ہمیں ایسا بادشاہ ملے گا؟

ہمیں ایسا بادشاہ ملے گا؟

عبد اللہ کے بعد 913ء میں اس کا پوتا عبد الرحمان سوم ہسپانیہ کا بادشاہ ہوا۔عبدالرحمان کے دو بیٹے تھے الحکم اور عبداللہ۔ دونوں بیٹے قابل اور ممتاز تھے۔لیکن بادشاہ نے الحکم کو ولی عہد بنایا۔بادشاہ کے بیٹے عبداللہ کا ایک اچھا دوست ابن عبدلدار تھا۔ابن عبد الدار کو بادشاہ کے اس امر کی شکایت تھی۔عبدالدار نے عبد اللہ کو بھڑکایا اور اسے بغاوت پہ آمادہ کر لیا۔ چنانچہ اس ساعت نحس میں بادشاہ اور الحکم کو قتل کرنے کی خوفناک سازشیں کی گئی۔بادشاہ عبدالرحمان کو اس بات کی خبر ہوئی،اُس نے ایک معتبر سردار کو ہمراہ کافی فوج کے کارڈوا روانہ کیا۔جہاں شہزادہ اپنے دوست کے ہمراہ گرفتار کر لیا گیا۔جب بادشاہ کے سامنے پیش ہوا تو اس سے پو چھا گیاکہ اس وجہ سے تم غمگین ہو کہ تم بادشاہ نہیں۔
شہزادے عبداللہ نے کوئی جواب نہ دیا لیکن اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔بادشاہ کے حکم سے الگ الگ کمروں میں عبدالدار اور عبداللہ کو بند کر دیا گیا۔عبدالدار تو راتوں رات ہی خودکشی کرکے مر گیااور شہزادے عبداللہ کا سر قلم کرنے کا حکم صادر ہو گیا۔عبد اللہ کا بھائی الحکم جو کہ ولی عہد تھا وہ اپنے بھائی سے بے انتہا محبت رکھتا تھا رحم کی سفارش کی مگر بادشاہ نے نامنظور کر دی۔
اُنہوں نے کہا کہ تمھاری سفارش اور التجا بجا ہے میں بھی یہی چاہتا ہوں اور اس کی موت کو ٹھنڈے دل سے دیکھنا گوارا نہیں لیکن میں بادشاہ ہوں مجھ کو آئندہ کا خیال بھی رہنا چاہیے عبداللہ کے د ل کی خلش کبھی نہ جائے گی۔میرے بعد تم دونوں ہمیشہ لڑتے رہو گے تم دونوں کا انجام جو ہو سو ہو لیکن رعایا تباہ و برباد ہو جائے گی۔کتنی مائیں اپنے بچوں کو روئیں گی،کتنی عورتیں بیوہ ہونگی،اور کتنے بچے یتیم ہو جائیں گے،ملک میں قحط سالی اور فصلوں کی تباہی دائمی بد امنی پیدا کر دے گی۔جب ان باتوں کی طرف میرا خیال جاتا ہے تو میں کانپ اُٹھتا ہوں۔اس لیے ہزاروں لوگوں کو بے خانما، ہزاروں عورتوں کو بیوہ اور ہزاروں بچوں کو یتیم بنانے کے بجائے بہتر ہے ایک ہی شخص کا جو بانی فساد ہے خاتمہ کر گیا جائے۔
میں اپنے نوجوان فرزند کے لیے نہایت روؤں گا جب تک میری زندگی ہے روتا رہوں گا لیکن اے الحکم!نہ تمھارے آنسو اور نہ میرا رونا اور میرے خاندان کی سفارشیں میرے اس بد قسمت بیٹے کو اس صریح جرم کی سزا یابی سے بچا سکتی ہیں۔
چنانچہ عبداللہ اسی شب کو قتل کر دیا گیا اور دوسرے دن اپنے خاندانی قبرستان میں دفن ہوا۔
ایک ہسپانیہ کا بادشاہ تھا جس نے رعایا کے فوائد پر بیٹے کو قربان کر دیا۔یہ واقعہ تو صدیوں پہلے پیش آیا کیا اب کسی حکمران کے سوچنے کا انداز رعایا کے لیے ایسا ہو سکتا ہے۔آج کے اس جمہوری دور میں کتنے عبدلدار ہیں جنہوں نے انتشار پھیلایا مگر آج تک کسی عبدالدار نے خودکشی نہیں کی۔اور جو اس اقتدار کے لیے لڑتے ہیں وہ آپس میں بھائی تو نہیں مگر یہ لڑائی مختلف خاندانوں کے بیچ سالہا سال سے ضرور چلتی چلی آرہی ہے، افسوس!یہ وہ خاندان ہیں جنہوں نے صرف اپنی کرسیوں کا تو سوچا مگر بدقسمتی سے رعایا کے لیے آج تک نہیں سوچا۔
