پرانے وقتوں کی کچھ باتیں

پرانے وقتوں کی کچھ باتیں

 گذرے زمانوں میں قبائلی نظام ہوا کرتے تھے۔ پرانے وقتوں کی بات ہے کہ اک بڑا قبیلہ تھا اور اس کی دو شاخیں تھیں۔ دونوں شاخوں کی سرزمین الگ الگ تھی اور ان کے درمیان ہزاروں میل کا فیصلہ تھا اور ان دونوں کے درمیان اس قبیلے سے بھی کہیں زیادہ بڑا ان کا دشمن قبیلہ آباد تھا۔ایک وقت میں یہ تینوں قبائل ایک ہی قبیلہ کے نام سے جانے جاتے تھے لیکن پھر سات سمندر پار سے نیلی آنکھوں والے بدیسی دشمن جدید ہتھیاروں اور ہتھکنڈوں کے ساتھ آئے اور اس وقت کے دنیا کے خوشحال ترین قبیلہ کی سرزمین پر زبردستی قابض ہو گئے۔ ان کا قبضہ بڑا مستحکم تھا۔ طاقت اور عقل کی دونوں دیویاں ان بدیسی حکمرانوں کے گھر کی لونڈیاں تھیں لیکن قبیلے والے بھی بڑے غیور اور بہادر تھے انھوں نے ان کے خلاف جدوجہد شرو ع کر دی۔ پھر بہت جلد ایک وقت ایسا بھی آیا کہ طاقت، عقل اور وسائل کی موجودگی کے باوجود بھی انھیں وطن کی آزادی کے متوالوں کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے اور انھیں آزاد ی دینا پڑی لیکن ہوا یہ کہ اکثریت کے بل بوتے پر اقلیت کے حقوق سلب کرنے والوں کے غیر منصفانہ رویوں کی وجہ سے اقلیت کو اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک علیحدہ قبیلہ بنانا پڑا اور اس طرح ایک بڑا قبیلہ دو بڑے قبیلوں میں تقسیم ہو گیا۔ چھوٹے قبیلے والوں کے ساتھ یہ مسئلہ بھی تھا کہ وہ دو مختلف جگہوں پر آباد تھے اور ان کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ تھا اس پر مزید ستم یہ ہوا کہ قبیلے کی دونوں شاخوں کے بیچ میں جو بڑا قبیلہ تھا اس نے شروع دن سے ہی اس تقسیم کو قبول نہیں کیا تھا اور وہ اس کا اظہار بھی برملا کیا کرتا تھا لیکن چھوٹے قبیلے والوں کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ ضرور تھا لیکن ان کے دل ملے ہوئے تھے۔وقت گذرنے کے ساتھ کچھ تو دشمن قبیلے کی سازشوں اور کچھ اپنوں کی نادانیوں کی وجہ سے قبیلے کی دونوں شاخوں کے باسیوں کے دلوں میں خلیج حائل ہونے کا عمل شروع ہو گیا۔ عام آدمی تو اس بات سے لا علم تھا لیکن جنھیں اس کا علم ہو چکا تھا انھوں نے بھی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا اور ہوس اقتدار کے نشہ میں انھیں احساس ہوتے ہوئے بھی احساس نہیں ہوا کہ ان کی اس مجرمانہ غفلت کا نتیجہ قبیلہ کے دو لخت ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے اور پھر یہی ہوا کہ ایک منحوس دن ایسا بھی آیا کہ جب اپنوں کے گھناؤنے کردار کی وجہ سے قبیلے کی شاخیں کہ جو مضبوط بازوؤں کی شکل میں دشمن قبیلے کو گھیرے ہوئے تھیں ان میں سے ایک بازو ٹوٹ کر علیحدہ ہو گیا۔
یہ اتنا بڑا سانحہ تھا کہ جس کے بعد خواب غفلت 
میں پڑے اس قبیلہ کے ارباب اختیار کو ہوش میں آ جانا چاہئے تھا لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا بلکہ ہوس اقتدار میں مبتلا طبقہ یہ سوچ کر پہلے سے زیادہ متحرک ہو گیا کہ قبیلہ کی دوسری شاخ تو ہزاروں میل دور تھی اس لئے ہم اس کا دفاع نہیں کر سکے لیکن اب ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ اس غلط سوچ کی وجہ سے وہ ریاست کہ جس کی بقا کا سب سے اہم اور اولین اصول ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ ریاست میں بسنے والی تمام اکائیوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتی ہے اسی اصول کو پامال کیا جانے لگا جس سے قبیلہ میں بسنے والی مختلف اکائیوں میں احساس محرومی جنم لینے لگا یہاں تک ہوا کہ قبیلہ کو متحد رکھنے والی مقبول ترین شخصیات میں سے کسی کو تختہ دار پر لٹکا کر عبرت کی مثال بنا دیا گیا تو کسی کو بھرے مجمع میں سرے عام گولی مار کر قتل کر دیا گیا اور کسی کو جلاوطن کی زندگی گذارنے پر مجبور کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد دوسروں کو مجبور کیا جانے لگا کہ جو کہا جائے وہ کرو اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو پھر قید و بند کی صعوبتوں کے لئے تیار رہو۔