بابری مسجد فیصلہ ،بھارت میں مسلم پرسنل لا بورڈ کا دبنگ فیصلہ 

بابری مسجد فیصلہ ،بھارت میں مسلم پرسنل لا بورڈ کا دبنگ فیصلہ 

لکھنو:بھارت میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اعلان کیاہے کہ وہ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کی جانب سے بابری مسجد انہدامی کیس میں دیئے گئے فیصلہ کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرے گا۔ اس فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی۔

 بھارتی میڈیا کے مطابق مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری ظفریاب جیلانی نے کہا کہ عدالت نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ غلط ہے، ہم اس فیصلہ کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع ہوں گے۔ وکیل ظفریاب جیلانی بابری مسجد ایکشن کمیٹی میں شامل ہیں۔ مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ بابری مسجد کو ساری دنیا کے نظروں کے سامنے شہید کیا گیا اور قانون کی حکمرانی کی دھجیاں اڑا دیں گے۔ اس ملک کے مسلمان نے ہمیشہ عدالتوں کے فیصلوں احترام کیا ہے۔

 سی بی آئی عدالت کے فیصلہ کے بعد مسلم تنظیموں کا اجلاس منعقد کیا جائے گا اور آگے کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا،علاوہ ازیں  تمام ملزمین کو باعزت بری کردیئے جانے کے فیصلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے صدر جمعیت علما ہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ دن کی روشنی میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا،دنیا نے دیکھا کہ کن لوگوں نے اللہ کے گھر کی بے حرمتی کی اورزمیں بوس کردیا۔9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ نے بابری مسجد۔رام جنم بھومی حق ملکیت پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے یہ اعتراف کیا تھا کہ بابری مسجد کی تعمیر کسی مندر کو توڑ کر نہیں کی گئی تھی چنانچہ بابری مسجد کے اندر مورتی رکھنے اور پھر اسے توڑنے کو مجرمانہ عمل قرار دیا تھااور یہ بھی کہا تھا کہ جن لوگوں کی شہ پر یہ کام انجام دیا گیا وہ بھی مجرم ہیں پھر سوال یہ ہے کہ جب بابری مسجد شہید کی گئی اور شہید کرنے والے مجرم ہیں تو پھر سی بی آئی کی نظر میں سب بے گناہ کیسے ہو گئے ؟یہ انصاف ہے یا انصاف کا خون ہے ؟ جو ملزم بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ دار تھے وہ باعزت بری کردیئے گئے ،اگرچہ وہ لوگ بی جے پی ہی کے دور اقتدار میں سیاسی اعتبار سے بے حیثیت اور بے نام ونشان ہو گئے جو اللہ کی بے آواز لاٹھی کی مار ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سی بی آئی کورٹ یہ کہہ رہی ہے کہ ان کا کوئی قصور نہیں ہے اور یہ باعزت بری کئے جاتے ہیں۔ عقل حیران ہے کہ اس کو کس چیز سے تعبیر کیا جائے ۔اس فیصلہ کو کس نظریہ سے دیکھا جائے ۔ کیا اس فیصلہ سے عوام کا عدالت پر اعتماد بحال رہ سکے گا۔