جنوری 2020ء سے اب تک صوبہ پنجاب میں ڈینگی کے 147 کنفرم مریض رپورٹ

report-of-147-confirmed-dengue-patients-in-punjab-province-since-january-2020
کیپشن: فائل فوٹو

لاہور: پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کی جانب سے صوبہ بھر میں ڈینگی وائرس پر مکمل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوری 2020ء سے اب تک 147 کنفرم مریض رپورٹ ہو چکے ہیں۔

ترجمان پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کے مطابق پنجاب میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ڈینگی وائرس کے 4 کنفرم کیسز سامنے آئے۔ رپورٹ ہونے والے 3 مریضوں کا تعلق لاہور سے جبکہ 1 تعلق اٹک سے ہے۔ صوبہ بھر میں 9 مریض زیر علاج جبکہ 138 صحت یاب ہو کر گھروں کو جا چکے ہیں۔ صوبہ بھر میں رواں سال ڈینگی سے کوئی قیمتی جان ضائع نہیں ہوئی۔ 24 گھنٹوں کے دوران 564 مشتبہ مریض رپورٹ ہوئے۔

خیال رہے کہ ڈینگی بخار ایک وائرل بیماری ہے۔ یہ بیماری ایک مخصوص مادہ مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ یہ مچھر خصوصاً طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت زیادہ کاٹتا ہے، اس بیماری کا حملہ اچانک ہوتا ہے اور کچھ دنوں کے لئے اس کے اثرات جسم کے اندر موجود رہتے ہیں۔

ڈینگی مچھر کی پہچان یہ ہے کہ اس کا جسم سیاہ ہوتا ہے جبکہ اس کی ٹانگوں اور چھاتی پر سفید دھاریاں ہوتی ہیں۔ یہ صاف پانی یا نیم کثیف پانی کے چھوٹے چھوٹے ذخیروں میں پیدا ہوتا ہے۔ عام نزلے کے ساتھ شروع ہونے والا ڈینگی وائرس،تیز بخار،سر اور آنکھوں میں شدید درد، تمام جسم کی ہڈیوں، گوشت یہاں تک کہ جوڑوں میں شدید درد، بھوک کم ہو جانا، متلی ہونا،بلڈپریشر کم ہونا، جسم کے اوپر والے حصے پر سرخ نشان ظاہر ہونا اس کی واضح علامات ہیں۔

اگر نوعیت شدید ہو جائے تو ناک منہ سے خون بھی جاری ہو سکتا ہے۔ اس مرض کی تشخیص صرف لیبارٹری میں خون کے ٹیسٹ CBC کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والے افراد پر اگر یہ وائرس دوبارہ حملہ آور ہو تو یہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ یہاں اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ یہ بیماری براہ راست ایک شخص سے دوسرے شخص کو منتقل نہیں ہوتی بلکہ مخصوص مچھر ہی اس کے انتقال کا باعث بنتا ہے۔

اس لیے ڈینگی سے متاثرہ مریض سے علیحدہ ہونے کے بجائے مچھروں کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ بعض اوقات مریض کو علیحدہ رکھا جاتا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ متاثرہ شخص کو کاٹ کر مچھر مزید بیماری پھیلانے کا باعث نہ بنیں۔ ڈینگی وائرس سے احتیاطی تدابیر کے طور پر ضروری ہے کہ ماحول کو خشک اور صاف رکھاجائے،کھڑکیوں اور دروازوں پر جالی لگوائی جائے۔ پانی کے برتن اور پانی کی ٹینکی کو ڈھانپ کر رکھا جائے۔ فریج کی ٹرے، گملوں اور پودوں کی کیاریوں کی صفائی کا خاص خیال رکھا جائے، کیونکہ سر دست اس مچھر کا خاتمہ ناگزیر ہے۔

اس کے ساتھ ہر ضلعی و شہری انتظامیہ کو بارشی پانی کی نکاسی اور گڑھے بھرنے میں تاخیر نہیں کرنا چاہیے اور ماحول کو مچھروں سے محفوظ رکھنے کے لئے ہر وارڈ، ہر گلی میں مچھر مار اسپرے کرواناچاہیے۔ ان معمولی احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد سے ڈینگی وائرس پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پانچ کروڑ سے زائد افراد ڈینگی بخار کا شکار ہوتے ہیں اور سالانہ بیس ہزار سے زائد افراد اس مرض سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ تاہم بروقت علاج سے صحت یابی کا تناسب بہت زیادہ ہے اور99 فیصد مریض اس سے مکمل طور پر صحت یات ہو جاتے ہیں۔