یوم مئی اور ہم!

یوم مئی اور ہم!

یورپ اور امریکہ میں جہاں صنعتی انقلاب نے روزگار کے مواقع پیدا کیے، وہاں نت نئی مشینوں کی ایجاد نے مزدوروں اور ہنرمندوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بڑھاوا دیا۔ نتیجتاً انیسویں صدی کے درمیانی عرصے میںمحنت کشوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا شروع کردی۔

آٹھ گھنٹے کی بجائے دس سے بارہ گھنٹے اور بسااوقات اس سے بھی کئی گھنٹے زیادہ بغیر کسی اضافی معاوضے کے کام لینا ایک عام سی بات تھی۔ بچوں سے نہ صرف مزدوری کرائی جاتی، بلکہ اضافی گھنٹوں میں ان سے بھی کام لیا جاتا۔ کام کے دوران زخمی ہوجانے یا یہاں تک کہ موت کی صورت میں کسی قسم کا معاوضہ نہ دیا جاتا۔ بیماری کی صورت میں یا تو کام سے نکال دیا جاتا یا تنخواہ کاٹ لی جاتی۔ میڈیکل الاﺅنس وغیرہ کا کوئی تصور نہ تھا۔

1860ءکی دہائی سے شروع ہونے والی حقوق کی آگاہی نے بالآخر 1880ءکی دہائی میں باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ اب یہ بات ہے چار مئی 1886ءکی جب ہئے (Hay) مارکیٹ شکاگو یو ایس اے میں تیس ہزار کے قریب محنت کش جمع ہونے تھے ، لیکن موسم کی شدید خرابی کی بنا پر تعداد تین ہزار تک رہی۔ ایک لیڈر کی تقریر کے دوران مجمعے میں سے کسی نے پولیس کی جانب دستی بم پھینک دیا، جس سے ایک پولیس مین ہلاک ہوگیا۔ طیش میں آکر پولیس نے مجمعے پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ جس کے نتیجے میں آٹھ محنت کش جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔
پاکستان 1947ءیعنی اپنی آزادی کے وقت سے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا ممبر ہے، تاہم یہ 1972ءتھا جب پاکستان میں پہلی مرتبہ لیبر پالیسی وضع کی گئی۔ اس پالیسی کے مطابق سوشل سیکورٹی نیٹ ورک تشکیل دیا گیا۔ نیز ورکر ویلفیئر فنڈ اور اولڈ ایج بینیفٹ (EOBI) جیسی سکیموں کا اجراءکیا گیا۔ اور یہ کہ یکم مئی کو لیبر ڈے کے طو رپر پبلک ہالی ڈے ڈیکلیئر کیا گیا۔
کیا لیبر ڈے کے نام پر وہ مقاصد پورے ہورہے ہیں، جس کے لیے چار مئی 1886ءکو شکاگو میں محنت کشوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیئے تھے؟ یہ ہے وہ سوال جس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے پہلے ہم وطنِ عزیز کی بجائے آج کی ماڈرن دنیا یعنی امریکہ اور یورپ کا رخ کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سبھی کمپنیوں اور اداروں میں روزانہ کی بنیاد پر کم از کم دس گھنٹے کام کرنے کا رواج عام ہے اور اس کے لیے کوئی اضافی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ بظاہر وہاں آٹھ گھنٹے کام لیتے وقت مالکان قانون شکنی کے مرتکب نہیں ہوتے ۔ و ہ اس طرح ہے کہ مالکان پہلے تو لیبر یونین جیسے اداروں سے پیچھا چھڑانے کے لیے اپنے ملازمین کے عہدے کے ساتھ آفیسر کا دم چھلا لگا دیتے ہیں اور آفیسرز لیبر یونین کے ممبر نہیں ہوسکتے۔

آئیے اب وطنِ عزیز میں جہاں محنت کشوں کے لیے قوانین تو موجود ہیں، ان کی عمومی حالت کا جائزہ لیتے ہیں۔

