سیلاب کا ذمہ دار کون....؟

 سیلاب کا ذمہ دار کون....؟

ہم پاکستان کی تاریخ کے مہلک ترین سیلاب سے گزر رہے ہیں۔ آخر اس سیلاب کا ذمہ دار کون؟ ہم میں سے اکثر اسے قدرت سے منسوب کر دیتے ہیں لیکن اگر گہرائی میں جائیں تو حضرت انسان کا اس میں بڑا اور بنیادی حصہ ہے۔ دنیا چیخ چیخ کر اس کی وجہ موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ اور اس سے نمٹنے کے لیے ناکافی اقدامات کو قرار دے رہی ہے لیکن ہم کبھی اسے سیاسی مخالفوں کی نااہلی یا مذہب سے جوڑ دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے بارہا پاکستان سمیت پوری دنیا کو اس حوالے سے یاددہانی کراتے آرہے ہیں۔ لیکن اس ملک کے سیاستدان، خاکی اسٹیبلشمنٹ ، میڈیا، دانشور طبقہ، بیوروکریسی اور ادارے اس طرف سے کان ناک آنکھ سب بند کیے سیاستدانوں کی ”مارا ماری “ میں الجھے رہے۔ یہاں عمران خان کو قدرے کچھ کریڈٹ دینے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کی شدت محسوس کی اور کچھ اقدامات کیے۔ لیکن گزشتہ پچاس سال کی نااہلیوں سے نمٹنے کے لیے یہ اقدامات یقیناً ناکافی تھے۔ 
 ہمارے حکمرانوں کے نزدیک اس سے زیادہ اہمیت اقتدار سے چمٹے رہنے اور ” حقیقی آقاﺅں “ اپنے دم چھلوں کو خوش کرنے اور مخالفین کو غدار قرار دینے پر رہی۔ 
اس سے بڑھ کر ”خاکی اسٹیبلشمنٹ“ جو خداوند تعالی کے بعد اس مملکت خداداد کے سیاہ و سفید اور تمام رنگینیوں کی بھی مالک تھی نے بھی اس طرف توجہ نہ دی۔ حالانکہ وہ نام نہاد جمہوریت کے گھوڑے کو اس طرف ہانکتے تو وہ اپنی تمام تر توانائیاں فرض عبادتیں بھی بھول کر اس طرف لگا دیتے۔ لیکن اس کی شطرنج کے مہرے ان کے لے پالک سیاستدان تھے اور ان کی تمام تر پلاننگ پیادے سے شاہ کو مات دینے پر لگی رہی اور پچھلی رجیم چینج میں یہ کامیاب بھی رہے۔ اس کے علاوہ منتخب وزیر اعظم کو کٹھ پتلی عدالت سے پھانسی دلوانا، قائداعظم محمد جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح پر اپنے ایک کارندے ایوب خان کے ذریعے غداری کے فتوے لگوانا، یحییٰ خان کے ذریعے ملک کے دو ٹکڑے کرانا، ضیا الحق اور مشرف کے ذریعے پاکستان میں کلاشنکوف، سیاستدانوں کو نااہل کرنے، ہیروئن، فرقہ واریت کو فروغ دینا، افغان جنگ میں پاکستان کو امریکہ کی کالونی بننے دینا،پاکستان کی جمہوریت پر شب خون اور کالک ملنا جیسے دیگر مشاغل میں الجھے رہے۔ اگر یہ اپنے خون میں شامل حق حکمرانی کو ملک کے لیے مثبت استعمال کرتے تو پاکستان کا کچھ بھلا ہو سکتا تھا کیونکہ ان کے حکم کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی لیکن افسوس یہ بھی اسی رومیں بہہ گئے جس میں ہمارے سیاستدان ڈبکیاں لگا رہے تھے۔
 صحافت کسی بھی معاشرے کی آنکھ کان ناک ہوتے ہیں اور ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ آنے والے حالات کے بارے میں قوم اور حکومت کو بروقت آگاہ کر سکیں لیکن ہمارا میڈیا بھی اقتدار ، اپوزیشن اور ”خاکی سٹیبلشمنٹ“ کے ایوانوں سے باہر نکل ہی نہ سکا۔ میرے سمیت ہر ایک کو کوشش ہوتی تھی کہ سیاستدانوں کی پت کیے اتاری جائے کہ کیسے ان کے سیکنڈل اجاگر کئے جائیں۔ ہم نے مثبت جرنلزم کی طرف توجہ ہی نہ دی اور ساری مہارت ”مثبت جرنلزم“ کو حکومت وقت کی تعریفوں اور اپوزیشن کی ایسی کی تیسی پھیرنے کے ساتھ ساتھ ”خاکی اسٹیبلشمنٹ“ کو بھی لٹھے کی طرح بے داغ ثابت کرنے پر صرف کی۔ ہماے ملک میں صحافت کے جو شعبے مقبول ہیں ان میں کرائم، معیشت، شوبز، سیاست اور کھیل کے شعبوں کی رپورٹنگ شامل ہے اور ان پر ہی توجہ دی جاتی ہے کیونکہ یہ نسبتاً آسان ہے اور کسی سپیشلائزیشن کی ضروت کبھی محسوس نہ کی گئی۔ جبکہ سپیشلائزڈ صحافت پر توجہ تو کیا اس سے متعلق صحافی ہی ناپید ہیں۔ مجھے بہت افسوس ہوا کہ جب میں نے ماحولیات کے حوالے سے تحقیق اور حوالوں کے ساتھ پاکستان کے حوالے سے آرٹیکلز کی تلاش شروع کی تو مجھے مایوسی ہوئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں اس طرف توجہ ہی نہیں دی جاتی۔ الیکٹرانک میڈیا کی طرف آئیں تو یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے اینکرز بھی حقیقی مسائل پر توجہ کے بجائے اپنی اپنی پسند کے سیاستدانوں کو ہی مسیحا بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ 
