آڈیو لیکس: قومی سلامتی کے تناظر میں

آڈیو لیکس: قومی سلامتی کے تناظر میں

آڈیو لیکس ہمارے جاری سیاسی و معاشی بحران کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرتی بحران پر بھی جلتی پر تیل کا کام کررہی ہے ہم بڑے سیاسی و معاشی بحران کا شکار ہیں دونوں بحران ایک دوسرے سے جڑے نظر آ رہے ہیں۔ سیاسی بحران کا آغاز 2017 میں ہوا جب نوازشریف کی چلتی بلکہ دوڑتی حکومت کو نکیل ڈالنے کی منظم کاوشیں کی گئیں۔ ترقی کرتی معیشت، تعمیروترقی کی طرف گامزن ملک کو ایک خوفناک بحران سے دوچار کر دیا گیا۔ نوازشریف کو ایک ایسے مقدمے میں سزا دی گئی جس کی بنیادیں ہی نہیں تھیں۔ کہا گیا کہ آپ نے اپنے بیٹے سے طے کردہ ملنے والی تنخواہ کا اپنی ٹیکس ریٹرن میں ذکر نہیں کیا اس لئے آپ نے جھوٹ بولا، کہا گیا کہ میں نے تو یہ رقم کبھی وصول ہی نہیں کی تو جو رقم میرے پاس ہی نہیں آئی میری آمدنی کا حصہ ہی نہیں بنی تو اس کو ریٹرن میں ظاہر نہ کرنا کیسے جرم ہوا؟ لیکن کیونکہ نوازشریف کو منظر سے ہٹانا طے تھا اس لئے انہیں سزا دے دی گئی۔ نااہل قرار دے کر سزا دے کر جیل بھجوا دیا گیا ملک ایک بڑے سیاسی بحران کا شکار ہو گیا۔ الیکشن 2018 جس انداز میں منعقد کئے گئے اس نے سیاسی بحران میں اضافہ کیا۔ عمران خان کی تحریک انصاف کو اقتدار میں لایا گیا تو اس تاریخی معاشی بحران کا آغاز ہو گیا جس کا شکار آج پورا پاکستان ہے۔ عمران خان کے 44 ماہی دور اقتدار میں ہر شے، ہر ادارہ ان کے منفی بیانات، ان کی ناکارکردگی اور نااہلی کی زد میں رہا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر دستخط کر کے ان کی شرائط پر عمل درآمد نہ کر کے پاکستان کی معیشت پر حتمی اور کاری ضرب لگائی گئی جس کے اثرات آج ہم مہنگائی اور شدید مہنگائی کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اسی نالائقی اور نااہلی کی شاہکار ہیں۔
اپریل 2022 میں عمران حکومت کی رخصتی اور شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کے قیام سے معاملات میں بہتری کی صورت پیدا ہونے کی امید پیدا ہوئی تھی۔ شہباز شریف حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے کو اولین ہدف قرار دیا تھا تین ماہ تک معاملات طے کرنے اور ڈیفالٹ سے بچنے کے لئے حکومت نے کئی بڑے اقدامات اٹھائے جن کے نتیجے میں عوامی معیشت پر شدید دباؤ پڑا۔ بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ قدر زر میں گراوٹ کے باعث مہنگائی کا سونامی آیا۔ عوام بلبلا اٹھے لیکن حکومت انہیں یقین دلاتی رہی کہ مشکل دن بیت جانے کے لئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہونے کے بعد معاملات درست ہوں گے عوام نے کڑوی نہیں بلکہ مہنگائی کی زہریلی گولی بھی نگل لی لیکن معاہدہ ہو جانے اور رقم وصول ہو جانے کے باوجود معاملات میں بہتری نظر نہیں آئی۔ ایسے 
میں اسحاق ڈار کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ ہوا۔
اسحاق ڈار منجھے ہوئے، آزمودہ کار معاشی حکمت کار کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی آمد کے اعلان سے یہاں پاکستان میں ہلچل مچ گئی سٹہ بازوں کی دنیا اجڑتی نظر آنے لگی۔ امید کی جا رہی ہے کہ معاشی معاملات میں بہتری پیدا ہو گی۔ ایسے میں آڈیو لیکس کا ڈرون حملہ ہو گیا۔ میڈیا میں اسی کا چرچا ہو رہا ہے جب شہباز شریف کی توقیر شاہ کے ساتھ گفتگو کی آڈیو لیک ہوئی تو عمران خان نے بڑھکیں ماریں۔ حالانکہ جاری کردہ لیک میں کوئی ایسی خلاف قانون بات کا اظہار نہیں ہوتا ہے۔ شہباز شریف بھی شاہ صاحب کو کہتے ہیں کہ مریم نواز کو بتا دیا جائے/ سمجھا دیا جائے کہ ان کا کام نہیں ہو سکتا ہے۔ لیکن عمران خان تو منفی سیاست کے بے تاج بادشاہ ہیں اس لئے انہوں نے اس لیک پر واویلا مچایا یہ شوروغوغا ابھی جاری ہی تھا کہ عمران خان کی آڈیو بھی لیک ہو گئی اس آڈیو میں جو گفتگو سامنے لائی گئی ہے وہ انتہائی خطرناک اور شرمناک ہے اس سے عمران خان کے اس بیانیے کی مکمل طور پر نفی ہوتی ہے جو انہوں نے اپریل 2022 کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے ساتھ اقتدار سے علیحدگی کے بعد بنایا تھا وہ ”آزادی“ اور ”امریکہ دشمنی“ کے ذریعے اپنے آپ کو بڑا لیڈر ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے وہ بیانیہ اس لیک کے ساتھ ہی مکمل طور پر لیک ہو کر رہ گیا ہے۔
اس کھیل میں ابھی سودوزیاں کے اور بھی مقامات آتے ہیں۔ بات صرف لیکس کے ذریعے عوام کے سامنے آنے والی معلومات کی نہیں ہے۔ معاملہ یہ بھی نہیں ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں کس طرح نقب لگائی گئی۔ اور پھر طویل ریکارڈنگز کو ڈارک ویب پر ڈال دیا گیا۔ اصل معاملہ اس سے اوپر کا ہے۔ ہم ان لیکس کو اپنے جاری اندرونی معاملات کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں لیکن بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ لیکس کے ذریعے ایک بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ یہ ”سازش“ ہے اور جو مہارت اس سازش میں درکار تھی۔ ریکارڈنگ کرنا، آلات نصب کرنا اور پھر انہیں طویل عرصے تک ”زندہ“ رکھنا بڑی مہارت کا متقاضی ہے کہا جا رہا ہے کہ جدید آلات و ٹیکنالوجی کے باعث ایسا کرنے کے لئے اب آلات کو مخصوص جگہ پر نصب کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ ریموٹ انداز میں بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال ایسا لگتا ہے کہ کوئی ”تیسرا فریق“ اس کام میں ملوث ہے۔ یہ فریق ہمارے پاور اور سٹیٹ سٹرکچر کا حصہ نہیں بلکہ ”بیرونی“ ہے جو پاکستان کے حوالے سے مخصوص نتائج پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن وار تو ایک عرصے سے جاری ہے جس کے ذریعے ناامیدی، نااہلی، ناکارکردگی کے فروغ اور معاشرے میں کشیدگی پھیلا کر پاکستان کو کمزور کرنا شامل ہے۔ عمران خان ایک عرصے سے ریاست اور مملکت کے مختلف شعبوں اور ان سے متعلق افراد پر حملہ آور ہیں ان کی بے توقیری کے ذریعے، معاشرے میں ان کی آئینی و قانونی وقعت کو کم کیا جا رہا ہے۔ سیاسی لیڈر ہوں یا الیکشن کمیشن اور عدلیہ جیسے آئینی و پارلیمانی ادارے، سب عمران خان کے ٹھیک ٹھیک نشانوں پر ہیں۔ عمران خان بڑی حد تک اپنے اس مشن میں کامیاب بھی نظر آ رہے ہیں۔ معاشرے میں ناامیدی کی جو لہر انہوں نے پیدا کر رکھی ہے وہ انہی کا کارنامہ ہے۔ آڈیو لیکس کے ذریعے تیسری قوت بھی متحرک ہوتی نظر آ رہی ہے اس کے ذریعے ایسا تاثر پیدا ہو گیا ہے کہ پاکستان غیرمحفوظ ہے، اگر وزیراعظم جیسا اہم اور بڑا ادارہ ان کی دسترس میں ہے تو پھر کیا ہمارا ایٹمی پروگرام بھی ان کی دسترس میں نہیں آ سکتا ہے۔ امریکی ایک عرصہ پہلے ایرانی نیوکلیئر پروگرام پر سائبر حملہ کر کے اسے ناکارہ بنا چکے ہیں۔ بات آگے بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ہمیں آڈیو لیکس کو صرف سیاسی تناظر میں نہیں دیکھنا بلکہ اسے قومی سلامتی کے ایشو کے طور پر لینا چاہئے کیونکہ معاملات ہاتھوں سے نکلتے نظر آ رہے ہیں۔ قومی سلامتی کونسل نے اجلاس کر کے اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے دیکھتے ہیں اس کی تحقیقات کیا اخذ کرتی ہیں۔ ہمیں اس کا انتظار کرنا چاہئے۔

مصنف کے بارے میں