اور ریحام خا ن بارے میں نے دوستوں کو پہلے بتا دیا تھا کہ یہ ہماری اگلی ’’ بھابی ‘‘ ہوںگی ۔تحریک انصاف نے آج تک اس 26 سالہ سیاسی و غیر سیاسی سفر میں اپنے شہیدوں کی کوئی فہرست نہیں بنائی۔اندرون لاہور میں تحریک انصاف کے قتل ہونے والے ورکروں کی بہنیں عمران خان کے صوبائی وزیرں کے دفاتر میں اپنے بچوں کی ملازمتوں کیلئے در بدر ہوتی رہیں لیکن اُن کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا ۔ایک ’’بے رحم لیڈر‘‘ کے زیر سایہ غیر انسانی رویے رکھنے والوں کا ہجوم عمران کے اقتدار کا حصہ بنا اور عوام بدترین حالات کا شکار ہو گئے۔ میں تحریک انصاف سمن آباد ٹائون کے عہدیدار فیصل کی موت پر اُس کی بیٹیوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے سامنے بیٹھے اپنی بیٹیوں کا خیال آنا شروع ہو جاتا ہے ۔کتنا اذیت ناک ہے اُن بیٹیوں کیلئے جن کا بچپن باپ کے بغیر گزرے ٗ وہ معصوم کبھی اپنے باپ کی شکل نہیں دیکھ سکیں گی ٗ اُن کی تعلیم ٗ ضروریات ِ زندگی اور کل کو اُن کے شادی بیاہ بارے کون سوچے گا ؟ فیصل کے گھر والے ابھی تک ٹینٹ لگائے فاتحہ کیلئے آنے والوں کے گلے لگ کر رو رہے ہیں ۔ اُن کا خیال ہے کہ شاید عمران بھی اُن کے جوان بیٹے کی ناگہانی موت پر فاتحہ کیلئے آئے گا لیکن میرے پاس ایک طویل فہرست ہے اُن لوگوں کی جو اس جد وجہد میں یا تو مارے گئے یا پھر وفا کے اس رستے پر اپنی موت مر گئے لیکن عمرا ن کو جنازوں پرجانے کی عادت نہیں ٗ وہ نعیم الحق کے جنازے میں شریک نہیں ہوا تھا جس نے ساری زندگی اُس کے ساتھ گزار دی تھی۔ ممکن ہے جب اُس کی روپوشی ختم ہو اور اللہ رب العزت اُسے پنجاب میں داخل ہونے کا حوصلہ عطا فرمائے تو شاید وہ اپنے کسی مقامی چہیتے کے کہنے پرمنہ دکھائی کیلئے آجائے ورنہ عمران وہ آدم بیزار انسان ہے کہ اُسے زندہ انسانوں میں بھی اتنی دلچسپی نہیں ہوتی ۔
پشاور میں وکلاء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف نے بتایا کہ اللہ کے خوف کے علاوہ ہر قسم کا خوف بدترین شرک ہے اور یہ بات وہ گزشتہ 26 سال سے تواتر سے کررہے ہیں ۔ میں اس بات کو سو فیصد درست تسلیم کرتا ہوں لیکن جب اُسی تقریر میں عمران خان نے ڈی چوک دھرنا ختم کرنے کی وجہ بتائی تو فرمایا کہ لوگوں کو بہت غصہ تھا ٗ وہا ں گولی چل سکتی تھی ٗ انتشار پھیل سکتا تھا ٗ جس سے میں (عمران خان)خوفزدہ ہو گیا ۔پہلی بات تو عمران کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جمہوریت ایک ارتقائی عمل کا نام ہے جس میں ریفارمز کے ذریعے آہستہ آہستہ تبدیلی آتی ہے لیکن انقلاب طاقت کے بل بوتے پر فوری تبدیلی کا نام ہے ۔ دنیا کا کوئی جمہوریت پسند کبھی انقلاب نہیں لایا البتہ انقلاب کے بعد حکومتی کاروبار چلانے کیلئے اُسے اگر انقلابیوں نے جمہوریت کو بہتر سمجھا تو ’’جزوی جمہوریت ‘‘ کو ملک میں رائج کر دیا ہے ۔انقلاب میں پرانے نظا م کو گرا کر نیا نظام لانا ہوتا ہے جو یقینا دولت کے منصفانہ یا مساویانہ تقسیم کے متعلق ہوتا ہے اور انقلابیوں کے پاس پرانے نظام کو گرانے اورنئے نظام کو لانے کا مضبوط ٗ مربوط اور قابلِ عمل ایجنڈہ ہوتا ہے ۔ عمران کے پاس ان میں سے کچھ بھی نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ گزشتہ 26 سال سے ورکروں کے سامنے نہیں آیا ۔تحریک انصاف عمران فین کلب ٗ غیرسیاسی مفادپرستوں کا ٹولہ ٗپیپلز پارٹی اورنون لیگ سے ناراض لوگوں کے ہجوم کا نام ہے ۔ جو کسی وقت بھی تتربتر ہو جائے گا ۔ پنجاب کابینہ کاقیام ٗ صدر پاکستان کی گورنرپنجاب پر رضامندی ٗپنجاب میں اپوزیشن لیڈرپرمشاورت ٗ عمران کی بدلی ہوئی شکست خوردہ باڈی لینگوئج سب کچھ چیخ چیخ کربتا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے غیر عقلی اورالٹے فیصلوں نے اس بار نیازی کوسیاسی پریڈ گرائونڈ سے سیاسی پلٹون گرائونڈ میں پہنچا دیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ نیازی عسکریت اورسیاست دونوں میدانوں میں نالائق اور بزدل ثابت ہوئے ہیں ۔

مصنف کے بارے میں