 اب آئیں سیاستدانوں کی طرف سیاستدانوں نے ملک میں سیلاب کی آسان وجہ ڈھونڈ لی ہے اور وہ ہے ایک دوسرے پر الزام تراشی۔ ان میں سے سیاستدانوں کا ایک طبقہ تو سارا الزام پچھلی حکومت کے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار پر اس بے شرمی اور ڈھٹائی سے ڈال رہا ہے کہ اب شرم کو بھی شرم نہیں آتی۔ جبکہ دوسرا طبقہ تمام تر ذمہ داری دو جماعتی نظام کے تیس سالہ دور اقتدار پر ڈال رہا ہے۔ پچھے 9 سال میں ان کی حکومت ان علاقوں میں ہے جو ملک میں 90 فیصد سیلاب کا منبع ہیں اور وفاق میں بھی یہ 3 سال سے زائد حکمران رہے۔ انہوں نے یقیناً شجر کاری کی مہم وسیع پیمانے پر شروع کی لیکن گلوبل وارمنگ اور اس کے ممکنہ نتائج سے نمٹنے کے لیے ان کی توجہ قدرے کم رہی۔
 پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے تفریحی مقامات میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی ایک وجہ دریاﺅں اور پانی کی گزرگاہوں کے کنارے بے ہنگم تعمیرات ہیں۔ 2010 کے سیلاب میں بھی اسی قسم کی تباہی ہوئی لیکن ہم نے سبق نہ سیکھا۔ اگر آپ دریا کی قدرتی گزرگاہوں پر تعمیرات کر کے پانی کا رستہ روکیں گے تو نتائج یہی ہوں گے۔ عمران خان کی خیبر پختون خوا حکومت بھی موجودہ تباہی کی برابر ذمہ دار ہے کیونکہ اپنے قائد کے موقف کے خلاف انہوں نے تعمیرات کیں ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ 
پاکستان میں سیلاب کی بنیادی وجہ 7200 سے زائد گلیشیئرز ہیں جو کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پگھل رہے ہیں۔ کسی بھی حکومت نے اس طرف توجہ نہ دی نہ ہی عالمی سطح پر اس عفریت سے نمٹنے کے لئے کچھ کیا گیا۔ حالیہ سیلاب کو دیکھیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ مون سون کا موسم اور پگھلتے ہوئے گلیشئیرز موسم گرما میں پاکستان میں مہلک سیلاب کا باعث بنے۔ پاکستان کے دریا اور آبی گزرگاہیں مون سون کی بارشوں سے پہلے ہی بھرے ہوئے تھے لیکن سیلابی پانی جب ان میں شامل ہوا تو تباہی دو چند ہو گئی۔
سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے پاس انفرا سٹرکچر عنقا ہے۔ اس کا انداہ اس وقت ہوا جب سیلاب زدگان کی بحالی کا معاملہ ہوا تو ہمارے پاس وافر مقدار میں ٹینٹ جیسی چیز موجود نہ تھی اور ہمیں یہ امپورٹ کرنا پڑ رہے زندہ قومیں اور اہل حکومتیں آنے والے وقت کی پیش بندی کرتی ہے لیکن ہم بھک منگوں کی طرح کشکول لے کر دنیا میں چل پڑتے ہیں۔ یقیناً تاریخ کا ہولناک سیلاب ہے اور بیرونی امداد کے بغیر اس سے نمٹنا نا ممکن تھا لیکن ہمارے پاس آفات سے نمٹنے کے لیے ابتدائی طور پر کچھ تو انتظامات ہونے چاہیے تھے۔ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کس مرض کی دوا ہیں اس نے ان حالات سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں اس کا اربوں کا بجٹ کہاں جاتا ہے؟ انہوں نے آنے والی متوقع آفات کے حوالے سے پیش بندی کیوں نہ کی؟ ان سوالوں کے جواب آنے چاہئیںاور متعلقہ حکام کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
ایک اور تحقیق کے مطابق پاکستان 7,200 سے زائد گلیشیئرز کا گھر ہے جو کہ قطبین سے باہر کہیں بھی سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان نہ صرف گلیشیئر کا گرم مقام ہے بلکہ ہمالیہ میں ان کے پگھلنے کی رفتار کہیں زیادہ ہے۔ دوسرے برف اب ہمالیہ کے گلیشیئرز سے اس شرح سے ختم ہو رہی ہے جو کہ گزشتہ صدیوں کی اوسط شرح سے کم از کم دس گنا زیادہ ہے۔ برف پگھلنے کے ساتھ ساتھ، برفانی بہاو ندیوں میں سیلاب کا سبب بن رہا ہے۔۔
یقیناً ہمیں اپنے طور پر بھی سیاست سے ہٹ کر ان اہم ترین موضوعات پر دنیا سے مل کر ان آفات سے نمٹنے کےلیے سائنسی طور پر آﺅٹ آف بکس حل نکالنے کی ضرورت ہے ورنہ ہم ہر آنے والے سیلاب کے بعد اسی طرح واویلا کرتے رہیں گے۔ 
کالم کے بارے میں اپنی رائے وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔

مصنف کے بارے میں