بدقسمتی ہی کہوں گی آج تک اس ملک اور رعایا کو ایسا کوئی بادشاہ نصیب نہیں ہوا جس نے قحط سالی یا فصلوں کی تباہی کے بارے میں سوچا ہو؟اور آج تک اس جمہوری دور میں کتنی مائیں ایسی ہیں جن کی گودیں اجڑیں کبھی کسی نے سوچا،ہاں پہنچتے ہیں ایسے سانحات پہ کچھ فوٹو سیشن کے لیے اور اچھا بننے کے لیے کہ ہم بہت درد رکھتے ہیں،کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں جنھیں چند روز یاد رکھا جاتا ہے اور اُن کے ساتھ ہمدردی کی جاتی ہے مگر بعد میں وہ کیسے اپنی زندگی کی گزر بسر کرتی ہیں وہ یاد نہیں شاید اُن خاندانوں کو تو یہ بھول ہی جاتے ہیں یہ لوگ اپنی کرسی بچانے کے لیے جن کی قربانی دیتے ہیں۔
مگر رعایا کے بڑھتے مسائل کو کون سوچے گا؟کیا آج تک بڑ ھتے مسائل کے بارے میں اورمہنگائی کے بارے کسی نے سوچا؟نہ جانے اس جمہوریت نے کتنی ماؤں کے بچے نگل لئے اور کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں کسی کی صحت پہ کوئی فرق پڑا،یا کسی ایک حکمران نے بھی اپنی طرز سوچ کو بدلا ہو۔
میں جانتی ہوں قارئین کا جواب یقینا،نا میں ہو گا۔آج تک کسی ایک حکمران نے رعایا کہ بہتری کے لیے اپنے بیٹے کے بارے میں تو دور کی بات اپنے لوٹے ہوئے مال سے کسی نے ایک دمڑی بھی واپس کی ہو۔آپ دیکھئے آپسی مسائل آج بھی زوروں پہ ہیں۔مختلف شہروں میں بچوں کے اغوا کے کیسز سامنے آرہے ہیں نہ جانے کتنے گروہ ہیں اور کتنے اُن کے سرغنہ ہیں جو کہ انسانی جانوں کے سا تھ کھیل کر کتنے گھناؤنے دھندے کر رہے ہیں مگر مجال ہے کہ حکومتی سطح پہ کسی نے ایکشن لیا ہو یا ایسی کارروائی ہنگامی طور پہ کی گئی ہو جس سے ان لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔ مگر جس کا بچہ ہے اُسی کا ہے،جس کی بیٹی ہے وہ اُسی ماں، باپ کی بیٹی ہے جس نے اُسے جنا ہے۔جس کی عزت ہے اُسی کی ہے کیونکہ اب وقت بدل گیا ہے اور ہم نے بہت ترقی بھی کر لی ہے اب وہ دور نہیں رہا جب بچے سب کے سانجھے،اور بیٹیوں کی عزتیں سب کی سانجھی ہوا کرتی تھیں۔ ایک طرف یوں اغواء کے کیسز سامنے آرہے ہیں اور حکومتی سطح پہ اگر فکر ہے تو صرف اپنی عزت بچانے اور جھوٹ چھپانے پہ سارے ادارے اور حکومتی مشینری لگی ہوئی ہے جو کہ آڈیو لیکس سامنے آرہی ہیں اور ہیکرز کو ڈھونڈے کی سر توڑ کوشش جاری ہے۔
اس کے لیے ہنگامی سطح پہ سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا۔اب اس آڈیو لیکس میں مزید کیا کیا ہے یہ تو وقت ثابت کرے گا اگر کوئی حل کر لیا،اگرفرض کیجئے کوئی حل یا تدبیر فوری طور پہ نہ کی گئی تو ہماری ملکی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ہماری ملکی تاریخ کمیشنوں اور کمیٹیوں سے بھری پڑی ہے اور یہ افسوس ناک بات ہے کہ ان کمیشنوں اور کمیٹیوں سے معاملات کو ٹھنڈا کیا جاتا رہا ہے مگر حتمی حل آج تک نہ ہوا اور نہ ہی کبھی وہ مقصد پورا ہوا جس کے لیے ان کمیٹیوں یا کمیشنوں کی تشکیل دی جاتی رہی۔ یہ محض آڈیو لیکس کا مسئلہ نہیں ہے ملکی سلامتی ایشو ہے جس کا حل ہونا ضروری ہے۔اس ایک واقعے اور سابقہ واقعات کا موازنہ کریں تو دن بہ دن حساسیت مزید بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے جس کا حل ضروری ہے کہ عام شہریوں کو بھی اس قسم کے بلیک میلنگ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہ ڈیجیٹل دور ہے جو نئے قوانین کا بھی متقاضی ہے،اگرچہ یہ کام ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ساتھ ہی ہونا چاہیے تھا مگر اب حکومت نے اس بات کا بیڑا اُٹھایا ہے کہ اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے مگر بات تو پھر اُسی ایک نقطے پہ جا کر ٹھہرتی ہے کہ جب اپنے سر پڑتی ہے تو چوٹ تبھی پہنچتی ہے۔

مصنف کے بارے میں