سقوط کابل سے قبل بائیڈن اور غنی کے آخری ٹیلیفونک رابطے کی تفصیلات سامنے آ گئیں

 سقوط کابل سے قبل بائیڈن اور غنی کے آخری ٹیلیفونک رابطے کی تفصیلات سامنے آ گئیں
کیپشن: سقوط کابل سے قبل بائیڈن اور غنی نے ایک دوسرے کو کیا کہا تھا، تفصیلات سامنے آ گئیں
سورس: فائل فوٹو

واشنگٹن: افغانستان پر طالبان کے کنٹرول سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے افغان ہم منصب اشرف غنی کے درمیان آخری ٹیلیفونک رابطے میں دونوں رہنماؤں نے فوجی امداد، اسٹریٹیجی اور حکمت عملی پر بات کی تھی۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو کا متن خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے دیکھا اور ان کے مطابق بائیڈن اور اشرف غنی دونوں ہی اس بات سے لاعلم نظر آتے تھے کہ طالبان جلد پورے ملک کے اقتدار پر کنٹرول حاصل کر لیں گے۔

15 اگست کو اشرف غنی صدارتی محل سے بھاگ کر فرار ہو گئے تھے اور طالبان کابل میں داخل ہوئے، اس وقت سے اب تک ہزاروں مایوس افغان ملک سے فرار ہو چکے ہیں اور انخلا کے اس عمل کے دوران کابل کے ہوائی اڈے پر ہونے والے دھماکے میں 13 امریکی فوجی اور درجنوں افغان شہری مارے گئے تھے۔

رائٹرز نے صدارتی فون کال کے ٹرانسکرپٹ کا جائزہ لیا اور گفتگو کی تصدیق کے لیے آڈیو کو سنا مصد یہ مواد نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک ذریعے نے فراہم کیا کیونکہ وہ اسے تقسیم کرنے کا مجاز نہیں تھا۔

کال میں بائیڈن نے کہا تھا کہ اگر اشرف غنی عوامی سطح پر افغانستان میں بڑھتی ہوئی صورتحال کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ پیش کر سکتے ہیں تو وہ امداد کے لیے تیار ہیں۔

جو بائیڈن نے کہا تھا اگر ہمیں پتہ ہو کہ منصوبہ کیا ہے تو ہم فضائی مدد فراہم کرتے رہیں گے، مذکورہ کال سے کچھ دن پہلے امریکا نے افغان سیکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے فضائی حملے کیے تھے اور طالبان نے کہا تھا کہ یہ حملے دوحہ امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

امریکی صدر نے اشرف غنی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ آگے بڑھنے کی فوجی حکمت عملی کے طور پر طاقتور افغانوں کو خرید لیں اور وزیر دفاع بسم اللہ خان محمدی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ افغان صدر ایک طاقتور فرد کو ان افراد کا انچارج مقرر کردیں۔

بائیڈن نے افغان مسلح افواج کی تعریف کی جنہیں امریکی حکومت نے تربیت اور مالی اعانت فراہم کی تھی۔

انہوں نے اشرف غنی سے کہا تھا کہ آپ کے پاس بہترین فوج ہے، آپ کے پاس 70 سے 80 ہزار طالبان کے مقابلے کے لیے 3لاکھ مسلح فوجی ہیں اور وہ اچھی طرح لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

کچھ دن بعد افغان فوج نے ملک کے صوبائی دارالحکومتوں میں طالبان کے خلاف معمولی مزاحمت کے بعد ہی ہتھیار ڈالنا شروع کر دیے تھے۔

اس کال کے زیادہ تر حصے میں بائیڈن نے اس بات پر توجہ مرکوز کی جسے انہوں نے 'افغان حکومت کی سوچ کا مسئلہ قرار' دیا۔

جو بائیڈن نے کہا کہ مجھے آپ کو دنیا بھر اور افغانستان کے کچھ حصوں میں قائم ہونے والے تاثر اور سوچ کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں کہ طالبان کے خلاف جنگ کے حوالے سے حالات ٹھیک نہیں ہیں اور یہ سچ ہو یا نہیں لیکن ایک مختلف تصویر کشی کی ضرورت ہے۔

بائیڈن نے اشرف غنی سے مزید کہا کہ اگر افغانستان کی ممتاز سیاسی شخصیات ایک نئی عسکری حکمت عملی کی حمایت کرتے ہوئے ایک ساتھ پریس کانفرنس کریں گی تو اس سے سوچ اور تاثر بدل جائے گا اور اس سے میرے خیال میں بہت زیادہ تبدیلی آئے گی۔

امریکی صدر کے الفاظ اس بات کا عندیا دے رہے تھے کہ وہ 23 دن کے اندر اندر حکومت کے خاتمے اور طالبان کے اقتدار پر کنٹرول کی توقع نہیں کررہے تھے۔

بائیڈن نے کہا تھا کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سخت سفارتی، سیاسی معاشی جدوجہد جاری رکھیں گے کہ ناصرف آپ کی حکومت قائم رہے بلکہ وہ ترقی بھی کرے۔ وائٹ ہاؤس نے اس حوالے سے منگل کو کال پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

کال کے بعد وائٹ ہاؤس نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس بات پر توجہ دی گئی تھی کہ بائیڈن کانگریس سے فنڈز کے افغان سیکورٹی فورسز اور انتظامیہ کی حمایت کے لیے پرعزم ہیں۔

اشرف غنی نے بائیڈن کو بتایا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ اگر ہم فوجی حل میں توازن پیدا کر سکتے ہیں تو امن ہو سکتا ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں رفتار کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

اشرف غنی نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم ایک بڑے پیمانے پر حملے کا سامنا کر رہے ہیں اور پاکستان پر الزام لگایا تھا کہ وہ اس حملے کی منصوبہ اور اس کے لیے سہولیات فراہم کررہا ہے جس کے نتیجے میں کم از کم 10 سے 15ہزار بین الاقوامی دہشت گرد مہم میں حصہ لیں گے۔