امریکا کو 20 سال افغانستان رہنے کے باوجود کچھ نہیں ملا ، روسی صدر

امریکا کو 20 سال افغانستان رہنے کے باوجود کچھ نہیں ملا ، روسی صدر
کیپشن: امریکا کو 20 سال افغانستان رہنے کے باوجود بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا، روسی صدر
سورس: فائل فوٹو

ماسکو: روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت نے جانی نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوج 20 سال سے افغانستان میں موجود رہی اور امریکی فوج نے اپنی اقدار جنگ زدہ ملک پر لاگو کرنے کی کوشش کی لیکن امریکا کو 20 سال افغانستان رہنے کے باوجود بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

چند روز قبل روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا تھا کہ دیگر ممالک اپنی اقدار افغانستان پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کریں۔ امید ہے کہ طالبان افغانستان میں قیام امن و امان کے حوالے سے اپنے وعدوں کی تکمیل کریں گے۔

ولادی میر پیوٹن نے کہا کہ یہ بہت ہی اہم ہے کہ افغانستان سے دیگر ممالک میں دہشت گردوں کو داخل ہونے سے روکا جائے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد جوبائیڈن نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا امریکا کی طویل ترین افغان جنگ کاخاتمہ ہوگیا اور افغانستان میں آئی ایس آئی ایس کی کمرتوڑ دی جبکہ افغانستان سے انخلا کا فیصلہ میں نے کیا اور یہ انخلا 31 اگست سے پہلے امریکیوں کی زندگی کی حفاظت کے لیے کیا ہے۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی فوجیوں نے 17 روز میں ہزاروں افراد کو افغانستان سے نکالا جبکہ کابل سے ہزاروں فوجیوں اور شہریوں کے انخلا کا خطرناک چیلنج پورا کیا جبکہ طالبان نے امریکا کا ساتھ دینے والے شہریوں کے پُرامن انخلا کا وعدہ کیا ہے اور 31 اگست کی ڈیڈلائن کا مقصد محفوظ انخلا یقینی بنانا تھا اگر ہم ڈیڈ لائن کے بعد رکتے تو تناو میں مزید اضافہ ہو سکتا تھا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ میرا اولین فرض ہے کہ امریکا کا دفاع کیا جائے اور اب امریکا کو 11 ستمبر جیسے خطرے کا سامنا نہیں ہے، ہم نے افغانستان میں داعش کی کمر توڑ دی، ہماری ہزاروں افواج اور اربوں ڈالر خرچ ہوئے ہیں جبکہ اب دہشت گردی دیگر ممالک تک پھیل رہی ہے ہمیں اس کا مقابلہ بھی کرنا ہوگا۔

انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ طالبان کی حکومت کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ ہم طالبان کے الفاظ پر یقین نہیں کریں گے ہم ان کے عمل کو دیکھیں گے۔ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ سابق افغان صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہوجائے گا اور افغانستان سے انخلا کے فیصلے کی پوری ذمہ داری لیتا ہوں اور افغانستان سے انخلا کا فیصلہ سول اور عسکری قیادت نے مشترکہ کیا تھا جبکہ میں نے افغانستان چھوڑںے کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے چھ ہزار فوجی کابل ایئرپورٹ بھیجے جنہوں امریکی اور غیر ملکی سفارت کاروں، امریکی شہریوں اور افغان باشندوں کا باحفاظت انخلا کا چیلنج مکمل کیا، میں کامیاب انخلا پر سفارت کاروں اور فوجیوں کا شکر گزار ہوں۔