وہ مقبول عوامی رہنما کہ جنھوں نے دشمنوں کے مقابلہ میں اپنی سرزمین کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا تھا اور وہ جنھوں نے اس قبیلہ کے باسیوں کی ترقی کے لئے بہت کچھ کیا تھا انھیں فقط اس لئے رائندہ درگاہ بنا دیا گیا تھا کہ انھوں نے محکوم بننے سے انکار کر دیا تھا۔ عوامی حمایت سے محروم طبقات کی عقل سے پرے فہم و فراست سے دور حکمت عملیوں نے ملک کو قتل و غارت گری کی آماجگاہ بنا کر رکھ دیا۔ جس سے ہزاروں بے گناہ لقمہ اجل بن گئے اور معیشت تباہ ہو کر رہ گئی۔ قبیلے کی محب وطن قوتیں جو کر سکتی تھی انھوں نے کیا لیکن ان کے بس میں کچھ نہیں تھا او ر اس طرح ملک تباہی کی سمت جاتا رہا اور اہل درد بے بسی سے دیکھتے رہے۔
اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی اہل ہوس اپنی حاکمیت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھے۔ وہ ہر گذرتے دن کے ساتھ نئے نئے ہتھکنڈوں سے اپنی گرفت کو مضبوط سے مضبوط کرتے چلے گئے اور یہ بھول گئے کہ اسی ہوس اقتدار نے پہلے بھی قبیلہ کی دوسری شاخ کو علیحدہ کر دیا تھا اور اب بھی اگر قبیلے میں بسنے والے تمام گروہوں سے مساوی سلوک نہ کیا گیا اور سب کو یکساں حقوق نہ دیئے گئے تو قبیلہ کے اتحاد کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں لیکن قبیلہ کے ارباب اختیار کسی کی سننے کو تیار نہیں تھے وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے تھے ان کی ہٹ دھرمی پر احمد فراز کی ایک خوبصورت نظم یاد آگئی۔ قبیلہ کے حالات کی ترجمانی شاید اس سے بہتر ممکن نہ ہو۔ 
مجھے خط ملا ہے غنیم کا
بڑی عُجلتوں میں، لکھا ہُوا
کہیں، رنجشوں کی کہانیاں 
کہیں دھمکیوں کا ہے سلسلہ
مجھے کہہ دیا ہے امیر نے
تمہیں کیا پڑی ہے کہ رات دن
کہو،،،،،، حاکموں کو بُرا بھلا
تمہیں،،، فکرِ عمرِ عزیز ہے
تو نہ حاکموں کو خفا کرو
جو امیرِ شہر کہے تُمہیں 
وہی شاعری میں کہا کرو
کوئی واردات کہ دن کی ہو
کوئی سانحہ کسی رات ہو
نہ امیرِ شہر کاذکر ہو
نہ غنیمِ وقت کی بات ہو
کہیں تار تار ہوں،، عصمتیں 
میرے دوستوں کو نہ دوش دو
جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر
تو نہ کوتوال کا،،،،، نام لو
کسی تاک میں ہیں لگے ہُوئے
میرے جاں نثار،،،،، گلی گلی
میرے جاں نثاروں کو حُکم ہے
کہ،،،،،، گلی گلی یہ پیام دیں 
جو امیرِ شہر کا حُکم ہے
بِنا اعتراض،، وہ مان لیں 
جو میرے مفاد کے حق میں ہیں 
وہی،،،،،،، عدلیہ میں رہا کریں 
مجھے جو بھی دل سے قبول ہوں 
سبھی فیصلے،،،،،،، وہ ہُوا کریں 
جنہیں مجھ سے کچھ نہیں واسطہ
انہیں،،،، اپنے حال پہ چھوڑ دو
وہ جو سرکشی کے ہوں مرتکب
انہیں،،،،، گردنوں سے مروڑ دو
وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں 
اُنہیں،،،، زر کا سکہ اُچھال دو
جنہیں،،،،، اپنے درش عزیز ہوں 
اُنہیں کال کوٹھڑی میں ڈال دو
جو میرا خطیب کہے تمہیں 
وہی اصل ہے، اسے مان لو
جو میرا امام،،،،،،، بیاں کرے
وہی دین ہے، سبھی جان لو
جو غریب ہیں میرے شہر میں 
انہیں بُھوک پیاس کی مار دو
کوئی اپنا حق جو طلب کرے
تو اسے زمیں میں اتار دو
جو میرے حبیب و رفیق ہیں 
انہیں، خُوب مال و منال دو
جو، میرے خلاف ہیں بولتے
انہیں، نوکری سے نکال دو
جو ہیں بے خطاء وہی در بدر
یہ عجیب طرزِ نصاب ہے
جو گُناہ کریں وہی معتبر
یہ عجیب روزِ حساب ہے

مصنف کے بارے میں