اداروں کی تذلیل غیر عقلی بیانیہ

اداروں کی تذلیل غیر عقلی بیانیہ

لوگ حادثات میں مرجاتے ہیں اور ہم وہ لوگ ہیں جوحادثاتی طور پر زندہ ہیں۔ ہم شاید اس لئے بچ گئے کہ حادثے کے وقت ہم وقوعہ پرموجود نہیں تھے۔موت کیا ہے؟ ہم ایک لباس اتار کردوسرا پہن لیتے ہیں۔ بڑے لوگوں کی موت اُن کی زندگی کی ابتدا ہے جبکہ چھوٹے لوگوں کو لوگ دفن کرتے وقت ہی بھول جاتے ہیں۔ یہاں چھوٹے اوربڑے کا تعین اُس کی مالی یا سماجی حیثیت سے نہیں کیاگیا بلکہ جوانسانوں کیلئے زیادہ مفید ہوتا ہے وہ یقینا بڑا آدمی ہوتا ہے اورجو انسانوں کو نقصان پہنچا کردنیا سے چلے جائے وہ کہا ں قابلِ تعظیم رہتا ہے۔ ارشد شریف بھائیوں جیسا دوست تھا ٗبے رحم کینین پولیس کے ہاتھوں مارا گیا۔ممکن ہے اُس کے پردہ نشین قاتلوں نے کسی محفوظ پناہ گاہ میں بیٹھ کر اُس کے قتل کی سازش کی ہو لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ارشد شریف کو کینیاپولیس نے شہیدکرنے کی ذمہ داری قبول کرلی اب آپ کسی بھی شخص کو مشورے میں تو ڈال سکتے ہیں لیکن قاتل کا تعین ہوچکا ہے۔ ارشد شریف کے بچے کبھی اپنے باپ سے نہیں مل پائیں گے۔ اُس کی والدہ پہلے اپنے خاوند اورجوان بیٹے کا جنازے دیکھ چکی ہیں اوردوسرے جوان بیٹے کی لاش کو پھر سے دیکھ رہی ہے۔وہ بہادر عورت ہیں لیکن عورت جتنی مرضی بہادر ہو بیٹے ٗ بھائی ٗباپ اورخاوند کی موت اُسے مکمل عورت بنا دیتی ہے۔ اُس ماں کا دکھ سمجھنے کیلئے بھی جو دل ودماغ درکار ہوتا ہے وہ شاید کسی کو عطا ہی نہیں ہوتا۔ پولیس ملازمین کیسے قتل کرتے ہیں؟کیوں قتل کرتے ہیں؟اس کیلئے پوری دنیا میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ کہانی ایک جیسی ہے۔ فرق صرف عدالتو ں کا ہے کہ ہمارا نظام عدل مجرم کو بہت زیادہ رعایت دے دیتا ہے جبکہ مہذب دنیا میں اس کا تصور ہی موجود نہیں۔ تمام تر حالات وواقعات سننے اور دیکھنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچ کر پریشان ہوں کہ جس ملک میں اسامہ بن لادن محفوظ تھا وہاں ارشد شریف کیسے غیر محفوظ ہو گیا؟ جس ملک کے اشتہاری مجرم عمر بھر اشتہاری رہنے کے باوجود ہیں طبی موت مرتے ہیں اُس ملک میں ارشد شریف کیسے غیر محفوظ ہو گیا؟ اگر آئی ایس آئی یا کسی دوسری ایجنسی نے تھرٹ الرٹ جاری نہیں کیا تو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے کیونکر تھرٹ الرٹ جاری کردیا۔ وہ بھی طالبان سے جان کے خطرے کا جبکہ طالبان کے ساتھ وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا کے اپنے معاملات بالکل دوستانہ بلکہ کاروبارانہ چل رہے ہیں اورعمران خان نے ہمیشہ طالبان کی ترجمانی بھی کی ہے۔ تو کیا طالبان نہیں جانتے تھے کہ ارشد شریف کی عمران خان سے ”خاص محبت“ ہے؟میں یہ سب سوچتا ہوں تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہوں۔ 
چین کے استاد دانشور کنفیوشس کو ایک بار چین کے بادشاہ سی کنگ نے بلا کر پوچھا: ”کنفیوشس حکومت چلانے کیلئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے؟“ کنفیوشس نے جواب دیا: ”سب سے پہلے روٹی ٗ پھر فوج اور پھر عوام کا حکومت پر اعتماد۔“ سی کنگ نے پوچھا:”اگر بحالت مجبوری کوئی ایک نہ دے سکیں تو۔“ کنفیوشس نے جواب دیا:”فوج کے بغیر گزارہ ہوجائے گا۔“سی کنگ نے پھر پوچھا 
اوراگر بحالت مجبوری دو فراہم نہ کرسکیں:کنفیوشس نے سی کنگ کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا:”روٹی کے بغیر بھی گزارہ ہوجائے گا لیکن جس دن لوگوں کا حکومت پر اعتماد ختم ہو گیا اُس دن کچھ نہیں بچے گا۔“یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اُس وقت حکومت ریاست اورریاست حکومت کے معنی میں ہی استعمال ہوتی تھی۔
