ناکام گورننس

ناکام گورننس

حکومت کے بلند بانگ دعوے اپنی جگہ مگر ہر شہری بخوبی یہ جانتا ہے کہ حکومت نے اپنی تین سالہ جو حکومتی کارکردگی ظاہر کی ہے وہ محض ایک بیان ہے اس وقت ملک کا ہر شعبہ ناکامی کا شکار ہے اور حکومت ان تین برسوں میں کوئی بھی نمایاں کام کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے گورننس کو بہتر بنانے کیلئے سنجیدگی سے کام نہیں لیا اور نہ ہی ترجیحاتی بنیادوں پر گورننس کی بہتری کے لئے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا ہے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ اس وقت ملک میں ہر طرف مہنگائی کی لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ شوگر مافیا، آٹا مافیا اور گھی مافیا نے اپنی مرضی کے نرخ مقرر کر کے مہنگائی کو کنٹرول سے باہر کر دیا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ اس مافیا میں شامل کچھ لوگ حکومتی صفوں میں شامل ہیں اور کچھ ان کے اردگرد طواف کرتے نظر آتے ہیں۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال بھی سب کے سامنے ہے۔ قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ حکومت نے لاء اینڈ آرڈر کو بہتر بنانے مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور معاشی نظام کو مضبوط کرنے کے بجائے صرف اور صرف ایک ہی کام کیا ہے کہ کسی طرح سیاسی مخالفین کو پابند سلاسل کیا جائے۔ اس جنون میں حکومت نے ان تمام حدوں کو پار کر لیا ہے جس سے ناکام ریاست کا ڈھانچہ دکھائی دینے لگا ہے۔ موجودہ حکومت ملکی تاریخ کی ناکام اور نالائق ترین حکومت شمار کی جانے لگی ہے کیونکہ اس حکومت کو سیاسی مخالفین کے خلاف کرپشن کی ہرزہ سرائی کرنے اور عوام کو کھوکھلے نعروں کے سوا عملی طور پر کچھ نہیں دیا ہے۔ محض کرپشن کے نعرہ کو سیاسی سکورنگ اور اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کیا ہے اور تو اور عوام کو بے وقوف بنا کر چور چور کے شور کی گونج کی آڑ میں بدعنوانی کے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ جہاں انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ جس کے مطابق موجودہ حکومتی  دور میں ریکارڈ کرپشن ہوئی ہے یہاں تک کہ بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھی زیادہ مہنگائی کی شرح ہو چکی ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ملکی عدالتوں نے ڈیم کے نام فنڈز کو اکٹھے کر کے حکومت کے ساتھ مل کر عوام کو ٹھینگا دکھا دیا کوئی ڈیم بنایا گیا اور نہ ہی کوئی پاور پراجیکٹس لگائے گئے ہیں۔ بھوک ہر طرف ناچتی دکھائی دے رہی ہے اور حکومت ڈھٹائی سے سب اچھا ہے کا ورد کئے جا رہی ہے۔ ملکی خارجہ پالیسی کا یہ عالم ہے کہ ہمسائے ملک کے منتخب ہونے والے وزیراعظم نریندر مودی سے ایک امریکی صدر جوبائیڈن تک کسی نے آج تک ہمارے وزیراعظم صاحب کی کال اٹینڈنہ کی ہے وزیراعظم کے قریبی مشیر قومی سلامتی امور معید یوسف صاحب کئی بات یہ واویلا کرتے نظر آئے ہیں کہ امریکی صدر کو چاہیے کہ وہ وزیراعظم کو فون کال کر کے موجودہ صورت حال پر بات چیت کریں پاکستان اس خطہ کا اہم ترین ملک ہے اگر اس کو کامیاب خارجہ پالیسی کا نام دیتے ہیں تو اس ملک اور حکومتی وزراء کا اللہ ہی حافظ ہے۔ دوسری طرف ریاستی اداروں میں کرپشن کا دور 
دورہ ہے مہنگائی کے نہ ٹوٹنے والے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔ نوے دنوں میں تبدیلی لانے کے دعوے داران تین برسوں میں ایک بھی کوئی ایسا کارنامہ سر انجام دینے میں ناکام رہے ہیں جس کو عوام کے سامنے پیش کر کے اپنے دامن کو بچا سکیں۔ ڈالر کی قیمت دن بدن بڑھ رہی ہے اور ہمارے روپے کی قدر وقت کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر حکومت نے کوئی کام کیا ہے تو وہ صرف انتقامی کارروائی اور اعلیٰ عہدوں پر تعینات افسران کی تبدیلی ہے۔ آئی جی پنجاب کی 
تبدیلی۔ کبھی بی آر ٹی رپورٹ روک دی گئی، کبھی وزیر خزانہ بدل دیا گیا کبھی معزز ججز کے خلاف ریفرنس بنا دیئے گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہٹانے کے لیے کتنے جتن کیے گئے اگر ان کاموں کو حکومت اپنی کارکردگی گردانتی ہے تو پھر ان کی نظر میں یہی تبدیلی ہو گی مگر عوام کم از کم اس کو تبدیلی نہیں گردانتے۔عوام تو حکومت سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ حکومتی سیٹوں پر براجمان وہ وزراء جنہوں نے آٹا، چینی اور گھی مہنگا کر کے لاکھوں نہیں اربوں روپے کمائے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کون کرے گا۔ کیا قانونی کارروائی محض سیاسی مخالفین کے خلاف کرنے کا نام ہے۔ اس وقت شرم سے سر جھک جاتے ہیں جب کانوں میں ایسی خبریں اور رپورٹیں دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ موجودہ حکومت کے دور میں ڈپٹی کمشنرز تک کے افسران کروڑوں روپے رشوت دے کر اپنے پسند کے اضلاع لیتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کا دور کرپٹ افسران کے لیے کسی سنہری دور سے کم نہیں ہے۔ اوکاڑہ میں تعینات ایک اعلیٰ پولیس افسر نے ابھی حال ہی میں لوٹ مار کے بل بوتے پر ایک پٹرول پمپ اپنے بھائی کے نام پر بنوایا ہے۔ مجال ہے کہ کوئی اس سے یہ پوچھنے والا ہو کہ دن دگنی رات چگنی یہ ترقی کیسے کی گئی ہے۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ عوام عدم تحفظ کے خوف کے باعث لب کشائی کرنے سے ڈرتے ہیں اور ان کا ڈرنا حق بجانب بھی ہے۔ جہاں پر حکومت اور قانون نام کی کوئی چیز موجود نہ ہو تو وہاں خوف کا عالم ہونا ایک قدرتی امر ہے۔ ہمارے ایک دوست کے والد محترم صادق چوہان (مرحوم) نے یہ قطعہ شاید اسی دور کے لیے لکھا تھا۔ ملک پاک مکاں پاک مگر ہم ناپاک۔ چاہے غضب، ہائے غضب فطر ت انسان ہے۔ بے باک یوں تو پر تول کے، پرواز تھی سوئے افلاک، ہے مگر تشنہ و ناکام خیال ہے بے باک۔