اب یہ خبر یکم مئی 2015ءکے لیبر ڈے کی ہے کہ فیروز والہ میں بھٹہ کے مالک نے محنت کشوں پہ فائر کھول دیئے، جس کے نتیجے میں دو محنت کش ہلاک ہوگئے۔ یہاں یکم مئی کو چھٹی اور ریلیاں نکالنے کے علاوہ لیبر ڈے کوئی مقصد حاصل کرتا نظر نہیں آتا۔ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ نے قلیوں کی سرخ پگڑی پہن کر ان کے ساتھ کھانا کھایا۔ مان لیتے ہیں اس جماعت نے قلیوں کو کھانا کھلایا ہوگا۔ تو یہ ہے طریقہ جتلانے کا کہ ہم قلیوں کے دکھ کو محسوس کرتے ہیں۔ اگر ان کے دکھ کو حقیقت میں محسوس کرنا ہے تو سر پہ ان کی طرح بوجھ اٹھا کر کچھ پھیرے تو لگاتے۔ یہ کیا کہ میڈیا کو بلالیا، چند بیانات داغ دیئے اور تصویریں نشر کروادیں۔ اس عمل میں تو ہمارے سربراہ سربراہی کرتے نظر آتے ہیں۔ ہر سال اس موقع پر ملک کے وزیر اعظم ٹی وی پر مزدوروں سے وعدے کرتے نظر آئیں گے کہ اب مزدوروں کی مجبوریوں بھری زندگی ختم ہونے کا وقت آپہنچا ہے۔ گز شتہ بر س بلوچستان میں خیموں میں سوئے ہوئے مزدوروں کو جو گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا، کیا اس کی بازگشت اب باقی ہے؟ لاہو رکے چھ مزدوروں کی زیر تعمیر پلازہ کے منہدم ہوجانے کی بنا پر ہلاکت کی خبر بھی اسی سال کی بات ہے۔ آپ جس شہر میں بھی رہتے ہیں ذرا صبح نکلیے اور دورہ کیجیے مزدوروں کے اڈوں کا۔ ان اڈوں پہ محنت کش اور مختلف طرح کے ہنر مند جمع ہوجاتے ہیں اس امید پہ کہ آج ان کی دیہاڑی لگ جائے گی۔ ان کے چہرے پڑھنے کی کوشش کیجیے۔ پچکے گال، ابھری ہوئی رخسار کی ہڈیاں، کئی کئی وقت بھوکا رہنے کی وجہ سے کمر سے لگے ہوئے پیٹ، آنکھوں کی ماند پڑتی ہوئی چمک، جیسے کہہ رہے ہوں
ظلم سہتے ہوئے انسانوں کے اس مقتل میں
کوئی فردا کے تصور سے کہاں تک پہلے
عمر بھر رینگتے رہنے کی سزا ہے جینا
ایک دو دن کی اذیت ہو تو کوئی سہہ لے
مزدوروں کی سطح سے کچھ اوپر اگر کارپوریٹ اور دوسرے اداروں کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ مالکان نے ملازمین کے حقوق سے مکمل طور پر آزاد ہونے کا نیا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔ اصل میں تو یہ مغرب کی سرمایہ دارانہ ذہنیت کی اختراع ہے۔ یوں ہیومن ریسورسز (HR) ڈیپارٹمنٹ کا اداروں میں ظہور ملازمین کے حقوق کی حفاظت کے نام پر ہوا تھا لیکن پس پردہ اس کا مقصد کم ملازمین سے زیادہ کام لینے کا تھا۔ یعنی ایچ آر کو ٹاسک دیاجاتا ہے کہ اس سال آپ کو کمپنی کی کارکردگی متاثر کیے بغیر اتنے ملازم مزید کم کرنے ہیں۔ یہ کہ ان کے پے سکیل کو بھی کم کرناہے۔ اس طرح کے کام کو سرانجام دینے کے لیے ایچ آر نے تھرڈ پارٹی ریسورسز کا طریقہ متعارف کروایا ہے۔ اس طریقِ کار کے تحت تھرڈ پارٹی اسے ملازمین فراہم کرتی ہے، جو تھرڈ پارٹی کے پے رول پر ہوتے ہیں۔ یعنی ان کی تنخواہ، انہیں رکھنے اور نکالنے کا بالواسطہ کمپنی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تھرڈ پارٹی کے متعارف ہونے کے بعد کمپنیوں کے اپنے پے رول پہ محض گنے چنے ملازمین ہوتے ہیں۔
پاکستان میں مزدوروں کے استحصال کا تاریک ترین پہلو کم عمر بچوں سے مزدوری لینے سے متعلق ہے۔ 1990ءکے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ دس لاکھ سے زیادہ تعداد میں کم عمر بچے مزدوری اور اسی نوعیت کے دوسرے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے آدھی سے زیادہ تعداد ایسے بچوں کی ہے جن کی عمر دس برس سے بھی کم ہے۔ یہاں تک کہ حیدر آباد میں چار سال سے پانچ سال کی عمر کے بچے چوڑی سازی کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ پھر سیالکوٹ میں پانچ سال سے چودہ سال کی عمر کے بچوں سے دس سے گیارہ گھنٹے فٹ بال سازی کی صنعت میں کام لیا جاتا ہے ۔
صاحبو! پوری دنیا اور خصوصاً پاکستان میں محنت کشوں کے حالات تو یہی باور کراتے ہیں کہ پھر سے ایک چار مئی کی ضرورت ہے تاکہ دنیا بھر کے محنت کش اظہار کرسکیں کہ 4 مئی 1886ءکی قربانیاں عرصہ ہوا اپنا اثر کھو چکی ہیں۔ جب تک محنت کش ایک نیایوم مئی بپا نہیں کرتے، چانکیہ ذہنیت والی مکار سرمایہ دارانہ پالیسیاں امیروں اور غریبوں کے درمیان فاصلے بڑھاتی رہیں گی۔

ڈاکٹر ابراہیم مغل روزنامہ نئی بات میں کالم لکھتے ہیں