جناب مسیح سے بھی تقریباً 550 سال پہلے کنفیوشس نے بتا دیا کہ ریاست عوامی اعتماد کا نام ہے اورریاست کسی ایک ادارے کا نام نہیں بلکہ یہ مختلف اداروں کا ایک جال ہوتا ہے جو ایک دوسرے سے جڑا ہوتا ہے۔جال جہاں سے کمزورہوگا مچھلی وہاں سے نکل جائے گی یعنی ریاست کے تمام اداروں کو آپس میں ایک دوسرے سے جڑت رکھنا ہی ریاست ہوتی ہے۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن ریاست مستقل ادارے کا نام ہے جس نے قیامت کی صبح تک رہنا ہوتا ہے۔ ہم پہلے ہی اپنا مشرقی بازو گنوا چکے ہیں اورکسی نئے ناکام تجربے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ میں 1971 ء میں مشرقی پاکستان میں ہونے والے واقعات اور پروپیگنڈا کو دیکھتا ہوں تو مجھے موجودہ حالات اوراُس وقت کی مکتی باہنی کا موقف ملتا جلتا دکھائی دیتا ہے۔ ایسی ایسی افواہیں کہ خدا کی پناہ حالانکہ اُس وقت سوشل میڈیا تودور کی بات حقیقی میڈیا نام کی بھی کوئی چیز اس طرح نہیں تھی جس طر ح آج ہے۔ پاکستان میں مارشل لا ء لگانے والے جرنیلوں کومیں نے کبھی اچھا نہیں سمجھا۔ ضیاء اورمشرف کے خلاف ہماری جدوجہد کا ایک زمانہ معترف ہے۔نواز شریف کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہتا ہے ضیاء اچھاجبکہ مشرف برا ڈکٹیٹر تھا۔یہی حال عمران خان کا ہے وہ بطور ڈیموکریٹک وزیر اعظم ایوب خان کی تعریفیں کرتا ہوا نہیں تھکتا تھاجبکہ مشرف کو اس لئے برا کہتا ہے کہ مشرف اُسے وزیر اعظم بنانے کا وعدہ کرکے مُکر گیاتھا اورپھر پنج یا دس ہزاری عہدہ دینے کی کوشش کی تھی۔ایوب خان سے عمران خان کی ہمدردی کی واحد وجہ ایوب فیملی کی تحریک انصاف میں موجودگی ہے۔پاکستان تحریک انصاف پنجا ب کے صدر وائس ایڈمرل جاوید اقبال ہوا کرتے تھے جو بعد ازاں وائس چیئرمین بھی رہے ٗاُنہیں صرف اس لئے تحریک انصاف سے نکال دیا گیا کہ انہوں نے ایک نجی چینل کے ٹاک شومیں جنرل موسی کی کتاب ”جوان سے جرنیل تک“ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ آرٹیکل 6 کا اطلاق سب سے پہلے ایوب خان پر ہونا چاہیے جس پر چیئرمین تحریک انصاف اُن سے ناراض ہو گئے۔حیرت ہے کہ وہی عمران نیازی آج فوج کے لئے ایسی بازاری زبان استعمال کررہا ہے 
ارشد شریف کے قتل کی اطلاع آنے کی دیر تھی کہ بغیر کسی تحقیق کے پاکستان آرمی کو مورد ِالزام ٹھہرا دیا گیا۔ یہ کن لوگوں کی کارستانی تھی؟ ایسا کیوں کیا گیا؟ ایسے کرنے کے مقاصد کیا تھے؟فوج کو بدنام کرنے میں کس کا فائدہ ہے؟ کیا دنیا کی کوئی ریاست فوج کے بغیر ہوسکتی ہے؟ میرے لکھنے اور بولنے کی واحد وجہ بھی یہی ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ فوج اپنے غیرآئینی کردار سے باز رہے اوراب جب دہائیوں کی محنت کے بعدآئی ایس پی آر اورڈی جی آئی ایس آئی نے پہلی بار قوم کے سامنے آ کر پریس کانفرنس میں اعلان کردیا ہے کہ وہ آئندہ فوج کو سیاست میں ملوث نہیں ہونے دیں گے تو ہمیں اُن کی بات کا اعتبار کرنا چاہیے۔ اگر وعدہ خلافی ہوتی ہے تو کون سا ہم  نے پاکستان چھوڑ کر چلا جانا ہے۔مگر ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ جس ریاست کی فوج ڈی مارلائز ہو جائے پھر اُس ریاست کا وجود بھی نہیں رہتا۔اداروں کی تذلیل آنے والے دنوں میں پاکستان کیلئے نقصان دہ ہو گی جس کا کوئی ازالہ کیا کفارہ ہمارے پاس نہیں ہوگا۔ سو میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کا فوج مخالف بیانیہ غیر عقلی ہے کیونکہ عمران نیازی کے ساتھ کھڑی سیکنڈ لیڈرشپ اورورکرز اس لڑائی کیلئے تیارہی نہیں۔ وہ عمران نیازی کیلئے جان دے سکتے ہیں لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکتے۔عمران نیازی کے ساتھ محبت کے بہت سے رشتے رہے ہیں لیکن اس وطن سے زیادہ مضبوط رشتہ آج تک کسی کے ساتھ نہیں۔ اوراِس ملک کیلئے کم از کم مجھے مانگے تانگے کے بیانیے کی ضرورت نہیں۔ میں اپنے موقف پرزندگی گزارنے والا شخص ہوں۔برازیل میں ایک دوست مشکوہ مغل گلہ کرتا ہے کہ میں عمران خان پر تنقید کرتا ہوں جبکہ مجھے نواز شریف ٗ زرداری اور مولانا فضل الرحمان پر بھی تنقید کرنی چاہیے تو میں اُس دوست کو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم نے 26 سال عمران خان کے ساتھ گزارے ہیں نواز یا زرداری کے ساتھ نہیں ٗاُن پرجتنی تنقید کرنی تھی کرلی۔یہ وقت اپنی پناہ گاہ بچانے کا ہے کہ ہمارے پاس دوہری شہریت ہے اورنہ ہی پنجاب کے ساتھ کسی دوست ملک کا بارڈر۔

مصنف کے بارے میں